خوف کا راج کیا کرتا ہے؟



جن کا احترام ہم خوف کی وجہ سے کرتے ہیں ان کا احترام دل سے کرنا ممکن نہیں رہتا ہے۔ خوف انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ ایک گروہ خوف پیدا کر کے حکمرانی کرتا ہے اور دوسرا گروہ خوفزدہ ہو کر اور دولے شاہ کے چوہے بن کر احکام کی تعمیل کرتا ہے۔

خوف انسانی دماغ کو مفلوج کر دیتا ہے۔ خوفزدہ انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں معطل ہو جاتی ہیں۔ وہ مسائل کا حل ڈھونڈنے کے قابل نہیں رہتا ہے اور ہر وقت مسائل سے فرار کے راستے ڈھونڈتا رہتا ہے۔ خوفزدہ انسان کی نظربندی ہو جاتی ہے اور اسے صرف اپنے آپ کو قہر آمریت سے بچانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔

ہمارے اداروں میں مینجمنٹ خوف کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے۔ لوگوں سے کام لینے کے لئے انہیں خوفزدہ کیا جاتا ہے اور انہیں موت دکھا کر بیماری پر راضی کر لیا جاتا ہے۔ باس پربت کی چوٹی پر بیٹھ کر احکام صادر کرتے ہیں اور ورکرز رعایا کی مانند بادشاہ سلامت کے دربار میں سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں موجود اداروں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ خوف کے عالم میں کام کرنے والوں کی تخلیقی صلاحیتیں دم توڑ دیتی ہیں۔ وہ سر ہلا ہلا کے جی ہاں جی ہاں تو کرتے ہیں لیکن دل کی بات کی شنوائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اندر لگن کے ساتھ کام کرنے کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔ مینجمنٹ کی فکر کے اماموں کے اندر اس امر پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ہمیں اداروں میں ”نفسیاتی تحفظ“ کو فروغ دینا چاہیے اور کسی بھی موضوع اور ہستی کو ”مقدس گائے“ کا درجہ نہیں دینا چاہیے۔

ہم سب کا یہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب دوچار بے تکلف دوست کسی محفل میں محو گفتگو ہوتے ہیں تو اس ”مقدس گائے“ کی سرجری شروع ہو جاتی ہے جس کی موجودگی میں سب کے ہونٹ سلے ہوتے ہیں۔ اس لیے ”مقدس گائے“ کو خود ہی اپنے تقدس کا پردہ چاک کر دینا چاہیے تاکہ اس کے خیرخواہ اس کے سامنے بیٹھ کر بھی وہ بات کر سکیں جو اس کی پیٹھ پیچھے کرتے ہیں۔ احمد فراز یاد آ گئے جو کہا کرتے تھے۔

تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو پھر کیوں اتنے حجابوں میں ملیں

حجاب وہاں رکھے جاتے ہیں جہاں پر لبوں کو چند مخصوص موضوعات اور چند شخصیات کے کچھ خاص رویوں پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ اور جدید دنیا میں جو ادارے کام کرتے ہیں ان میں موجود ہر سینئر لیڈر کا ایک کوچ ہوتا ہے جو ان کی جسمانی صحت کا بھی خیال رکھتا ہے اور انہیں ان کے وہ داغ بھی دکھاتا ہے جو وہ خود نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ ہم سب کی کمر پر ایسے داغ موجود ہوتے ہیں جو ہم خود دیکھ نہیں پاتے ہیں لیکن ہمارے ہمدردوں کو وہ داغ نظر آرہے ہوتے ہیں اور اگر ہم اپنے ”سایہ“ سے ملاقات میں دلچسپی رکھتے ہوں تو وہ ہمیں ہمارے داغوں کے متعلق آگاہ کر سکتے ہیں۔

خوف پیدا کرنے والے لیڈر صرف بولتے ہیں اور کسی کی کھری کھری سننے کا حوصلہ تو بالکل نہیں رکھتے ہیں۔ ان کا ابلاغ یک طرفہ ہوتا ہے۔ لوگ ان سے کسب فیض کرتے ہیں کیونکہ وہ دانش اور حکمت کا منبع ہوتے ہیں۔ ان علامہ قسم کے لیڈروں کو یہ سمجھ نہیں آتی ہے کہ آج کی جدید دنیا پیچیدگی کی حامل ہوتی ہے۔ یہاں پر کوئی بھی حرف آخر نہیں ہے اور ہر شعبے کے عالم موجود ہیں جن سے مشورہ کرنا درست نتائج تک پہنچنے کے لیے ناگزیر ہے۔ لیڈر کا کام مختلف ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک بامعنی اور مربوط تصویر بنانا ہوتا ہے لیکن اگر کوئی لیڈر خوف کو اپنے لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لیے بطور ہتھیار کے استعمال کرے گا تو پھر اس کے لوگ اسے اپنے فن کی جانکاری دینے کی بجائے اس کی انجمن سے زندہ بچ کر نکل آنے کو ہی اپنا مطمح نظر بنا لیں گے۔

یہ یاد رہے کہ ہمارے پدر سری معاشرے میں مرد کا برسر روزگار ہونا اس کی مردانگی کی دلیل ہے اور اگر وہ کسی بھی سبب اپنی ملازمت سے محروم ہو جائے تو یہ سفاک پدرسری سماج اسے کوڑا کرکٹ گردانتے ہوئے قصہ ماضی بنا دیتا ہے۔

اس پس منظر میں سیاسی اور ادارہ جاتی لیڈروں سے پر زور اپیل کی جاتی ہے کہ اپنے لوگوں کے لبوں کو آزاد کر دیں تاکہ آپ کو زمینی حقائق تک رسائی مل سکے جو کہ آپ کی قیادت اور فیصلہ سازی کے عمل کو موثر اور کارآمد بنانے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments