درختوں کے پتے اور ماہواری


گھر میں چاروں طرف عجیب سی بو تھی، جیسے کوئی مردہ چوہا کسی الماری کے پیچھے پڑا ہو، یا کوئی مری ہوئی چھپکلی صوفے کے نیچے۔ کبھی ایسے لگتا کہ کچن کے سنک میں گوشت کو دھوتے ہوئے نیچے پائپ میں کچھ پھنس گیا ہے جو چاروں طرف بو پھیلا رہا ہے۔ لیکن بو کا کہیں سراغ نہیں ملتا تھا جو کبھی گندے موزوں سے اٹھنے والی سڑاند جیسی محسوس ہوتی اور کبھی کئی دن کے رکھے باسی سالن جیسی۔

ہر تھوڑی دیر بعد بو کا ایک جھونکا آتا اور سر میں ایک گرز سا لگتا، ٹیسیں اٹھتیں اور ہم پھر سے بے چین ہو جاتے۔
کیسی بو ہے یہ؟ کہاں سے آ رہی ہے؟ ہے؟ صفائی کی کہاں کمی رہ گئی؟ سب ملازم ہمارے ان سوالوں کا جواب دینے سے قاصر تھے۔

صوفے اپنی جگہوں سے کھسکا دیے گئے، پلنگوں کے نیچے جھانک لیا گیا، کچرے کے ڈبے خالی کر دیے گئے، کچن کی الماریوں سے سامان باہر ڈھیر کر دیا گیا۔ ٹوائلٹ میں فینائل بھر بھر کے پھینکی گئی، بستر کی چادریں بدلوا دی گئیں، دھلے ہوئے کپڑے پھر سے دھوبی کے پاس بھیج دیے گئے۔ سب نلوں میں گرم پانی ڈالا گیا، فریج خالی کر دیا گیا، جوتے دھوپ میں رکھے گئے، چھپکلی کے لئے سپرے کیا گیا، چوہوں کے لئے ٹریپ منگوایا گیا۔ بچوں کے پیمپر پہلے سے بھی جلد بدلوانے کا کہا گیا۔ سب کچھ ہوا لیکن اس بو نے ہمارا پیچھا نہ چھوڑا۔

ہم پاگل ہونے والے تھے یا ہو چکے تھے۔

کبھی وہ بو نزدیک آ جاتی، کبھی دور چلی جاتی۔ کبھی گھر کے ایک کونے میں تیز ہو جاتی، کبھی دوسرے میں، ابھی یہاں، کچھ دیر بعد وہاں۔
معمہ کسی طرح حل نہ ہوا۔

”باجی ایک بات کہوں؟“
ماسی حنیفاں جو دو دن سے ہماری پریشانی کی گواہ تھیں، ہمارے قریب آ کر بولیں
”کہو“

”میرا خیال ہے کہ بو کا تعلق اس نئی لڑکی سے ہے جسے آپ نے شیری بیٹی کے لئے رکھا ہے“
”حنیفاں، کچھ دن پہلے ہی تو آئی ہے وہ اور میں نے اسے نہانے دھونے اور کپڑے بدلنے کی سب ہدایات دی ہیں“

”جی، ٹھیک کہتی ہیں آپ لیکن مجھے محسوس ہوا ہے“
”تمہیں یہ شک کیسے ہوا؟“

”جی وہ جب بھی کچن کی طرف آتی ہے، بو محسوس ہوتی ہے۔ پھر جب وہ چلی جاتی ہے تو بو بھی غائب ہو جاتی ہے۔ جہاں سے گزرتی ہے، وہاں بو محسوس ہوتی ہے“
”اچھا چلو پھر پوچھو اس سے“

یہ گرما کے دن تھے۔ ہماری چھوٹی بیٹی کی آیا اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے ایمرجنسی رخصت پہ جا چکی تھی۔ اب ہسپتال سے چھٹی تو نہیں لی جا سکتی تھی اس لئے عارضی بندوبست کے لئے کنوؤں میں بانس ڈلوا دیے۔ بالآخر ہسپتال کے چوکیدار نے کسی دور دراز کے دیہات سے ایک بیس بائیس سالہ لڑکی کے متعلق بتایا جو آیا گیری کا تجربہ تو نہیں رکھتی مگر ضرورت مند ہے۔ وہ تو ہم بھی تھے سو حامی بھر لی۔

دبلی پتلی، ڈری سہمی، جھکی ہوئی نظریں، چہرے اور جسم پہ غربت و ناداری کے نمایاں آثار، یہ تھی شیری کی نئی آیا، رضیہ!

لگتا تھا کہ شہر آنے کا پہلا موقع ہے، ہر چیز حیران نظر سے دیکھتی، ہر بات پہ بوکھلا جاتی اور کچھ بھی کہنے سے پہلے ہچکچاتی۔ خیر ہم نے اسے بنیادی باتیں سمجھائیں، بچی کے جملہ امور سے آگاہ کیا اور بتایا کہ گو کہ یہ گھر اجنبی ہے اور ہم بھی، لیکن ہم دونوں کوشش کریں گے کہ کوئی مشکل نہ ہو۔

اب ماسی حنیفاں جو تشخیص ہمیں بتا رہی تھیں اس نے ہمیں کچھ پریشان کر دیا تھا۔ لیکن ہم ماسی کو کچھ برسوں کے تجربے کے بعد جانتے تھے کہ وہ گہری نظر رکھتی ہے۔ ویسے تو اس کی ذمہ داری گھر کے اور کام تھے لیکن ضرورت پڑنے پہ ہماری مشیر بھی بن جایا کرتی تھی۔

”اف باجی کیا بتاؤں، غضب ہو گیا، اف اتنی گندی۔ سارا گھر ناپاک کر دیا، یہی تھی بو کی وجہ“
حنیفاں گال پیٹتی ہوئی آ رہی تھی۔

”کچھ بتاؤ تو؟“
ہم بوکھلا اٹھے تھے۔

”باجی، میں نے آپ کو منع کیا تھا، دور دراز دیہات کی لڑکی نہ بلائیں۔ انہیں کیا پتہ ہوتا ہے؟ جو خود کو نہیں سنبھال سکتی وہ بچی کو کیا سنبھالے گی“
”حنیفاں، بات کیا ہے آخر؟“

” اسے پچھلے دو دن سے ماہواری آئی ہوئی ہے“
”تو، ماہواری سے بو کا کیا تعلق؟“

”باجی، ماہواری کے لئے اس نے کچھ بندوبست نہیں کیا ہوا، بس شلوار میں ہی خون جذب ہوئے جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے ادھر ادھر قطرے بھی گرے ہوں۔ اور ماہواری میں وہ غسل خانے میں پانی بھی نہیں استعمال کرتی کہ جسم میں ہوا داخل ہو جائے گی سو پچھلے دو دن سے یونہی بیٹھی ہے۔ کمرے میں ہر طرف بو پھیلی ہے“

”اف خدایا“ ہمیں ابکائی آ گئی، بیسویں صدی کی دنیا اور عورت ابھی تک جنگلوں اور غاروں کے زمانے میں؟

”حنیفاں، پلیز اسے پیڈ استعمال کرنا سکھا دو، اور نہلوا دھلوا کے کپڑے بدلوا دو۔ اور اس کے بعد بیٹ مین کے ساتھ مل کے سارے رگز دھلوا کے باہر دھوپ میں ڈلوا دو، بستر کی چادریں دھوبی کے پاس بھیجنا نہ بھولنا“

”شام ڈھلے حنیفاں گھر جا چکی تھی۔ گھر میں صفائی مہم کامیابی سے ختم ہونے کے بعد بو آہستہ آہستہ جا رہی تھی لیکن ہمارا تاسف جانے کا نام نہیں لیتا تھا۔

سوچا رضیہ کو بلا کر کچھ بات ہی کر لیں۔
رضیہ نہا دھو کے کافی بہتر لگ رہی تھی، چہرے پہ پریشانی کے آثار کچھ کم تھے۔

ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ہم نے اس سے کہا، دیکھو رضیہ ہم ڈاکٹر ہیں، تم سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔ تم گھبرانا نہیں، اور ٹھیک ٹھیک بتانا، یہ تمہاری صحت کا سوال ہے۔
”تمہیں ماہواری کس عمر میں آئی؟“
”جی میں چھوٹی تھی، ابھی تھوڑا سا قد بڑھا تھا کہ ماہواری آ گئی“

”پھر کس نے بتایا؟“
”اماں نے جی“
”اچھا اس کے لئے کیا استعمال کرتی تھیں؟“
اس نے سر جھکا لیا،
”شرماؤ نہیں بتاؤ“

”جی اماں شلوار کے اندر بہت سے پتے رکھ دیتی تھی اور ان کو ایک دھجی سے کس کے کمر سے باندھ دیتی تھی“
” پتے؟ یہ درختوں کے پتے؟ تمہارا مطلب ہے کہ یہ ہرے پتے۔“ ہمیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا،
”جی“ اس نے اثبات میں سر ہلایا

”لیکن پتے کیوں؟ کوئی کپڑا یا روئی کیوں نہیں؟“
”کپڑا؟ وہ کہاں سے آتا جی؟“
”پرانے لباس، جو بوسیدہ ہو کر پھٹنے لگتے ہیں“

”ہمارے وہاں تو جی دو جوڑے ہوتے ہیں ہر عورت کے پاس، ایک اتارتی ہے تو دوسرا پہنتی ہے۔ ان میں سے جب ایک تار تار ہو جاتا ہے تو تب دوسرا بنتا ہے۔ وہ ایک چیتھڑوں جیسا لباس کیا کر سکتا ہے اور کتنی دیر کر سکتا ہے، ایک مہینہ؟ پھر اس کے بعد ؟ اور روئی کہاں سے خریدیں؟ اماں کہتی ہے کہ پیٹ میں روٹی ڈالنے کی فکر کریں یا ماہواری کا جھنجھٹ دیکھیں“

ہمارا دل ڈوبتا جا رہا تھا، ایسے گہرے پانیوں میں جن کی تہہ میں نہ جانے کیا کچھ رکھا تھا ہمارے لئے۔
”تو تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا جب ماہواری آئی“
”جی مجھے شرم آ رہی تھی، میں نے پتے ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن آپ کے گھر درخت ہی نہیں ہے کوئی“

ہمیں بے اختیار رونا آ گیا۔ اس لڑکی کی بے بسی پہ جو بیسویں صدی کو ہمارے ہمراہ دیکھ رہی تھی لیکن ہمارے جیسی نہیں تھی۔ وہ تو زمانہ قدیم کی باسی تھی جب زندگی محض پیٹ کی بھوک کا نام تھا۔

”سنو بیٹا رضیہ، پتے وغیرہ بھول جاؤ، ہم تمہیں پیڈ دیں گے۔ بس تمہارا کام یہ ہے کہ پانی سے اپنے آپ کو اچھی طرح دھونا ہے جب بھی فراغت کے لئے غسل خانے جاؤ، روزانہ نہانا بھی ہے“
”باجی ایک بات بتاؤں؟“
”ہاں ہاں ضرور“

”یہ جو آپ نے پہننے کو دیا ہے نا۔ یہ بہت اچھا ہے، مجھے گیلے پن کی چپچپاہٹ بھی نہیں ہے اور خارش بھی نہیں ہو رہی۔ وہ پتے بہت چبھتے تھے اور ماہواری کے بعد گندا پانی بھی آنا شروع ہو جاتا تھا“

وہ کچھ گھنٹوں میں ہی سہل زندگی کا فرق جان چکی تھی۔
ہمارا دل تھما، کچھ ثانیے دھڑکنا بھول گیا اور پھر تیز تیز بھاگنے لگا۔

ہم شہروں کے باسی، سائنس کی ترقی، علم و آگہی اور شہری سہولیات کے سائے میں زندگی گزارنے والے کیا اندازہ کر سکتے ہیں کہ سندھ کے گوٹھوں تھر کے صحراؤں، بلوچستان کے بنجر پہاڑوں، گلگت بلتستان کے دور دراز گاؤں، قبائلی علاقوں کی گھٹی ہوئی فضاؤں اور پنجاب کے دور افتادہ دیہات میں رہنے والی عورتیں اس بنیادی ضرورت سے کیسے نبٹتی ہوں گی؟

ماہواری کا جسم سے اخراج دوسرے ناگزیر خروج جیسا ہی ہے لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اس ماہانہ مشکل سے عورت کیسے نبٹتی ہو گی؟

سکول کا سلیبس ترتیب دیتے ہوئے، پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے بناتے ہوئے اور قوم میں آگہی پھیلانے کا عزم کرتے ہوئے کیا کبھی کسی نے سوچا کہ جن علاقوں میں غربت و ناداری چاروں طرف پر پھیلائے بیٹھی ہے، وہاں زندگی کی نمو اپنے جسم میں رکھنے والی عورت کے لئے بھی کچھ ہونا چاہیے؟ سرکاری طور پہ پیڈز کی سہولت اور متعلقہ آگہی؟

ستر سالہ سفر میں کچھ فیصد عورتوں کو چھوڑ کے بدلا تو آج بھی کچھ نہیں، اور ہمیں علم ہے کہ ان خوش قسمت عورتوں پہ پدرسری معاشرہ مہربان نہیں ہوا۔ آگہی کی یہ شمع کچھ باشعور لوگوں کے ہاتھوں روشن ہوئی ہے۔ اکثریت پہ زندگی اتنی مہربان نہیں رہی کیونکہ عورت کے مسائل کو سمجھنا ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔

لیکن ہم بے اختیار سوچتے ہیں کہ ہمسائے میں بھی تو ہمارے جیسے لوگ بستے ہیں، غربت و ناداری بھی ہم جیسی ہے، معاشرتی دباؤ بھی کم نہیں لیکن اس کے باوجود اگر وہ پیڈ مین نامی فلم بنا کر عورت کے مسائل بیان کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ ہم اپنے مسائل کو کسی کونے میں چھپا کر کب تک سب اچھا کا راگ الاپتے رہیں گے؟

زندگی کو اپنے وجود سے رواں دواں رکھنے والی کی اپنی زندگی کس قدر بے چارگی، بے جا شرم، معاشرتی دباؤ اور پابندیوں کا شکار ہے۔ ایسے وجود سے پھوٹنے والی زندگی کی نمو معاشرے کی بقا میں کتنی کارآمد ہو سکتی ہے؟
سوچیے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments