’لوِنگ فوسل`:قدیم ترین مچھلی جو ایک سو سال زندہ رہ سکتی

ہیلن برگز - نامہ نگار، ماحولیات


سیلوکانتھ

سنہ 2001 میں پکڑی جانے والی سیلوکانتھ نسل کی ایک مچھلی کینیا کے عجائب گھر میں رکھی ہوئی ہے

مچھلی کی ایک نہایت قدیم قسم جس کے بارے میں سائنسدانوں کا خیال تھا کہ اس نسل کی مچھلیاں زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہتیں، اب ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس مچھلی کی عمر ایک سو برس تک ہو سکتی ہے۔

اب سے پہلے عام تصور یہی تھا کہ ’زندہ فوسل‘ کہلائی جانے والی سیلیکانتھ نسل کی مچھلی کی اوسط عمر تقریباً 20 برس ہوتی ہے، لیکن نئے اندازوں کے مطابق شارک مچھلی کی طرح، سمندری حیات کی یہ قسم بھی ایک سو سال تک زندہ رہ سکتی ہے۔

سیلیکانتھ کو بھی ’زندہ فوسل‘ سمجھا جاتا ہے، یعنی ایسا جانور جس کی نسل میں لاکھوں برس میں کوئی ارتقاع نہیں ہوا ہے اور اس قبیلے کی دیگر سمندری حیات معدوم ہو چکی ہے۔

یہ انکشاف فرانسیسی ماہرین نے عجائب گھر میں رکھی ہوئی ہوئی ایک سیلیکانتھ مچھلی کی کھال پر چھلکوں کے نشانات کی بنیاد پر کیا ہے، تقریباً اسی طرح جیسے کسی درخت کی عمر کا تعین اس کے تنے میں بننے والے دائروں کو گن کر کیا جاتا ہے۔

فرانسیسی ٹیم کا خیال ہے کہ مچھلی کی یہ قسم اپنی نصف عمر گزر جانے کے بعد بچے دیتی ہے اور یہ پانچ برس تک حاملہ ہو سکتی ہے۔ اسی لیے سیلیکانتھ کے بچے کم ہوتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی اور شکار کی وجہ سے سیلیکانتھ نسل خاص طور پر معدومیت کے خطرے کا شکار ہے۔

اس حوالے سے فرانس کی ایک یونیورسٹی منسلک ڈاکٹر برونو ارناڈے کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ مچھلی بہت کم بچے دیتی، اس لیے ہو سکتا کہ یہ نئی تحقیق ہمیں اس نسل کو معدومیت سے بچانے کے لیے بہتر اقدامات کرنے میں مدد دے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس نسل کے تحفظ کے اقدامات کے لیے، اس کی آبادی کے حوالے سے ملنے والی نئی معلومات اہم ہیں۔ ’ان نئی معلومات کی مدد سے ہم (اس نسل کے تحفظ) کے لیے بہتر اندازہ لگا سکیں گے۔‘

سیلوکانتھ

سیلیکانتھ نسل کی مچھلیاں بحرہند اور انڈونشیا کے ساحل کے قریب دریافت ہوئی ہیں

بہت عرصے تک ماہرین کا خیال تھا کہ سیلیکانتھ نسل اب تک معدوم ہو چکی ہوگی، لیکن اچانک جب سن 1938 میں اس نسل کی ایک مچھلی جنوبی افریقہ کے ساحل کے قریب ایک جال میں پکڑی گئی تو اس واقعہ کو بہت شہرت ملی۔

اس کے بعد اس نسل کی دو مزید آبادیوں کے بارے میں علم ہوا جن میں ایک افریقہ کے مشرقی ساحل کے قریب پائی گئی جبکہ دوسری انڈویشیا کے پانیوں میں۔

افریقہ میں دریافت ہونے والی آبادی کو انتہائی معدومیت کی شکار مچھلیوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے اور اندازے کی مطابق اب وہاں اس نسل کی چند سو مچھلیاں ہی باقی بچی ہیں۔

بحیرۂ شمالی میں تحقیق میں مصروف ایک فرانسیسی ٹیم سے منسلک ماہر، کیلگ ماہے کے بقول ’لگتا ہے کہ سمندر میں پائی جانے والی مچھلیوں میں سے سیلیکانتھ کی افزائش نسل سب سے کم رفتار پر ہوتی ہے۔‘

’ہماری تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو ہمارے اندازے سے زیادہ معدومیت کے خطرات کا سامنا ہے۔ اسی لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس نسل کے تحفظ کے لیے جو اقدامات کریں، ان میں نئی معلومات کو بھی مدنظر رکھیں۔‘

اس نسل پر تحقیق کے لیے سائنسدان جن منصوبوں پر مستقبل میں کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ان میں اس کی کھال پر لگے چھلکوں کا مزید مطالعہ کیا جائے گا اور یہ دیکھا جائے گا آیا موسمی تبدیلی کی وجہ سے ان چھلکوں یا سکیلز کی تعداد کم زیادہ ہوتی یا نہیں۔ اس سوال کا جواب معدومیت کے خطرے کی شکار اس نسل پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو گا۔

سمندری حیات کے ماہرین کے مطابق سیلیکانتھ نسل کا ارتقاع 420 ملین سال پہلے اس وقت ہوا تھا جب جب ایک سیارچہ ہماری زمین سے ٹکرایا، جس کے نتیجے میں ڈائنوسارز صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور براعظموں نے اپنی جگہ بدلی تھی۔

یہ مچھلی گہرے سمندروں میں پتھر کی غاروں میں رہتی ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ لمبائی چھ فٹ تک ہوتی ہے اور اس کی کھال پر لگے سخت چھلکوں کا مجموعی وزن 90 کلوگرام تک ہو سکتا ہے۔

یہ تحقیق حیاتیات کے معروف جریدے ’کرنٹ بائیولوجی‘ میں شائع ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp