جو بکرے نے مارا بکری کو سینگ


کسی زمانے میں شاعر نے کہا تھا کہ
”جو بکرے نے مارا بکری کو سینگ
تو بکری بھی مارے گی بکرے کو سینگ ”

شعر کے نفس مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ شعر اور شاعر دونوں گوگل اور انٹرنیٹ سے پہلے کے دور کے ہیں۔ جب انسان کی معلومات نامکمل تھیں اور اس شاعر کاتوتخیل بھی محدود تھا٭۔ شاعر اگر گوگل اور انٹرنیٹ کے دور کا ہوتا تو اس کی سمجھ شریف میں یہ بات آ چکی ہوتی کہ اگر بکرا، بکری کو قصداً یا سہواً سینگ مار بیٹھے تو پھر بکری اسے صرف سینگ نہیں مارتی اور بھی بہت کچھ مارتی ہے بلکہ اتنا کچھ مارتی ہے جس کو گننا انسان کے بس کی بات نہیں ہے بلکہ یہ گنتی تو کوئی عام کمپیوٹر بھی نہیں کر سکتا صرف سپرکمپیوٹر ہی کر سکتا ہے ٭۔ بکرے کو عموماً بکری کی مار کی کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ بکرے کا دل تو تب ٹوٹتا ہے جب بکری اسے غیروں سے مرواتی ہے۔ یہی بات اسے تڑپاتی ہے ٭۔

ہمارے ایک شاعر جو اس امت کے حکیم بھی ہیں اور بجا طور پر امت کی رگ رگ سے واقف ہیں، بہت پہلے فرما گئے تھے کہ اگر بکری کی ذات چھوٹی بھی ہوتو دل کو اسی کی بات لگتی ہے۔ بکرے کی بات عموماً نظر انداز کردی جاتی ہے ٭ علامہ اقبال امت کی نبض پہچانتے تھے، اسی لیے کہہ گئے۔ :

یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
اگر چھوٹی ذات کی بکری کی بات بڑی ہوتی ہے تو بڑی ذات کی بکری کی بات کی کیا ہی بات ہوگی٭۔

جیسے دانا خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے ایسے ہی بکرا کو اگر اچھے قصائی اور اچھے نائی کے ہاتھ لگ جائیں تو انتہائی لذیز ڈش تیار ہوجاتی ہے۔ لوگوں کو بکرا تو یاد نہیں رہتا مگر لذیز کھانا ساری عمر یاد رہتا ہے۔ شاید اسی کو کہتے ہیں۔ :

کسی کی جان گئی
کسی کی ادا ٹھہری٭

جیسے زندہ ہاتھی لاکھ کا ہوتا ہے تو مردہ سوا لاکھ کا۔ ایسے ہی بکرا زندہ بھی قیمتی ہوتا ہے مگر جب بکرا ”ڈکرا“ بن جائے بلکہ ڈکرے ڈکرے ہو جائے تو اس کی قدروقیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ انسان کا کردار حالات کی بھٹی میں تپ کر اکسیر ہوجاتا ہے ایسے ہی بکرا کڑاہی میں پک کر بے نظیر ہوجاتا ہے ٭۔

آج تک کوئی نہیں جان سکا کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منا سکتی ہے مگر ہمارے ہاں بکرے کی ماں ”بھار“ ضرور مناتی ہے ”بھار“ مقامی زبان میں غرور کو کہتے ہیں ٭۔ بکری کی ماں کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کب تک خیر منائے گی اور وہ بیچاری تو ”بھار“ بھی نہیں منا سکتی٭۔ بکرے عموماً حال مست اور کھال مست ہوتے ہیں۔ بکروں کا قومی شعار یہ ہے کہ ان کو جہان کی کوئی فکر نہیں ہوتی اور وہ یہ سوچ کر مطمئن رہتے ہیں۔ :

”مجھے فکر جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یہ میرا“ ٭

بکروں کو سب سے بڑی پریشانی یہ رہتی ہے کہ یہ دنیا مطلب کی ہے، ان کی نہیں ہے۔ کئی بکرے اسی امید پہ زندہ ہیں کہ دنیا کبھی نہ کبھی ان کی ہو جائے گی۔ دنیا آج تک بڑے بڑوں کی نہیں ہوئی تو کسی بکرے کی کیسے ہو سکتی ہے۔ ٭بکرے کے چال چلن سے زیادہ اس کا قد و قامت اور وزن دیکھا جاتا ہے ۔ بکرے کی زندگی تو ویسے بھی عارضی ہے۔ لوگوں کی نظر میں کچھ بکرے ٹیڈی ہوتے ہیں تو کچھ ریڈی۔ بکری کے سامنے تمام بکرے ہی ٹیڈی ہوتے ہیں اور بکرا ٹیڈی ہو یا نہ ہو بکری کے ایک اشارے پر اپنی جان دینے کے لیے عموماً ریڈی ہوتا ہے ٭۔

ایک دل کے ٹکڑے ہزار ہو سکتے ہیں اور وہ یہاں وہاں بھی گر سکتے ہیں مگر ایک بکرے کے ٹکڑے گنے چنے ہی ہوتے ہیں اور ان میں سے قصائی کے پاس چنے ہوئے ہی آتے ہیں اور وہ ان کو اپنے چنے ہوئے لوگوں کوہی دیتا ہے ٭۔ اس چنن چنائی میں عام آدمی کے لئے بکرا زندہ یا مردہ ہرجائی ثابت ہوتا ہے اور اس کے دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ جاتے ہیں شرمندہ بل نہیں ہوتے ٭۔

ہمارے علاقے کے ایک شاعر کا جب اپنی محبوبہ سے جھگڑا ہوا تو اس نے محبوبہ کو تڑی لگائی کہ اگر جھگڑا ہو بھی گیا ہے تو کیا۔ وہ کوئی گھاس پھوس تو ہے نہیں جس کو محبوبہ اکھاڑ کے کہیں دفن کر دے گی۔ بکرے کا اگر اپنی بکری سے جھگڑا ہو جائے تو وہ تڑی لگانے کی پوزیشن میں ہوتا ہے یا نہیں اس بارے میں سائنس تو خاموش ہے مگر گمان یہ ہے کہ وہ بالکل تڑی لگانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا زیادہ تر بکرے صلح جو ہوتے ہیں اور ظلم و زیادتی کو گاندھی جی کے ”آہنسا“ کے تمام اصولوں کے عین مطابق برداشت کرتے ہیں ٭۔

ایک صاحب ایک دفعہ بڑے تفاخر کے ساتھ ملک و ملت کے لیے اپنی خدمات گنوا رہے تھے اگرچہ ان کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ ان کی خدمات گنتی میں نہیں آ سکتی۔ کافی دیر ان کا بھاشن سننے کے بعد ایک صاحب جو شاید کسی زمانے میں محکمہ انسداد بے رحمی حیوانات سے وابستہ رہ چکے تھے کھڑے ہو گئے اور بصد احترام کہنے لگے کہ آپ کی خدمات سے انکار نہیں مگر یہاں ان بکروں کے لیے بھی اک کلمہ تحسین کہنا بے جا نہ ہوگا جو ان خدمات کی بجا آوری میں آپ کے معاون ثابت ہوئے اور جنہوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر آج آپ کو یہاں کھڑے ہو کر ہمارے علم میں اضافہ کرنے کا موقع فراہم کیا٭۔

ہمارے ملک کے تمام علاقوں میں بکروں کی بڑی قدروقیمت ہے۔ کہیں بکروں کی سجی پسند کی جاتی ہے تو کہیں بکرے کی سجی کبھی ران سمیت ہر چیز بڑی رغبت سے کھائی جاتی ہے۔ کہیں بکرے کو سجایا جاتا ہے تو کہیں بکرے کا روسٹ بنایا جاتا ہے کہیں بکروں کی ٹکاٹک بن رہی ہوتی ہے تو کہیں بکروں کی ٹک ٹاک بن رہی ہوتی ہے۔ ٭

دنیا ایسی ظالم جگہ ہے جہاں کئی لوگ ساری زندگی محنت کرتے رہتے ہیں مگر ان کی دکان پر عمر بھر اتنی ”بکری“ نہیں ہوتی کہ وہ ایک بکری ہی خرید سکیں ٭۔ کچھ لوگ ساری زندگی بکرے پالتے رہتے ہیں اور ان کو دوسروں کے لئے سنبھالتے رہتے ہیں مگر خود بکرے کے گوشت کو ترستے رہتے ہیں۔ ٭

زندگی کسی کے لیے خواب، تو کسی کے لیے عذاب ہے مگر کسی بکرے کی قربانی ایک ایسا کار ثواب ہے جو صرف اس مومن کو حاصل ہوتا ہے جو جانتا ہے کہ قربانی کیا چیز ہے؟ قربانی کے جذبے کی اصل خوبصورتی یہ ہے کہ قربانی بھلے کوئی دے، اس کے ثمرات میں حصہ سب کا ہوتا ہے ٭۔

(کالم نگار نشتر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کا حصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments