کرونا وائرس: بھارت میں وبا سے اموات کی تعداد 10 گنا زیادہ ہونے کا اندیشہ


محققین کا خیال ہے کہ بھارت میں حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق وبا سے لگ بھگ چار لاکھ 15 ہزار اموات ہوئی ہیں تاہم یہ تعداد حقیقی اموات کے مقابلے میں کئی گنا کم بتائی جا رہی ہے۔ دوسری جانب حکومت ان دعوؤں کی تردید کر رہی ہے۔ (فائل فوٹو)
نئی دہلی — جنوبی ایشیا میں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک بھارت میں وبا سے ہونے والے جانی نقصان پر ایک حالیہ جامع تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ کرونا سے بھارت میں ہونے والی اموات کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے 10 گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان ہلاکتوں کی تعداد کے باعث یہ حالیہ تاریخ کا بدترین انسانی بحران بھی ہو سکتا ہے۔

محققین کا خیال ہے کہ بھارت میں حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق وبا سے لگ بھگ چار لاکھ 15 ہزار اموات ہوئی ہیں تاہم یہ تعداد حقیقی اموات کے مقابلے میں کئی گنا کم بتائی جا رہی ہے۔ دوسری جانب حکومت ان دعوؤں کی تردید کر رہی ہے۔ نئی دہلی کا کہنا ہے کہ وبا سے اموات کی تعداد کے حوالے سے مبالغہ آرائی اور گمراہ کن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

منگل کو جاری ہونے والی رپورٹ میں بھارت میں زیادہ اموات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق وبا سے اموات اور حقیقی اعداد و شمار میں فرق ہو سکتا ہے۔ جب کہ جنوری 2020 سے جون 2021 کے ڈیڑھ سال کے دورانیے میں بھارت میں 30 لاکھ سے 47 لاکھ افراد کرونا وبا سے ہلاک ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ حقیقی اعداد و شمار پیش کیے جانے کے بعد وبا کی شدت بتائی جانے والی حقیقت سے کئی گنا زیادہ سامنے آئے گی۔

یہ رپورٹ بھارت کی حکومت کے سابق معاشی مشیر اروند سبرامنین نے شائع کی ہے۔ جب کہ اس کی اشاعت میں سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ اور ہارورڈ یونیورسٹی کے دو معاونین نے ان کا ساتھ دیا ہے۔

ان کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اموات کی وہ تعداد سرکاری اعداد و شمار میں شامل نہیں کی گئیں جو ان اسپتالوں میں ہوئی جہاں بہت زیادہ رش تھا۔ یا ان افراد کی ہلاکت کو بھی شمار نہیں کیا گیا جن کو طبی امداد نہیں مل سکی تھی یا جن کو طبی امداد ملنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ رپورٹ میں رواں برس کے آغاز میں بھارت میں وبا کی بلند ترین سطح کا ذکر کرتے ہوئے طبی امداد سے محروم رہ جانے والے افراد کا ذکر کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وبا سے اموات کی حقیقی تعداد لاکھوں میں ہونے کا امکان ہے یہ ہزاروں یا سیکڑوں میں نہیں ہیں جو اس بات کی دلیل ہے یہ کہ یہ وبا ملک کی تقسیم اور آزادی کے بعد بد ترین انسانی المیہ ہے۔

واضح رہے کہ ہندوستان میں برطانیہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد 1947 میں بھارت اور پاکستان دو آزاد ممالک کے طور پر قائم ہوئے تھے اور ملک کی اس تقسیم کے دوران ہونے والے فسادات میں 10 لاکھ افراد کی اموات کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

بھارت میں کرونا سے اموات کی اس رپورٹ کے اعداد و شمار کے لیے تین مختلف طریقۂ کار استعمال کیے گئے ہیں۔ اس میں سرکاری طور پر پیدائش اور اموات کے مرتب کیے گئے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ بھارت میں وبا کی تشخیص کے لیے کیے گئے خون کے ٹیسٹ کی رپورٹس اور عالمی سطح پر وبا سے اموات کی شرح کا موازنہ کیا گیا ہے۔ اور ملک کے معاشی سروے کا جائزہ شامل کیا گیا ہے۔

رپورٹ مرتب کرنے والے محققین نے واضح کیا ہے کہ ہر طریقۂ کار میں کوئی نہ کوئی کمزوری موجود ہے جیسے معاشی سروے کے جائزے میں اموات کی وجہ بیان نہیں ہوتی۔

اسی طرح یہ انتباہ بھی رپورٹ میں شامل ہے کہ رپورٹ بنانے کے لیے انہوں نے سات زیادہ متاثرہ ریاستوں کا مطالعہ کیا جو کہ پورے ملک میں یکساں صورتِ حال کی وضاحت نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ بھارت میں شہری علاقوں پر مشتمل ریاستیں وبا سے دیہاتی ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ جب کہ ملک میں صحت کا نظام بھی یکساں نہیں ہے۔

دنیا میں کئی ممالک کے حوالے سے خدشات سامنے آتے رہے ہیں کہ وہاں وبا سے اموات کی تعداد کو کم ظاہر کیا گیا ہے۔ البتہ دنیا کے آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے ملک بھارت میں، جس کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ نفوس سے زائد ہے، کرونا وائرس سے ہلاکتوں کے اعداد و شمار میں بڑے فرق کی وجہ سے صورتِ حال پیچیدہ ہو رہی ہے۔ کیوں کہ وبا کے آغاز سے قبل بھی بھارت میں تمام اموات کے اعداد و شمار مرتب نہیں ہو رہے تھے۔

طبی ماہرین کے مطابق کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور نقصانات کے حوالے سے نئی معلومات ان کو بھارت میں وبا کے اثرات کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت کے ذرائع ابلاغ میں پہلے بھی ایسی رپورٹس سامنے آ چکی ہیں کہ کرونا وائرس سے ہونے والے ہلاکتوں کی حقیقی تعداد رپورٹ کی جانے والی اموات کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

اس خبر میں معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے شامل کی گئی ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments