باڑ لگانے سے کیا ہوگا؟


ہاکی کے لیجنڈ کھلاڑی سمیع اللہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بہاولپور میں ایک چوک پر ان کا مجسمہ لگایا گیا۔ جس میں وہ قومی ہاکی ٹیم کے لباس میں ہاکی کے ساتھ بال کو پش کرنے والے ہیں۔ کسی کھلاڑی کی خدمات کے اعتراف میں ایک اچھا اقدام تھا اس سے نا صرف نئے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہونی تھی بلکہ لیجنڈز کو بھی اطمینان قلب ملنا تھا کہ قوم نے ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا۔ مگراس مجسمے کو لگانے والے بھول گئے تھے کہ یہ وہ ملک ہے جو کولر کے ساتھ گلاس کو زنجیر لگی ہوتی ہے نادار لوگوں کی مدد کے لیے رکھے گئے چندے کے بکسوں کو بھی آہنی زنجیر سے محفوظ کیا جاتا ہے۔

بہرحال ایک دن کسی نے اس مجسمے کے ساتھ بال کو چوری کر لیا اور اگلے ہی روز کوئی لیجنڈ کھلاڑی کے ہاتھ سے ہاکی بھی چرا کر لے گیا۔ سوشل میڈیا پر ایک مہم چل پڑی طرح طرح کے تبصرے شروع ہو گئے۔ بھلا ہو کچھ نوجوانوں کا کہ انہوں نے ہاکی اور بال خرید کر مجسمے کے ساتھ لگا دی۔ اس کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی اور مجسمے کے گرد اونچی باڑ لگا دی تاکہ ہاکی اور بال دوبارہ چوری نا ہوجائیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا باڑ لگانے سے حفاظت ہو جائے گی۔ ایک باڑ مغربی سرحد پر بھی تو لگائی گئی ہے جس کے متعلق افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ یہ محفوظ نہیں ہے اگر دو لاکھ افغانی جمع ہو کر آ جائیں تو ان کے سامنے باڑ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اگر اس بات کو مان لیا جائے تو کیا باڑ لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تو کیا باڑ کی مد میں خرچ کیے گئے اربوں ڈالر ضائع ہوجائیں گے۔ اس سے بھی بڑھ کر تشویش ناک بات یہ ہے کہ کیا مغربی سرحد غیر محفوظ ہو جائے گی۔

جنگی جنون میں مبتلا لوگوں کے خطے میں سرحدوں کا غیر محفوظ ہونا حد درجہ خطرناک ہے۔ فیصلہ سازوں کو باڑ کی حرمت پر سوچنا ہوگا اس حد فاصل کو یقینی بنانا ہوگا۔ باڑ کے دونوں طرف بسنے والوں کے دلوں میں باڑ کی اہمیت، افادیت اور احترام کو بٹھانا ہوگا۔ یہ پیغام دینا ہوگا کہ باڑ کی مشرقی سمت قانون کی عملداری ہے۔ جو قانون توڑے گا سزا کا مستحق ہوگا

طے ہو گیا کہ باڑ لگا دینے سے مسئلہ حل نہیں ہونا بلکہ اس باڑ کی حفاظت بھی لازمی ہے۔ اسی طرح کی ایک باڑ عوامی جلسوں میں موضوع بحث ہے۔ باڑ کے اس طرف پاکستان کے زیر انتظام ریاست کشمیر میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ تمام بڑی سیاسی جماعتیں یہ جاننے کے باوجود کہ یہاں پر الیکشن ایک خاص فارمولے کے تحت ہوتے ہیں یہ الیکشن جیتنے کے لیے زور لگا رہی ہے۔ ہر سیاسی جماعت دیگر مدمقابل سیاسی جماعتوں پر الزام لگا رہی ہیں کہ انہوں نے کشمیر کاز کے لیے کچھ نہیں کیا۔

اس ضمن میں پاکستان میں برسراقتدار تحریک انصاف واحد جماعت ہے جس کو کشمیر میں حکمرانی کا موقع نہیں ملا۔ اس بار اقتدار میں یہ جماعت آ رہی ہے تاکہ کشمیر کاز سے متعلق جس بیانیے کا بوجھ اکیلے کپتان کے کندھوں پر ہے اس میں کشمیریوں کی منتخب قیادت اس بوجھ کو کچھ ہلکا کرسکے۔ اس لیے یاد رہے حالیہ انتخابات کے بعد کشمیر میں بننے والی نئی حکومت کشمیر کاز کے حوالے سے اہم پیش کر سکتی ہے۔ اور کچھ نہیں تو شاید پرانے بیانیے کی جگہ پر نئے بیانیے کو موضوع بحث بنا سکتی ہے اب یہ نیا بیانیہ کیا ہوگا اس کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہے بہرحال پرانے بیانیے سے مختلف ہوگا

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیانیے کی تبدیلی اس لیے بھی ضروری ہے کہ بیانیہ معروضی حالات کے پیش نظر اپنایا جاتا ہے۔ کل کا بیانیہ تھا کہ چوہدری پرویز الہیٰ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو ہے اور اس کا بیٹا نیب میں کیس بھگت رہا ہے آج کا بیانیہ یہ ہے کہ بڑے چوہدری صاحب اسپیکر پنجاب اسمبلی اور ان کے صاحبزادے وفاقی وزیر ہیں۔ جس ایم کیو ایم سے ہاتھ ملانا گوارا نہیں تھا وہ اقتدار کی غلام گردشوں میں بغل گیر ہے۔ قصور موجودہ حکمران اشرافیہ کا نہیں ہے ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے اب بھی ایسا ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اگر یقین نا آئے تو آئندہ عام انتخابات کے بعد حکومتی الائنس کو دیکھ لیجیے گا کہ آج کے سیاسی مخالف اس وقت شیر و شکر ہوں گے اور آج کے دوست اس وقت مدمقابل ہوں گے بلکہ کچھ تو پابند سلاسل بھی ہوں گے۔ موجودہ کہانی نئے کرداروں کے ساتھ دہرائی جائے گی۔

مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ موجودہ کرداروں میں سے ایک کردار مستقبل کی کہانی میں بھی ایک ہی ہوگا وہ تبدیل نہیں ہوگا اور وہ کردار عوام کا ہے۔ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگانے والوں کے لیے آئندہ دور میں بھی قرضوں میں ڈوبی معیشت کے اندر کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ ہنوز دلی دور است کی طرح ان کی خوشحال زندگی ابھی بہت دور ہے۔ تبدیلی کے خواب دیکھنے والوں کے ارمانوں اور خواہشات کی دلی تو ان تین سالوں میں اجڑ چکی مگر دل خوش فہم کو ان بے فیض پتھر کے دیوتاؤں سے تاحال امیدیں ہیں اور ایک بار پھر خواہشات کی دلی نئے سرے سے بس جائے گی۔

ایک بار پھر خوابوں کی دلی کی گلیاں اور بازار روشن ہوں گے، ہر سمت ایک رونق ہوگی۔ یہ نئی بسنے والی دلی اجڑنے سے بچ سکتی ہے اگر یہ شہر پناہ کے اندر آباد ہو اور اس کی فصیلوں کے گرد خلوص نیت سے باڑ لگائی جائے۔ مگر سوال پھر وہی ہے کہ کیا باڑ لگانے سے حفاظت ہو جائے گی تو پھر جواب وہی ہے کہ محض باڑ لگانے سے حفاظت نہیں ہوگی بلکہ اس باڑ کی حفاظت بھی کرنی پڑے گی اور یقینی بات ہے کہ باڑ کی حفاظت کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لیے مجبوری ہے کہ اسی عطار کے لونڈے سے دوائی لینی پڑے گی جس کے سبب بیمار ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments