عید الاضحی کے ثقافتی بیانیے کی تہذیب کی ضرورت


مذہبی بیانیہ کیسے ثقافتی بیانیے میں بدلتا ہے اس کی ایک بہت عمدہ مثال عید الاضحی سے قبل کے دس دن ہیں۔ یہ دن اب مذہبی روایت سے بڑھ کر ایک ثقافتی میلے میں بدل چکے ہیں اور میلے کسی بھی معاشرے پہ ٹھٹھک اور ٹھہر کر سوچ بچار کرنے کی دعوت ضرور دیتے ہیں۔

عید قربان پہ جہاں مذہبی بیانیہ دو آرا میں منقسم ہے ایک وہ جو اس قربانی کو مذہبی فریضہ نہیں سمجھتے اور دوسرے وہ جو سنت ابراہیمی کی ہر حال میں تجدید کا قائل ہیں مگر اس وقت جو صورتحال ہے وہ دعوت فکر دیتی ہے کہ اسے معاملے کو مذہبی پیرائے سے الگ ہو کر دیکھا جائے۔ وہ مذہبی بیانیہ جو ان دس دنوں کی تقدیس اور قربانی کی سنت ابراہیمی کی تجدید کا شد و مد سے قائل ہے وہ بھی یہ ماننے اور دیکھنے پہ مجبور ہے کہ یہ دس دن اب ایک ثقافتی میلے کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔

جانوروں کی بڑی بڑی منڈیاں آغاز ذوالحج سے سجنا شروع ہو جاتی ہیں جہاں میڈیا ان کی بھرپور کوریج کرتا ہے اور خوب صورت اور بڑھیا جانوروں کے لئے خوب رطب السان ہوتا ہے۔ نامی گرامی لوگوں کے فارم ہاؤسز اپنے جانوروں کے ساتھ ان منڈیوں میں اترتے ہیں عام آدمی بھی اپنے جانور لے کر جہاں پہنچتا ہے اور امید کرتا ہے کہ ان کے اچھے دام ملیں گے۔ لوگ اپنی ہمت و توفیق سے بڑھ کر جانور خریدنے کے شائق نظر آتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ سے لے کر ہر کاروبار میں ایک تیزی و سرگرمی کا رجحان نظر آتا ہے۔

ایک نئی ثقافت کا ظہور ہوتا ہے ہر طرف مختلف گاڑیوں میں لدے جانور ادھر ادھر جاتے نظر آتے ہیں۔ شہر کے نواح میں چارے کے سٹال کھمبیوں کی طرح اگ آتے ہیں۔ موسم کی شدت کو نظر انداز کر کے لوگ زیادہ تر شام کے اوقات میں گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور ات گئے ہر طرف اک ہجوم و رونق میلے کا سماں نظر آتا ہے۔ اس سے اگلا مرحلہ جانوروں کا محلوں و کالونیوں میں داخلہ ہے۔

اب ہم شہروں کی بات کرتے ہیں وہ شہر جہاں اب سال کے گیارہ ماہ بیس دن بچے، لڑکے بالے گھروں میں دبکے ویڈیو گیمز اور موبائل میں مگن تھے اس میلے نے انھیں گھروں سے باہر نکلنے پہ مجبور کر دیا ہے، موسم کی شدت و شدید گرمی بھی انھیں روکنے میں ناکام ہے۔ وہ کھیل کود میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جو گرمی میں ایک منٹ بھی اے۔ سی کے آگے سے نہیں ہلتے۔ انٹر نیٹ اور کمپیوٹر کے عہد میں بچوں کو جسمانی سرگرمی میں ملوث کرنا والدین کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے اور اب جب جانور گھروں کے باہر کھونٹے سے باندھ دیے گئے ہیں تو بچوں، نوخیزوں اور لڑکوں کا ہجوم ہے۔

جانوروں کی خدمت کا جذبہ عروج پہ ہے شاید بچوں و نوجوانوں کا ان معصوم جانوروں سے کوئی خاص تعلق ہے یا معصومیت، معصومیت کو کھینچتی ہے وہ بچے و لڑکے بھی جمع ہیں جنھوں نے ابھی جانور نہیں خریدے۔ گھروں میں موجود خواتین کی شامت آئی ہے بچے کبھی پانی شربت یا لسی مانگتے ہیں کبھی پسینہ خشک کرنے کو بار بار گھروں میں آتے ہیں۔ غرض ایک مستقل پارٹی ہے جو پوری شد و مد سے جاری و ساری ہے۔

اس کے بعد مقابلے بازی و مسابقت کا جذبہ ہے جو شدت سے سامنے نظر آتا ہے۔ عزیز رشتے دار اور پڑوسی اس جذبے سے بچ نہیں پاتے اور مقابلہ کیا جاتا ہے کہ کس کا جانور تگڑا ہے کس نے کتنی بڑی قربانی ادا کی اور کتنے جانور گرائے۔ یہ دیکھ کر زمانہ جاہلیت کا بازار عکاز یاد آ جاتا ہے کسر شاید صرف قصیدہ خوانی کی ہی رہ جاتی ہے۔ اس مقابلے بازی میں وہ طبقہ بھی خوش ہے جو اس مقابلے سے باہر ہے کیونکہ گوشت کسی نہ کسی ذریعے سے ان تک بھی پہنچ ہی جاتا ہے۔

آپ ایمانداری سے بتائیے کیا یہ ساری تصویر ایک سماجی اہم میلے کی نہیں ہے جس نے مذہبی بیانیے کو پچھاڑ دیا ہے؟

اور کیا اس اہم میلے سے اب نظریں چرانا ممکن ہیں؟ یہ سماج و معاشرے میں بہت نیچے تک سرایت کرچکا ہے۔

ہاں مگر شہر اور شہروں میں اس میلے کے نام پہ پھیلی گندگی اور جگہ جگہ پیوست تمبو قناتیں ضرور اس بات کا شدت سے تقاضا کرتی ہیں کہ اسے کوئی باقاعدہ شکل دے کر کسی تہذیب کے دائرے میں داخل کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments