قربانی، عقل اور عشق


جب بھی عیدالاضحٰی قریب آتی ہے تو حسب عادت ایک طبقہ، خاص کر لبرل، روشن خیال اور متجددین قربانی پر طرح طرح کے اعتراضات اٹھا کر شیخیاں بگھارتے ہیں اور ایک دینی عمل اور شعائر اسلام میں سے اہم رکن کو موضوع بحث بنانے کی جسارت کر لیا کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ
کیا صرف مسلمان ہی جانوروں کے ”ضیاع“ کے مرتکب ٹھہرتے ہیں؟
کیا اکیلے مسلمان ہی جانوروں پر یہ ”ظلم“ ڈھاتے ہیں؟
کیا صرف مسلمان ہی اتنا بڑا سرمایہ قربانی پر ”لٹا“ کر معاشرے کو افلاس سے دوچار کراتے ہیں؟

یہ اور اس طرح کے دیگر بہت سارے سوالات ہیں جو باقاعدہ اٹھائے جاتے ہیں لیکن بغیر تحقیق، موازنے اور تجزیے کے۔

اسلامی دنیا کے علاوہ دیگر دنیا میں جانوروں کے حوالے سے حساسیت کتنی ہے اور اس کی قیمت پر مشاغل کیا ہیں اس کی ایک جھلک ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

سپین میں تیز دار آلوں اور نیزوں سے ہزاروں بیلوں کو اذیت دے کر ہلاک کیا جاتا ہے، کھیل کھیلتے ہوئے۔

ڈنمارک میں ہر سال مھرجان تہوار منانے سے سیکڑوں افراد ہزاروں ڈالفن کو قتل کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ سمندر کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے۔

یہودیوں کا ایک گروہ اپنے عقیدے کے مطابق گناہوں کی معافی کے لئے ہزاروں مرغیوں کو پتھروں پہ مار دیتے ہیں۔

نئے سال کے دن عیسائی مقبول کھانے کے طور پر بھارتی پرندوں کی ایک کثیر تعداد کو ذبح کرتے ہیں۔
درجہ بالا سب طریقوں میں اذیت بھی ہے، سفاکیت بھی ہے اور محض دل لگی اور خوش خوراکی کی شوق بھی۔
قربانی پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ:
ہر سال اتنے بڑے پیمانے پر جانور کیوں ذبح کیے جاتے ہیں؟

اگر تکلیف کثرت سے جانوروں کے ذبح ہونے سے ہے تو مسلمانوں کی قربانی کے علاوہ دنیا میں جانوروں کو دیگر مشاغل کے علاوہ بطور خوراک استعمال کا بھی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دیگر اقوام میں یہ استعمال کتنا ہے۔ صرف امریکہ میں سنہ 2019 میں 13 کروڑ سے زیادہ سور ذبح ہو کر امریکیوں کے معدوں میں جا پہنچے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی، یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں ہر سال ذبح ہونے والے کتوں، بلوں اور خنزیروں کی کل تعداد گوگل کر لے تو آنکھیں کھل جائے گی۔ جانوروں کی فکر میں ہلکان ہونے والوں کو بھی اس پر ذرا اعتراض کے لئے فرصت بھی نہیں ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”قربانی کی اسراف“ کے لئے صرف مسلمان ہی مطعون کیوں؟

حال یہ ہے کہ مسلمان خدا کے لئے کسی جانور کو قربان کر کے اتنا احتیاط برتے ہیں کہ چھری تیز ہو، جانور کو چارہ و پانی ڈال کر پھر کوئی اور جانور سامنے نہ ہو اور ان کا گوشت مساکین میں تقسیم ہو تو بھی ایک مخصوص مائنڈ سیٹ قربانی پر طرح طرح کے اعتراضات اٹھاتے ہیں اور اس پاکیزہ اور بامقصد عمل کو مشکوک ٹھرانے کی حماقت کیا کرتے ہیں۔

ایک اعتراض اور ”ہمدردانہ مشورہ“ یہ بھی دیا جاتا ہے کہ جو لوگ حج پر نہیں جاتے وہ بھی عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کرتے ہیں۔ اس طرح کروڑوں مسلمانوں کا اربوں کھربوں روپیہ ضائع ہوجاتا ہے۔ اگر اس خطیر رقم کی منصوبہ بندی کر کے اسے رفاہی کاموں میں لگادیا جائے کہ جن سے غریب مسلمان فائدہ اٹھا سکیں تو یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ ”

”یہ باتیں ایسے معصومانہ انداز میں کہی جاتی ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خدمت خلق کے تمام کام صرف قربانی ہی کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں۔ قربانی کا عمل ترک کرتے ہی یہ سارے کام ہونے لگیں گے اور غریب مسلمانوں کی تمام مشکلات اور پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔ حالاں کہ سوچنے کا یہ انداز درست نہیں ہے۔ اگر مال دار مسلمانوں میں خدمت خلق اور انفاق کا جذبہ پیدا کیا جائے تو قربانی پر عمل کے ساتھ رفاہی اور سماجی خدمات بھی انجام دی جاتی رہیں گی اور مال دار مسلمان صرف غریب مسلمانوں، بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والے غریب انسانوں کی بھی ضروریات پوری کرنے کی طرف توجہ کریں گے۔“

قربانی ایک خالص دینی عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے اور اسے اطاعت الٰہی کا ایک نشان (Symbol) قرار دیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے خود قربانی کی ہے اور مسلمانوں کو بھی اس کی ترغیب دی ہے، چنانچہ مسلمان اسے ( واجب) / سنت مؤکدہ سمجھتے ہیں اور ہر صاحب حیثیت اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ قربانی کی دینی حیثیت کے ساتھ اس کا سماجی پہلو بھی ہے۔ اس سے نہ صرف قربانی کرنے والوں کو فائدہ پہنچتا ہے، بلکہ دیگر بے شمار انسان بھی اس سے فیض اٹھاتے ہیں۔

قربانی کا گوشت تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ’قربانی کا گوشت خود بھی کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاؤ ”(الحج: 28، 36)

دنیا میں کروڑوں انسان خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔ انھیں مہینوں اچھی قوت بخش غذا نہیں مل پاتی۔ قربانی کے نتیجے میں انھیں کچھ اوقات کے لیے گوشت کھانے کو مل جاتا ہے۔

قربانی کرنے والا جانور کی کھال فقراء و مساکین میں صدقہ کرنا افضل ہے۔ اس طرح بڑی تعداد میں قربانی کی کھالیں یا ان کی رقمیں غریبوں کو مل جاتی ہیں اور وہ ان کے ذریعہ اپنی بنیادی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔

ہر سال ہزاروں قصاب قربانی کے جانوروں کو ذبح کرتے اور اس کی اجرت پاتے ہیں۔

قربانی سے ان لاکھوں گلہ بانوں کا فائدہ ہوتا ہے جو سال بھر جانوروں کو پالتے ہیں اور عید الاضحی کے موقع پر انھیں اچھے داموں میں فروخت کرتے ہیں۔

جانوروں کو چارہ فراہم کرانا بھی ایک بڑا کاروبار ہے جس سے ایک بڑی تعداد کو مالی فائدہ پہنچتا ہے۔
بلاشبہ سالانہ قربانی کی عمل سے اربوں کا کاروبار ہوتا ہے جس سے لاکھوں لوگوں کو بڑا فائدہ ملتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ قربانی کے بغیر ہی سماجی اور رفاہی اعمال انجام نہیں دیے جا سکتے، بلکہ ان کی انجام دہی قربانی کے ساتھ بھی ممکن ہے۔ کسی ایک کو نہ دوسرے پر قربان کیا جا سکتا ہے نہ کسی کو دوسرے پر ترجیح دی جا سکتی ہے۔ (ندوی)

حقیقت یہ ہے کہ قربانی محض ایک رسم نہیں بلکہ ایک پاکیزہ اور بامقصد عمل ہے اور ایک عظیم سنت کی یاد ہے جو عشق و محبت سے عبارت ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی کا سفر عشق و محبت سے عبارت ہے اور خلیل اللہ کا جو لقب ملا ہے اسی عشق کا معراج ہے ورنہ عقل کے تقاضے تو کچھ اور ہوا کرتے ہیں۔

تازہ میرے ضمیر پر معرکہ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی، عقل تمام ابولہب

باب دادا اور پورے معاشرے کے رسم و رواج اور خداوں سے بغاوت اور بتوں تک توڑنا اور ہجرت کرنا، یہ عقل کا پیمانہ نہیں۔

بڑھاپے میں عطا کردہ قابل قدر نعمت، پیارا لخت جگر اور محبوب بیوی کو لق دق صحرا میں چھوڑنا۔ عقل کے نزدیک قابل شک عمل ہے!

جگر کے ٹکڑے کو زمین پر لٹا کر اس کے گردن پہ چھری پھیرنا اور ذبح کرنا، عقل کے مطابق قابل تنقید ہے!
گوشت، پوست کے بنے ہوئے زندہ انسان کا آتش نمرود میں کودنا، ماورائے عقل ہے!
عقل علم دیتا ہے، راستہ دکھاتا ہے اور منزل کے قریب بھی کرتا ہے لیکن منزل طے نہیں کرا سکتا۔
گزر جا عقل سے آگے ورنہ
چراغ راہ ہے منزل نہیں!
عقل ہمیشہ اسباب اور نتائج کی بھول، بھلیوں میں گم ہو کر تنقید پہ آمادہ ہوتا ہے اور شکوک پیدا کرتا ہے
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پہ اعمال کی بنیاد رکھ
لیکن عشق ظاہر کو نہیں باطن کو دیکھتا ہے اور انسان کو قربانی پہ آمادہ کر دے دیتا ہے

”زندگی کے جس چاک کو عقل نہیں سی سکتی اس کو عشق اپنی کرامات سے بے سوزن اور بے غیر تار رفو سی سکتا ہے“

وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن و تار رفو

عشق سوچتا بھی ہے، غور و فکر بھی کرتا ہے لیکن محض تصورات، خیالات اور خدشات کا اسیر بننا گوارا نہیں کرتا اسی لیے تو بے کراں فاصلوں کو ایک ہی جست میں طے کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔

عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام!
عشق نتائج، عواقب سے بے پرواہ ہو کر محبوب کی رضا میں فنا ہو کر امر ہوا چاہتا ہے
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی!

بس خلاصہ یہ ہے کہ اگر زندگی محض عقل کے سہارے جینا ہے تو حقیقت کو پانا مشکل ہی کیا ناممکنات میں سے ہوگا کیونکہ عقل تصورات کا بت کدہ تو بنا سکتی ہے لیکن زندگی کی صحیح رہبری و راہ نمائی سے قاصر ہے۔

اس لئے حقیقت کو پانے کے لئے اور دراصل محبوب تک پہنچنے کا راستہ، عشق کا راستہ ہے۔
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دین بت کدہ تصورات
عشق و محبت کے راستے چل کر انسان خلیل اللہ کے معراج کو پا لیتا ہے۔
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا ہوں میں
میرے مولا مجھے صاحب جنون کر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments