اشرف غنی اور عید کی نماز کے دوران راکٹوں کا حملہ


سوشل میڈیا آج کل آپ کو جنرل میڈیا سے پہلے پہل تمام اطلاعات بمع آڈیو ویڈیو بہم پہنچا دیتے ہیں۔ جیسا کہ آج صبح جب ہم سوشل میڈیا پر حسب معمول مصروف عمل ہوئے تو ایک تازہ ترین ویڈیو افغانستان کے صدارتی محل ( ارگ) کی وائرل ہو چکی تھی جس میں ایک کمانڈو آرمی افسر عید کی نماز پڑھا رہے ہیں اور ان کے پیچھے اشرف غنی سمیت عبداللہ عبداللہ اور سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی صف میں شامل تھے۔ اخری رکعت کے رکوع سے قیام کے لئے اٹھ ہی گئے تھے کہ راکٹوں کی گن گرج سنائی گئی اور اس لائیو کوریج میں جو دکھایا گیا وہ صدر اشرف غنی کا اعصابی تناو تھا جو بالکل خوف کے جسمانی اثر کے دباؤ سے عاری تھے۔

جیسے کہ ان کے ساتھ صف میں کھڑے دیگر صاحبان اثر نے وہ ہیجانی کیفیت من و عن قبول کیا اور یہ انسانی فطرت ہے کہ ایسے موقعوں پر ایسا ہونا عین فطرت ہے۔ لیکن یہ بھی بہادری ہے کہ کسی نے ایک دو افراد کے علاوہ میدان یا صف بندی نہیں چھوڑی۔ کسی نے اس عمل کو سراہا کسی نے اس کو پری پلان عمل گردانا لیکن اگر یہ پری پلان عمل ہوتا تو صف میں موجود نائب صدر اور ہائی رینک آرفی افسر جسمانی ساخت کو ردعمل میں نہیں لاتے۔ بحر حال عین عید کے نماز کے وقت یہ عمل کسی بھی لحاظ سے جائز اور روا نہیں سمجھا جاسکتا بلکہ کسی پر بھی بلا جواز راکٹ کا حملہ کرنا کسی بھی منطق سے جائز نہیں۔

بلکہ کسی نے تو یہ بھی کہا کی اب تک اسرائیل نے بھی فلسطینیوں پر عید کے نماز کے وقت حملہ نہیں کیا بلکہ اسرائیل اردن جنگ میں عید کے دن اسرائیل نے جنگ روکھ دی تھی۔ اشرف غنی کے حلف برداری کے وقت بھی میزائل داغے گئے تھے لیکن اس کے جواب میں اشرف غنی نے اپنا سینہ تھان کر اور اپنی پہنی ہوئی قمیض کے گریبان کو پھیلا کر کہا تھا یہ زرہ نہیں قمیض ہے میرا سینہ افغانستان اور افغانستان کے عوام کے لئے حاضر ہے جس پر افغان عوام نے ان کو بہت سراہا تھا۔

اشرف غنی نے عید کے بعد جو پریس کانفرنس کی اس میں اس نے طالبان سے مذاکرات نہ کرنے کا کہا اور حالیہ وفد کا بیٹھنا حجت تمام کرنے سے تعبیر کیا۔ اور یہ بھی کہا کہ طالبان اصل میں آمادہ بر صلح نہیں اور نہ ان کی نیت صلح کے لئے صاف ہے۔ آج میں نے سوشل میڈیا پر سارہ دن دیکھا کہ وہ لوگ جو اشرف غنی کے خلاف شروع دن سے مخالف لکھنے والوں کے صف میں شامل تھے وہ بھی آج ان کی تعریف کیے بنا نہیں رہ سکے۔ بلکہ ایک بہی خوا نے تو امریکی صحافی جارج پیکر کا اشرف غنی کے ساتھ انٹرویو کے حوالے سے ایک پوسٹ شیئر کیا ہے جس کو اشرف غنی اور افغانستان کے حوالے سے ایک مکمل پیکج سمجھا اور کہا جاسکتا ہے۔ جس کو میں اپ لوگوں کے ساتھ بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں اور ساتھ ساتھ اپنے کالم پر اکتفا بھی کرتا ہوں۔ تو وہ پوسٹ کچھ اس طرح ہے ملاحظہ فرمائے۔

امریکی صحافی جارج پیکر اشرف غنی بابا کے
بارے میں کہتے ہیں

” وہ صرف چار گھنٹے سوتے ہیں اور سورج نکلنے سے پہلے جاگتے ہیں وہ ہر صبح دو سے تین گھنٹے پڑھتے ہیں کینسر کی وجہ سے ان کا معدہ آدھے سے زیادہ ناکارہ ہو چکا ہے اس لیے ان کی خوراک میں فقط چند کھجوریں اور یخنی شامل ہے وہ تمام سرکاری، غیر سرکاری اور بیرونی رپورٹس خود پڑھتے ہیں اور جب تک خود پڑھ نا لیں تب تک کوئی بھی فیصلہ نہیں کرتے۔

وہ اس قدر حساس ہیں کہ آسٹریلیا کے وزیر خارجہ سے ملنے سے پہلے انہوں نے آسٹریلیا کی جانب سے دنیا کے تمام ملکوں کو اب تک دی جانے والی امداد کا سالوں پر محیط وائٹ پیپر خود پڑھا اور خود ہی وزیر خارجہ کو امداد کے لئے قائل کیا۔

انہوں نے محض 24 گھنٹوں پہلے 400 صفحوں پر محیط امریکی انٹیلی جنس رپورٹ شائع ہونے کے بعد اس رپورٹ کے ہر ایک پوائنٹس پر امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ تفصیل کے ساتھ بات کی۔

انہوں نے صدارتی محل میں آنے کے بعد سب سے پہلے افغانستان کے صدر ہاؤس میں تاریخی لائبریری کی تمام کتابوں کو پھر سے ترتیب دیا اور افغان صدر ہاؤس میں ان کی پسندیدہ جگہوں میں آرگ ( صدر ہاؤس) کی لائبریری یا باہر لان میں چینار کے درخت کے نیچے پڑی ایک سادہ کرسی ہے جہاں وہ اکیلے میں کتاب پڑھتے ہیں۔

ان سے پہلے حامد کرزئی کے وقت افغانستان کے صدر ہاؤس میں ہزاروں مہمان بغیر کسی کام کے موجود ہوتے لیکن اشرف غنی کے صدر ہاؤس میں آپ کے بہت محدود کام والے لوگ ہی دکھائی دیں گے۔ انہوں نے صدارتی امیدوار بننے سے پہلے افغانستان، معیشت یا خانہ جنگی پر لکھی گئی پچھلے 1000 سال کی ساری کتابیں پڑھ لی تھیں اور ہر ایک کتاب پر وہ گھنٹوں پر محیط بات کر سکتے ہیں

جس دن میرا ان کے ساتھ انٹرویو تھا اس ہی دن کابل میں دھماکا ہوا تھا کہ آج میں انٹرویو نہیں کر سکوں گا اور اگر انٹرویو ہو بھی گیا تو کابل کا دھماکہ ہی محض زیر بحث آئے گا

انٹرویو کے لئے مجھے بلایا گیا اشرف غنی کے سامنے کھجوریں پڑی تھیں میں نے بیٹھتے ہی کابل دھماکے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا

” بدنصیبی سے نئی بات نہیں کیوں نا میں آپ کو نئی بات بتاؤں۔ غازی امان اللہ خان نے کابل کے سیوریج سسٹم کے لئے سو سالہ پلان بنایا تھا لیکن وہ شروع نہیں کرسکے میں نے 300 انجنیئرز کی خود پریزینٹیشن سنی اور آج ہی ہم نے اس پلان کو پھر سے شروع کر دیا ہے یہ سو سال کے لئے کابل کی سیوریج سسٹم کا بہترین بندوبست ہے وہ بولتے رہے اور میں حیرانی سے سنتا رہا۔ وہ آج بھی پروفیسر ہی ہیں اور سارا افغانستان ان کی کلاس۔ وہ یا افغانستان کے جمی کارٹر ہیں یا مہاتما گاندھی ہیں البتہ وہ گاندھی کی طرح پرسکون نہیں ہیں

ان کا کل سرمایہ کابل کا تاریخی گھر اور 7 ہزار کتابیں ہیں ”اب آپ خود اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جو بندہ پاور میں ہو، لمیٹڈ ہونے کے ساتھ ساتھ کمٹڈ بھی ہو تو ان کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments