شعبہ تعلیم پر رحم کریں!


آئین پاکستان کا آرٹیکل 25۔ A ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ پانچ سے سولہ برس کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے۔ اٹھارہویں ترمیم کو منظور ہوئے گیارہ برس بیت چکے ہیں۔ تاہم ابھی تک صوبے اس آرٹیکل پر عملدرآمد کو یقینی نہیں بنا سکے۔ اس وقت کم وبیش تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ فکرمندی کی بات یہ ہے کہ ہمیں ان بچوں کی کوئی فکر نہیں۔ کرونا سے جنم لینے والی وبائی کی صورتحال نے معاملات کے بگاڑ میں مزید حصہ ڈالا ہے۔

چند دن پہلے ایک رپورٹ میری نگاہ سے گزری۔ وہ بتاتی ہے کہ سرکاری اور نجی اسکولوں کے تقریباً پچاس لاکھ بچے جو کرونا سے قبل مختلف اسکولوں میں زیر تعلیم تھے، وبائی صورتحال میں تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ وجہ یہ کہ انہیں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہے۔ برسوں سے ہم تعلیم کے حوالے سے نہایت خوشنما نعرے، وعدے اور دعوے سن رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ کسی ایک نعرے یا وعدے پر بھی کلی طور پر عمل ہو جاتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔

یہ کسی ایک سیاسی جماعت یا گروہ کا المیہ نہیں ہے۔ ستر برس سے یہی صورتحال ہے۔ مثال کے طور پر تعلیمی پالیسی نام کی شے ہمیں کم کم دستیاب رہی۔ اگر کوئی تعلیمی پالیسی وضع ہوئی بھی، تو اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ کرونا وبا کے عہد میں جیتے ہمیں ڈیڑھ برس ہو چلا ہے۔ یہ کوئی کم عرصہ نہیں ہے۔ لیکن اس مدت میں کوئی پالیسی تشکیل نہیں دی جا سکی کہ طالب علموں کو تعلیم کی فراہمی کے لئے کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ انٹرنیٹ اور دیگر سہولیات کو کس طرح یقینی بنانا ہے۔ امتحانات کس طریق سے لینے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اس وبائی صورتحال میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی حد تک معاملات نسبتاً بہتر ہیں۔ مہنگے نجی اسکول بھی کسی نہ کسی طور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن کچھ خبر نہیں کہ سرکاری اور درمیانے درجے کے نجی اسکولوں کے بچوں پر کیا بیت رہی ہے۔ کرونا کے ہنگام وفاقی حکومت نے ٹیلی اسکول کا تجربہ کیا تھا۔ بظاہر یہ ایک اچھا اقدام تھا۔ مگر کچھ معلوم نہیں کہ اپنے گھروں میں بیٹھے طالب علم اس سے مستفید ہو بھی رہے ہیں یا نہیں۔

پی ٹی وی کے کچھ سینئر عہدیداران سے میری بات ہوئی۔ وہ جو برسوں بلکہ عشروں سے پی ٹی وی میں کام کر رہے ہیں۔ اس ٹیلی ویژن کے بارے میں انہیں بھی کچھ خبر نہیں۔ ایسے میں بھلا عام آدمی کو کیا اطلاع ہو گی۔ البتہ گیلپ نے ایک سروے کیا ہے۔ نتائج اس سروے کے یہ ہیں کہ تقریباً 70 فیصد افراد اس ٹیلی ویژن کی کارگزاری سے مطمئن ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ حکومت کی تسلی اور تشفی کے لئے یہ سروے اور اس کے نتائج کافی ہوں۔ عملی طور پر لیکن صورتحال ان نتائج کے برعکس ہے۔

اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کو تفویض ہو گیا تھا۔ اس وقت امید بندھی تھی کہ تعلیمی معاملات پر زیادہ توجہ مرکوز رہے گی۔ لیکن صوبائی سطح پر ٹھوس منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صوبائی حکومتوں نے سرے سے کچھ کیا ہی نہیں۔ کچھ نہ کچھ کام تو ہر صوبے نے کیا۔ باقاعدہ بجٹ بھی مختص ہوا۔ اسکولوں میں بچوں کے داخلوں کی مہم بھی چلی۔ والدین کو ترغیب بھی دی گئی کہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں۔ وظائف کا اعلان بھی ہوا۔ اسکولوں کی عمارتوں کی مرمت بھی ہوئی۔ اساتذہ کی تنخواہیں بھی بڑھیں۔ لیکن یہ سب وقتی اقدامات تھے۔ اگر یہ کام مستقل بنیادوں پر جاری رہتا تو یقیناً کچھ تبدیلی دکھائی دیتی۔ مگر ہوا یہ کہ ایک مہم چلی، اس کی میڈیا پر تشہیر ہوئی اور اس کے بعد یہ معاملہ طاق پر دھر دیا گیا۔

اسی طرح اعلیٰ تعلیم کا حال بھی اچھا نہیں ہے۔ ملک بھر کی جامعات کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔ وائس چانسلر صاحبان درخواستیں کر کے تھک چکے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ یہ تمام مسائل ہایئر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے طے کرنا ہوتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ یہ ادارہ خود مصائب میں گھرا ہوا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اس کے چیئر مین کو ایک صدارتی فرمان کے تحت ہٹا دیا گیا تھا۔ اس کھینچا تانی نے مزید بے یقینی کو جنم دیا۔ ہایئر ایجوکیشن کمیشن کی کچھ پالیسیاں بھی جامعات میں کنفیوژن پیدا کر رہی ہیں۔

مثال کے طور پر نئے حکم نامے کے تحت کمیشن نے بی۔ اے اور ایم اے کے پروگرام ختم کر دیے ہیں۔ یہ پروگرام برسوں سے جاری تھے۔ ان کی جگہ چار سالہ بی ایس اور ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام متعارف کروانے کے احکامات جاری ہوئے ہیں۔ چند ہفتوں بعد داخلوں کا موسم شروع ہو جائے گا۔ جامعات بے یقینی کی کیفیت میں ہیں کہ نہ جانے اس پالیسی کا اطلاق اس برس سے ہو گا یا اگلے کسی سال سے۔ اس ہنگام کراچی یونیورسٹی کی اکیڈیمک کونسل نے پرانے طرز کے بی۔ اے اور ایم۔ اے پروگرام جاری رکھنے کی منظوری دے دی ہے۔ سنتے ہیں کمیشن نے اس بات کا نوٹس بھی لے لیا ہے۔ دیکھیے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

دوسری طرف کئی ماہ سے پرائیویٹ میڈیکل کالج بھی سراپا احتجاج ہیں۔ کہنا ان کا یہ ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن کی پالیسیاں انہیں کالجوں کی تالا بندی پر مجبور کر رہی ہیں۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی نمائندہ تنظیم پامی کا یہ بھی کہنا ہے کہ کمیشن اپنے حدود سے تجاوز کرتے ہوئے، وفاقی ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے اختیارات استعمال کر رہا ہے۔ موقف ان کا یہ ہے کہ طبی تعلیم کے معاملات دیکھنے کے لئے ایک ایسی تنظیم ہونی چاہیے جسے طب اور شعبہ تعلیم کی سمجھ بوجھ ہو۔

چند دن پہلے سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت میں تعلیم سے متعلق مختلف معاملات زیر بحث آئے۔ وزارت تعلیم کے نمائندوں نے تفصیلی بریفنگ دی۔ کمیٹی نے اس معاملے پر اظہار افسوس کیا کہ ستر برس گزرنے کے باوجود تعلیم کے لئے بجٹ کا محض دو فیصد مختص کیا جاتا ہے۔ یہ خطے میں موجود تمام ممالک کے بجٹ سے کم ہے۔ کمیٹی میں طالب علموں کو انٹرنیٹ سہولت کی عدم دستیابی کا قصہ بھی زیر بحث آیا۔ ہایئر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی کارکردگی پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔

سنتے ہیں کہ قائمہ کمیٹی نے وفاقی ہایئر ایجوکیشن کمیشن کو ہدایت دی ہے کہ ملک بھر کی جامعات کے حوالے سے انہیں تفصیلی بریفنگ دی جائے۔ قصہ مختصر یہ کہ تعلیم کے حوالے سے کہیں سے کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں مل رہی۔ تمام خبریں اور اطلاعات شعبہ تعلیم کی ابتری اور بے سمتی کی غماز ہیں۔ لازم ہے کہ سیاسی کھیل تماشوں میں الجھے ارباب اختیار شعبہ تعلیم پر رحم کریں۔ اس کی جانب اپنی توجہ مبذول کریں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل بیٹھ کر تعلیم سے متعلق مسائل کا حل تلاشنا چاہیے۔

۔ ۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments