قربانی کو رحمت ہی رہنے دیجیے، زحمت نہ بنائیں!



عید قربان کی آمد آمد ہے اور بازار میں لوگ اپنے جانوروں کے کان مروڑتے عام دکھائی دیتے ہیں۔ بچہ لوگ پٹھے کھلاتے ہیں اور ہر طرف بے ے ے ے، بے ے ے! کی آواز سنائی دیتی ہے۔ کہیں کہیں تو اونٹ بھی دکھتے ہیں۔ پاکستان میں یہ نظارے عام ہیں اور کیوں نہ ہوں، ملک کی نوے فیصد سے زیادہ آبادی مسلمان ہے اور قربانی نہ صرف اسلام کا ایک اہم رکن بھی ہے بلکہ اب تو اپنا نیک پنا دکھانے کا بہت اچھا طریقہ بھی بن چکا ہے۔

عید پر موجیں لگیں گی، ران اور پٹھ کا گوشت رشتے داروں کو بھیجا جائے گا، اپنا فریزر بھرا جائے گا، کچھ چھیچھڑے غریبوں کو بھی مل جائیں گے۔ کھال بھی کہیں نہ کہیں ثواب کی نیت سے بھیج دی جائے گی۔ بار بی کیو بھی ہو جائے گا۔ واہ بھائی واہ۔

اس کے بعد کیا ہو گا؟

بازاروں میں جگہ جگہ جانوروں کی اوجھڑیاں، معدہ اور گوبر سے بھری انتڑیاں ہوں گی۔ نالیاں نالے خون سے بھرے ہوں گے۔ چالیس ڈگری درجہ حرارت میں جب rate of decomposition بھی اپنی بلند ترین سطح پر ہو گا، ہر سانس کے ساتھ ایک بو کا بھبوکا آئے گا۔ مگر یہ تو پھر عید کے ساتھ ہوتا ہی ہے۔ نوے فیصد اکثریت جو گند پھیلائے گی اس کو اس ملک کی چند فیصد پسی ہوئی اقلیت صاف کرنے کو نکلے گی۔

نہ نہ، غصہ کرنے کی ضرورت نہیں! کسی مائی کے لال میں اتنی جرات نہیں جو آپ کو قربانی سے روک سکے۔ آپ بے شک ایک کی بجائے چار قربانیاں کریں۔ دس ہزار کی بجائے دس لاکھ کا جانور لیں۔ کسی کو کیا لگے کیونکہ جنت میں تو آپ نے جانا ہے۔ لیکن سرکار، خدا کے واسطے صفائی نصف ایمان کی حدیث بھی یاد رکھ لیں۔ اپنے پڑوسی کو بکرے کی آوازیں زبردستی سنواتے ہوئے پڑوسی کے حقوق کے باب سے صرف نظر نہ کریں۔

حیرانی اس بات پر ہے جس دین میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے اس کے پیروکار غلاظت پھیلانے میں سب سے آگے ہیں۔ دس سال ہو گئے برطانیہ میں رہتے ہوئے، اب تصور بھی محال لگتا ہے کہ سڑکوں پر جانوروں کی آلائشیں اس طرح نظر آئیں۔ مگر آفرین ہے ہمارے پاکستانیوں پر، لاکھ کی قربانی کر کے دس ہزار اس کے مناسب ڈسپوزل پر نہیں لگا سکتے۔

حکومت چاہے پڑھے لکھے خان کی ہو یا پھر پرچیاں پڑھنے والے نواز شریف کی، کوئی تو اس مسلے کا حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ مذبح خانوں کا قیام، ان کا مناسب استعمال اور قانون کی عملداری ہی وہ اقدامات ہیں جو اس رحمت کو زحمت بننے سے بچا سکتے ہیں، ورنہ ابھی جوان پود ڈھکے چھپے لفظوں میں بولتی ہے، وہ وقت دور نہیں جب لوگ کھلم کھلا ناگواری کا اظہار کریں گے اور ڈر ہے کہ مارے نہ جائیں

بہت سے لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ کام حکومت کا ہے یا انتظامی مسئلہ ہے جس کے لئے عام آدمی کچھ نہیں کر سکتا۔ مگر سرکار بھی ایک خاص حد تک کام کر سکتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر فی جانور دس ہزار روپیہ اس کے مناسب ڈسپوزل کی فیس رکھی جائے تو بہت سے مسائل اپنی موت آپ مر جائیں گے۔

ساتھیو! ہم قربانی کے خلاف نہیں ہیں، مگر قربانی کو صرف باربی کیو بنانے، دکھاوے اور تعفن پھیلانے کے ہم حق میں نہیں۔ ان سب چیزوں سے قربانی کا مقصد فوت ہو جاتا ہے، جس پر ہمیں اعتراض ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments