جانوروں کی جبری کھیتی باڑی



دنیا بھر میں ہر روز کروڑوں کی تعداد میں جانور غذا اور انسانی استعمال کی خاطر ذبح کیے جاتے ہیں۔ ایسی کون سی جادوئی چھڑی ہے جو روزانہ اتنی بڑی تعداد میں مرنے والے جانوروں کی نسل کم نہیں ہونے دیتی؟

عید قرباں کی آمد آمد ہے۔ گلیوں محلوں، چوراہوں میں جا بجا قربانی کے جانور بندھے اور مچلتے ہی نظر آتے ہیں۔ گائے، بیل، بکرے، اونٹ، دنبے ہر ہی گلی میں اپنی زندگی کے دن گنتے دیکھیں گے۔ قربانی مذہبی فریضہ ہے جس کی توثیق یہ ہے کہ اس روز غریبوں کو وہ غذا کھانے کو میسر آتی ہے جو سارا سال ان کو نصیب نہیں ہو پاتی۔

قربانی کے گوشت کے تین حصص بنائے جاتے ہیں جن میں غرباء کا ایک حصہ ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان ایک دلیل دیتے نظر آتے ہیں کہ اس روز کی قربانی روزانہ لاکھوں ذبح ہونے والے کے ایف سی اور میکڈونلڈز کے جانوروں سے ایسے بہتر ہے کہ اس روز ضرورت مندوں میں گوشت تقسیم کیا جاتا ہے۔ عید قرباں پر دس گائے، تیس بکرے، پندرہ اونٹ، چالیس دنبے قربان کرنے والے صاحب حیثیت افراد سال بھر میں اس دولت سے غرباء اور سفید پوش افراد کی کفالت کیوں نہیں کرتے؟ یہ سوال وہی پرانا، دہرایا ہوا ہے مگر سال بھر میں ضرورت مندوں کی امداد چالیس دنبوں کی دولت سے کیوں نہیں کی جاتی؟

اگر قربانی کا گوشت واقع میں غریبوں کے لئے ہوتا ہے تو گھروں میں عید کی آمد سے پہلے گہرے سرد خانوں یعنی ڈیپ فریزر کی تنگی کیوں پیش آنا شروع ہو جاتی ہے؟ بے شک غریبوں میں تقسیم بھی کیا جاتا ہے مگر ہم غریبوں میں دو وقت کا گوشت ہی کیوں تقسیم کرتے ہیں؟ اس گوشت کے ساتھ پاؤ ٹماٹر، کلو پیاز، درجن بھر لیموں، مصالحہ جات کیوں نہیں دیتے؟ اب اتنا گوشت بھی نہیں دیتے کے غریب کی اولاد چمچوں سے کھائے اور پیٹ بھر جائے۔

تو دوبارہ وہی گمراہوں والا سوال ہوا کہ گوشت کے ساتھ پانچ کلو آٹا یا تین کلو باسمتی چاول کیوں نہیں دیتے؟ گھی اور تیل کا ذکر کرنا بھول ہی گئی جس کو گرم کر کے لذیذ پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔ تو طے ہوا کہ قربانی کا جذبہ اس قدر ہی صادق ہے تو اب سے صرف ایک لفافہ گوشت نہیں ساتھ میں گھی، ٹماٹر، پیاز، ادرک، لہسن، لیموں، نمک مرچ اور اجناس بھی دیں تو آپ کے موقف کی تائید ہوگی کہ سال میں ایک روز ہی سہی مگر بھوک اور افلاس سے سہما ہوا غریب پیٹ بھر کر عمدہ اور ذائقہ دار پکوان تناول کر سکتا ہے۔ اگر ایسا نہیں تو وہ ٹویٹس شیئر کرنا ترک کر دیں جس میں کہا جاتا ہے کہ ہم غریبوں کو گوشت دیتے ہیں اور کے ایف سی میکڈونلڈز والے امراء کو برگر کھلاتے ہیں۔

احساسات تذبذب کا شکار تب ہوتے ہیں جب معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے لئے لائے گئے جانور بھی ”جانوروں“ کی طرح پلے بڑھے ہیں۔ لائیو اسٹاک انڈسٹری کی بد نما شکل جانوروں کی کھیتی باڑی ہے۔ جانوروں کی کھیتی باڑی، یہ گائے بیل پر طنز ہر گز نہیں۔ اب کیا ہے نا کہ ادب میں الفاظ ہی ایسے ہیں۔ مگر جانوروں کی کھیتی باڑی نہیں اس کو جانوروں پر جبر کہا جاتا ہے۔ پہلے جانوروں کی مشقت پر مبنی کھیتی باڑی ہوا کرتی تھی اور اب جانوروں کی الگ سے جبری کھیتی باڑی ہوتی ہے۔

عید پر دس کروڑ جانور قربان ہوتے ہیں۔ دس کروڑ جو کبھی پاکستان کی کل آبادی تھی، دس کروڑ معنی پنجاب کی کل آبادی۔ اگر ہر سال دس کروڑ انسان خاکم بدہن جان سے جائیں ہوں تو کیسے انسانوں کی آبادی گھٹنا شروع ہوگی؟ روزانہ کی تعداد میں انسانی شوق اور ذائقے کے لئے دو سو ملین جانور زمین پر جس میں آبی حیات ملا کر تین سو کروڑ شامل ہیں جانور قربان ہوتے ہیں۔ اب سوچئے کہ بیل گائے بکرے دنبے اونٹ کس درخت اور کس بیل پر اگتے ہیں جو اتنی تعداد میں موجود بھی ہیں، مر بھی رہے اور ختم نہیں ہو رہے جبکہ دنیا بھر میں طرح طرح کے جنگلی جانور اور چرند پرند کمیاب ہو کر ختم ہو رہے ہیں؟

گویا روزمرہ کے استعمال کے گوشت دینے والے جانور کاشت ہوتے ہیں مگر زمیں میں نہیں فارمز میں۔ ایک بھینس سال میں ایک بار ہی بچھڑا جنتی ہے۔ اسی طرح گائے اور اونٹنی بھی ایک ہی بار حمل سے ہوتی ہے۔ بھیڑ اور بکری سال میں دو بار حمل سے ہو سکتی ہیں۔ جانوروں کو زبردستی غیرانسانی طریقوں سے انسیمینیٹ کیا جاتا ہے جس کے باعث اکثر سال میں دو بار اور ہر سال ہی مادہ حمل سے ہوتی ہے۔ جس کے باعث مادہ جانور کی عمر تو گھٹ ہی جاتی ہے اور پیدائش کے فوراً بعد بچھڑوں اور میمنوں کو ماں سے جدا کر کے الگ گوشت اور حمل کے لئے کاشت کیا جاتا ہے۔

ان میں کمزور اور لاغر جانوروں کو فوری تلف کرتے ہیں جو فارمز کے اخراجات پر بنا منافع کے بوجھ بن سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، فیکٹریوں میں بلا کی گندگی اور تنگ ماحول میں جانوروں کو رکھا جاتا ہے۔ جو نت نئے وبائی و متعدی بیماریوں کی بود و باش کا اچھا موقع فراہم کرتا ہے۔ کانگو وائرس ہو یا کرونا یہ سب جانوروں کی جبری کھیتی باڑی کا ہی شاخسانہ ہیں۔ اینیمل فارمنگ یا جانوروں کی جبری کاشتکاری سرمایہ دارانہ نظام کی ایک بہیانک شکل ہے، جو فطرت کی تباہی کے عوض برسر پیکار لایا جاتا ہے جس کی کڑیاں حالیہ تاریخ میں گورے کے نوآبادیاتی اطوار سے جا ملتی ہیں۔

ان فارمز پر کام کرنے والے افراد نہ تو ویکسینیٹ ہوتے ہیں، نہ ان کی آمدن منافع سے مطابقت رکھتی ہے۔

لائیو اسٹاک انڈسٹری نے سنہ 2020 میں زراعت کے شعبے میں 60.0 فیصد تک مثبت حصہ ڈالا جو کہ مجموعی قوت پیداوار کا گیارہ فیصد تھا۔ پاکستان میں گزشتہ برس تک اکتالیس ملین گائے، 49.6 ملین بیل، 5.4 ملین گدھے اور 78.2 ملین بکریاں اور 30.9 ملیں بھیڑ کی پیداوار ہوئی۔ صرف امریکہ میں نو بلین جانور ہر سال خوراک کے لئے ذبح کیے جاتے ہیں۔ جانوروں کی جبری کاشتکاری سے ماحول پر مضر اثرات بھی بتسبر کے مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ نا صرف جانوروں کی افزائش کے حوالے سے اخلاقی مروجات کا باعث ہے، بلکہ حیاتیاتی تنوع، پانی کے وسائل میں تنزلی، کورل ریف اور جنگلات کی قلت کا باعث بنتی ہے۔

صرف جانوروں کی جبری کاشت کاری ہی 18 ٪ مضر ماحولیات گرین ہاؤس گیس پیدا کرتا ہے جو کہ ماحول کو آلودہ کرنے والے صنعتی اخراج سے کہیں زیادہ ہے۔ جہازوں، بندرگاہوں پر کھڑی بڑی کشتیوں، گاڑیوں، ٹرکوں کے دھوئیں کس ماحول پر منفی اثر جانوروں کی کاشت کاری سے کہیں کم ہے۔ یہ بات ثبوت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انسانی صحت پر گوشت کے علاوہ صرف ان جانوروں کی صنعتی افزائش سے نہایت منفی رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں گرمی کی حالیہ سنگین لہریں، قحط سالی، سیلاب شامل ہیں۔

جب کہ قحط سالی اور سیلاب انسانی ہجرت، معاشی مسائل، اموات اور بیماریوں کا باعث ہیں۔ ایک کلو گرام گوشت کی پیداوار میں بچیس کلو گرام اجناس کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ پندرہ سو لیٹر پانی جانوروں کی مصنوعی پیداوار میں سرف ہوجاتا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ قدرتی طور پر گائے، بکریوں، بھیڑوں، مرغیوں کی اتنی پیدائش نہیں ہوتی جتنی مصنوعی ذرائع سے دنیا بھر میں ہو رہی ہے۔ جہاں بھی کسی جانور کی آبادی میں اضافہ یا کمی ہوتی ہے، اس کا براہ راست تعلق ماحولیات سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ دنیا میں آج تیس فیصد زمین اسی مصنوعی اور غیر اخلاقی جانوروں کی افزائش میں استعمال ہو رہی ہے۔ وہ تمام اجناس جو مصنوعی طور پر پیدا کیے جانے والے جانوروں کو دیے جاتے ہیں، اگر یہ سلسلہ رک جائے تو دنیا میں تین اعشاریہ پانچ فیصد لوگوں تک خوراک کی رسائی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔

جانوروں کو دی جانے والی اینٹی بیکٹیریل دواؤں او بعد میں ان کا گوشت کھانے والے انسانوں میں اینٹی بیکٹیریل رززٹنس دیکھنے میں مل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سی دوائیں اب بے اثر ثابت ہوتی ہیں۔ صرف امریکہ میں تئیس ہزار لوگ اس وجہ سے جان سے جاتے ہیں۔

تشدد اور خون بہانے کی ترغیب تو وہیں سے ملنا شروع ہوجاتی ہے جب ہم انہماک سے جانوروں کو ذبح ہوتے دیکھنے کے لئے چوباروں، چھتوں اور کھڑکیوں کی جانب لپکتے ہیں۔ ایک جانور کو اپنی جاں بھی اتنی پیاری ہے جتنی ہمیں۔ رسی چھڑا کر، چھری کی ضرب کھا کر بھی وہ جان بچانے کے لئے بھاگتا ہے۔

دوسری جانب سجنے والی مویشی منڈیوں میں جہاں جانور آرائش و زیبائش کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں، وہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ عورت کی حیثیت انسان سے کم کر کے کسی قربانی کے جانور کی سی نہ کی جائے۔ جہاں ایک بیل کو قربانی کے مقدس فریضے کی بجائے شان و شوکت اور طاقت کا مرکز بنا کر پیش کیا جائے وہیں روایتی عورت کی انسان تلفی اور اس کی حیثیت محض ایک دل کش دام لگی شے تک محیط کرنا بھی خاصا عام ہے۔ انسان کی محرومی پر منافع کمانے والے اطوار جہاں عورت کو سامان عشرت سمجھتے ہیں وہیں جانور کے دام بڑھانے کے لئے ساتھ میں عورت کو کھڑا کرتے ہی نظر آتے ہیں جو کہ واشگاف الفاظ میں ان طور طریقوں کی سنگینی کو بیان کرتا ہے۔

فطرت کے خلاف بدسلوکی کے شکار جانوروں کی قربانی جائز ہے یا نہیں جن کے ساتھ پیسہ کمانے کے لئے جبری تخسم ریزی کی جاتی ہے، اس کا فیصلہ آپ کے ایمان اور دین اسلام کے اصل معنی و مفہوم پر ہی مبنی ہے۔ مگر جب تک آپ اس کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں، غرباء کو گوشت بھرے لفافے بمع پیاز ٹماٹر، نمک مرچ اور اجناس کے ساتھ ضرور دیجئے گا تاکہ سرمایہ دار گورے کے خلاف ہم یہ اخلاقی بحث نہ ہاریں کہ ہم کروڑوں جانوروں کو غرباء کی بھوک مٹانے کے لئے قربان کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments