ڈی آئی جی کی محبوبہ (6)


پانچویں قسط کا آخری حصہ

واپسی پر اس کے ابو سامنے والی نشست پر اور وہ خود ظہیر کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئی۔ کوشش وہی کہ ظہیر کو یہ نہ لگے کہ اس کی اپنی تو پتنگ ہی کٹ گئی ہے۔ لمبی ڈھیل سے اب بھی اس بات کو سنبھالا جا سکتا تھا باوجود اس کے کہ ٹیپو نے اس سفر میں بینو کے دل میں مزید جگہ گھیر لی۔ راستے بھر وہ کبھی ظہیر کی خاموش ٹھنڈی، بے سخن انگلیوں سے کھیلتی رہی تو کبھی اس کے کاندھے پر سر رکھ کر جھوٹ موٹ سوتی رہی۔۔۔۔۔۔

٭٭٭   ٭٭٭

عجب سے دن تھے۔ ظہیر کا فون آتا تو بولایا بولایا، ہراساں سا لگتا تھا۔ بینو کی چھٹی حس کہتی تھی کوئی بڑی گڑبڑ ہونے والی ہو چکی ہے یا عنقریب ہونے والی ہے۔ ظہیر اس واردات کا لازماً کسی نہ کسی طور اہم راز داں یا حصہ دار ہے۔ وہ بینو کے ابو کو پہلے ہی بتا چکا تھا کہ عنقریب وہ بینو سمیت شاید کینیڈا منتقل ہو جائے گا۔ یہ ٹوانہ صاحب کا پلان فائنل ہے۔ طے ہو گیا ہے کہ وہ ایک بڑی رقم کراچی پہنچا دے۔ وہاں سے ہارون منی چینجر کے ساتھ ا یک ہی فلائیٹ سے نکل لے۔ کراچی ائیر پورٹ پر سب کے ساتھ منی چینجر کی آمد و رفت دونوں کی سیٹنگ ہے۔ ہارون اسے وہاں وینکور میں رقم حوالے کر دے گا۔ اس کے ابو نے بہت کم الفاظ میں مگر فیصلہ کن انداز میں بینو کو بھی اس بارے میں باخبر کر رکھا تھا۔

ظہیر نے اشارتاً یہ بینو کو بھی بتا دیا کہ اب گفتگو، معمولات اور دیگر پروگرام شئیر کرنے میں خاص احتیاط کرنی ہے۔ معاملہ بڑی عدالت میں چلا گیا ہے۔ پانامہ میں بہت کچھ لیک ہو گیا ہے۔ نام تو بہت سو ں کے ہیں مگر ٹوانہ صاحب کا کہنا ہے کہ ہات دو تین بڑوں پر ہی پڑے گا۔ باقیوں سے مال پکڑ کر چھوڑ دیں گے۔ تھانے والے بھی یہی کچھ کرتے ہیں۔ کوئی بڑا جرم ہو تو بڑا جال پھینکتے ہیں۔ اس میں ہر طرح کا شکار پھنس جاتا ہے۔ جرم کی سنگینی کی وجہ سے سب کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جان بچاﺅ، باہر نکلو سو خزانے کا منہ کھول دیا جاتا ہے۔ ٹوانہ صاحب کا کہنا ہے کہ اب کی بار بھی نزلہ بڑوں پر گرنے والا ہے مگر کون کہہ سکتا ہے کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی محاسبے کی چکی کے پاٹ میں ڈال دیں۔

سسر، داماد کی آپس میں کیا بات ہوئی اس کا بینو کو کچھ خاص علم نہ ہوا۔ ظہیر اور اس کے ابو لاکھ پڑھے لکھے اور شہری سہی مگر اندر سے تاحال اپنے رویوں میں قدامت پسند تھے۔ ان کے مکالمے اور مباحثے میں عورت کی حیثیت ثانوی اور Need to know basis  والی تھی۔

 اس راز کے خاندان میں آنے سے گھر میں ایک بوجھل سرگوشی کا ماحول طاری ہوگیا۔ اس دوران ٹیپو کی کوشش سے ایک آرڈر نکل گیا جس میں بینو کی تعیناتی   Detailmentپر ملتان سے وہاڑی ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کی تعیناتی تو بدستور ملتان کے ڈائیریکٹوریٹ اور  پہلے والے اسکول میں تھی مگر کام کرنے کی اجازت وہاڑی میں مل گئی تھی۔ وہاں سے انگریزی کی استانی زچگی کی تعطیلات پر چلی گئی تھی۔ اسے ہر طور وہاڑی حاضری کا سرٹیفکیٹ جمع کرانے اور تنخواہ لینے ہر ماہ کم از کم دو مرتبہ ملتان جانا ہوگا۔

اس تعیناتی کے جشن کی دعوت کے طور پر وہاں کسی تفتیش و تحقیق کے لیے آئے ہوئے ٹیپو کو بینو کے اصرار پر ظہیر نے گھر کھانے پر بلالیا۔ بینو کا کہنا تھا ہم غریب لوگ ایک وقت اچھا کھانا کھلانے اور دعا کے علاوہ ایسے محسنوں کو کیا دے سکتے ہیں۔ ظہیر کو یہ دلیل پسند آئی۔

وہیں طے ہوا کہ تین چار ماہ گزر جائیں تو ٹیپو صاحب، ابو، ظہیر اور بینو کو لے کر اسلام آباد جائیں گے۔ اسلام آباد کے فیصلوں کو ٹالنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ وہیں سے وہ اپنے کسی بڑے سے چیف منسٹر کو ایسا طاقت کے انجکشن والا فون کرائیں گے کہ اس کے تبادلے کے آرڈر ڈائریکٹر صاحب خود لے کر دوڑے دوڑے گھر پر آجائیں گے۔

ظہیر کی مرضی تھی کہ وہ اگر کینیڈا منتقل ہو بھی جائے تو بینو کا اس کی غیر موجودگی میں تبادلے کا سرکاری کام قانونی اور پکا ہو۔ ایسا کچھ موقع بنے کہ ٹیپو جی کو اسے اور ابو کو لے کر اسلام آباد جانا پڑے تو وہ اس میں ہچکچاہٹ سے کام نہ لے۔ اس نے بینو کو باور کرا دیا کہ ٹیپو اس کی آخری امید تھے۔ وہ بخوبی اندازہ لگا چکا تھا کہ ٹوانہ صاحب جی تو ان دنوں اس تیندوے کی طرح ہیں جنہوں نے دولت کے ہرن کو تاک لیا ہے اور وہ اس پر فائنل حملہ کرنے سے پہلے بینو کے تبادلے جیسے ریزگاری آپریشن میں ملوث ہو کر کسی بھی قسم کی غیر ضروری حرکت نہیں کرنا چاہتے۔

 ڈنرکے دوران اس نے احتیاط کی کہ وہ ٹیپو کو کم سے کم دیکھے گو اس نے کچن سے انہیں کئی دفعہ دیکھا۔ فون پر ایس ایم ایس کے ذریعے پہلے ہی ان سے پوچھ لیا تھا کہ کھانے میں کیا پسند ہے۔ مٹن کڑھائی تو اس نے خاص افغانی انداز میں یو ٹیوب سے دیکھ کر بنائی۔ ٹیپو، دو تین دفعہ ظہیر کی موجودگی میں ان کے گھر آئے۔

بینو نے پوچھا بھی کہ ہماری طرف کافی آنا جانا ہوتا ہے ایسا کیوں؟ ظہیر کہنے لگے کہ وہاڑی کی لوکیشن بہت مرکزی ہے۔ تخریب کار گروپس کو بورے والا، کہروڑ پکا، میلسی، جہانیاں، چیچہ وطنی، میاں چنوں سے بہت سے غریب، جاہل، جذباتی نوجوان جہاد کے چکر میں مل جاتے ہیں۔ اس لیے ان کی وہاڑی آمد ہر دوسرے تیسرے دن ہوتی ہے۔ بینو نے نوٹ کیا کہ خالی ہات کبھی نہیں آتے، کوئی نہ کوئی تحفہ ہوتا ضرور ہوتا ہے۔ بینو کے والدین کی ان کی آمد سے بہت دھاڑس بندھ جاتی ہے۔ اس کا اپنا بڑا بھائی سہیل نیوی کی جانب سے سیکانڈمنٹ پر سعودی عرب میں تھا۔

ابو سے ٹیپو کی خوب گپ شپ ہوتی۔ وہ شاید اندازہ لگا چکے تھے کہ خاندان میں فیصلہ سازی کا دُھرا Fulcrum بینو کے ابو ہیں، ظہیر یا بینو کی امی نہیں۔ ظہیر اس موقع پر چپ رہتا تھا۔ وہ البتہ احتیاط کرتی کہ ٹیپو سے اس کا کم سے کم سامنا ہو۔ ایسا نہ تھا کہ وہ بے خبر ہوتی کہ کیا باتیں ہو رہی ہیں۔ ہر گھر میں عورتوں کو ایسے کئی کھانچے، دریچوں کا علم ہوتا ہے جہاں سے ڈرائینگ روم میں موجود مہمان کو دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔ اس دن ظہیر لاہور میں ہی تھے اور ٹیپو یہاں وہاڑی آئے ہوئے تھے۔ ان کے آنے کی اس کو اطلاع تو پہلے سے مل گئی تھی۔ مختصر سا ٹیکسٹ میسج تھا

کافی؟

جواب میں اس نے بھی لکھ بھیجا

Starbuck here

انہوں نے کہا بھی تھا کہ رات دس گیارہ بج جائیں گے مگر بینو مائی بھاگی کی گائی ہوئی شاہ لطیف سائین کی ایک کافی کی تفسیر بنی رہی جس کے بول یوں ہیں کہ

لورھن منجھاں لڑھندی اچے (دریا کی لہروں میں خس و خاشاک کی مانند بہتا میرا سسی جیسا بے خوف پیار)

تارین میں ترندی اچے (پر سکوت لہروں میں تمہاری کھوج میں بہاﺅ کے حوالے میرا پیار)

دل باروچل باروچل پئی کرے (میرا دل، میرے بلوچ محبوب، پنہوں تمہاری الفت میں بے قرار ہے)

موسم سرد تھا۔ ابو کو بخار بھی تھا۔ الٹیاں، دست بھی ہو رہے تھے۔ دوا پرہیز کے معاملے میں ہمیشہ سے لاپرواہ تھے۔ بینو اور امی دونوں ہی پریشان تھے۔ اسی نے گھبرا کر ٹیکسٹ میسج دیا کہ جلد آجائیں۔

کوئی رات نو بجے آمد ہوئی۔ ابو کی آدھی بیماری تو انہیں دیکھتے ہی ہوا ہوگئی۔ ٹیپو نے بھی جیسے ہی بیماری کا سنا تو جھٹ سے کہنے لگے کہ انکل ہماری گاڑی میں ہر وقت لازمی دواﺅں کی ایک فوجی کٹ پڑی ہوتی ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ اس ملک میں کوئی دوا، فوجی گولی سے جلدی اثر نہیں کرتی۔ پہلی ہی خوراک سے کچھ آرام آیا تو بینو کے امی ابو نے ضد پکڑی کہ  رات کو کہاں ملتان واپس جائیں گے۔ وہاں جاکر بھی تو آخر سونا ہے۔ اوپر مہمانوں والا کمرہ خالی ہے۔ انہیں یہ کہہ کر روک لیا کہ ناشتے پر گپ لگے گی۔ وہ مان گئے۔

ابو سو چکے تھے۔ امی نچلی منزل پر تھیں۔ بینو اوپر کی منزل میں مہمانوں کے کمرے میں ان کا بستر وغیرہ بچھا رہی تھی۔ اسے پتہ ہی نہ چلا کر اسے دروازے میں کون کھڑا انہماک و الفت سے دیکھ رہا ہے۔ واپس جانے کے لیے پلٹی تو اندر داخل ہوتے ہوئے ٹیپو نے بانہیں پھیلا دیں۔ جانے وہ کون سے مقناطیس تھے کہ وہ کھنچتی چلی گئی اور ان مضبوط بانہوں میں ایسے سما گئی جیسے فیرنی میں زعفران کی خوشبو۔ ابتدا میں تو وہ ان بانہوں سے آزاد ہونے کے لیے کسمسائی بھی۔ پلنگ پر دور بیٹھ کر کچھ گفتگو بھی کی مگر جب ٹیپو نے پوچھا کہ Do you trust me? تو اسے لگا کہ اس کا اجتناب انہیں ناگوار گزرا ہے۔

 کچھ دیر بانہوں میں پگھل کر خود کو سمیٹ کر کچھ دور ہو کر بیٹھ گئی مگر جسم اس پہلی اجنبی رفاقت کے ذائقے سے دھنک رنگ ہوکر دھیمی ستار کی طرح بج رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سارے بدن کا خون دماغ میں گھس گیا ہے اور دماغ گردش خون کی اس گھمن پھیری میں موت کے کنوئیں والی موٹر سائیکل بن گیا۔ انہوں نے اپنا سوال پھر سے دہرایا۔

Do you trust me?

کیا تمہیں مجھ پر وسواش ہے

I do. Indeed. Always

جی مجھے ہے۔ یقیناً اور ہمیشہ کے لیے

Who am I to you?

میں تمہارا کون ہوں؟

My one and only true love. My man

میرا واحد سچا پیار۔ میرے مرد

And who are you to me?

اور تم میری کون ہو؟

I am your woman. Your lost rib

 میں تمہاری عورت ہوں تمہاری گمشدہ پسلی

چالاک ٹیپو اس لیڈ کو پا کر کہنے لگے تمہیں پتہ ہے پسلی گم ہو جائے اور دوری اختیار کر لے تو دل کتنا غیر محفوظ ہوجاتا ہے۔ قریب آﺅ تو میں تمہیں ایک وچن دوں۔ ساتھ جینے مرنے کا وعدہ کریں تاکہ ہر رکاوٹ کو توڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا گھر بسا لیں۔ ہم دونوں کا ایک ہی مسئلہ ہے۔ تمہیں میاں مرضی کا نہیں ملا اور مجھے بیوی۔ اس چکر میں ہمارے بچے آسمانوں میں ہمارے ملاپ کے منتظر بیٹھے ہیں۔

بچے، گھر، ازدواجی ناآسودگی کے جو یہ جل ترنگ منتر ان کے لبوں سے آزاد ہوکر اس کے کانوں میں زمزمہ پیرا ہوئے تو اس کی مدافعت نسوانی کے بہت سے تربیلا ڈیم ٹوٹ گئے اور جذبات کا طوفان سارے وجود کو ڈبو گیا۔

 بینو جو قریب آ کر بانہوں میں دوبارہ سمائی تو بہت سے فاصلے مٹ گئے۔ اس نے بہت ہلکے سے اپنے کانوں کی لو کو چھوتے ہوئے مردانہ ہونٹوں کی زبانی سنا” بینو آئی لو یو۔ بی مائن”

محبت کو اظہار کا موقعہ ملا تو قول و قرار اور بوس و کنار ہوئے۔ بینو کو پہلی دفعہ اس مردانہ لمس کی وحشت بھری لگاﺅٹ کا اندازہ ہوا جس کے خواب وہ بلوغت کی ابتدائی یلغار سے دیکھتی چلی آئی تھی۔

ٹیپو نے اسے یقین دلایا کہ وہ ذمہ دار، سچے، میچور اور وفا شعارہیں۔ اپنے کام کے حساب سے ان کے پاس خفیہ اور خطرناک رازوں کا ایک خزانہ ہے۔ اس بات سے بخوبی آشنا ہیں کہ وہ بھی ایک پاکیزہ اور گھر بار والی معزز عورت ہے، سو راز داری کا اہتمام رہے گا۔ کاندھے پر سر رکھی، سپردگی کی چاندنی کے ہالے میں جگمگاتی بینو کو مردانہ سینے کی کشادگی۔ بانہوں کی تحفظ بھری اپنائیت اور مردانہ ہونٹوں کی مقناطیسی پکڑ دھکڑ کا پہلی دفعہ احساس ہوا۔

بتا رہے تھے کہ ان کی بیگم سے ویسے بھی نہیں بنتی۔ مالدار گھرانے کی ہیں۔ مکسڈ خاندانی پس منظر ہے۔ کاروباری، گجراتی،۔ کراچی کی پوسٹنگ میں شادی کی غلطی ہوگئی تھی۔ رینک بھی جونئیر تھا اور عقل ڈاڑھ مسوڑوں کے اندھیروں میں گم تھی۔ اس شادی کو بس جوانی کی بھول جانو۔ والد، والدہ آج تک ناراض ہیں کہ کراچی میں شادی کیوں کی۔ بتا رہے تھے کہ تحصیلدار پختون ابو کا اصرار ہے کہ کراچی کے تاجروں میں کلاس نہیں ہوتی۔ شکر ہے اولاد نہیں ہوئی۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔

اس انکشاف پر بینو کے کان کھڑے ہوگئے کہ بچے نہیں۔ الرٹ ہوگئی کہ یہ کیا ظہیر والا ایکشن ری پلے ہونے لگا ہے مگر وہ کہنے لگے کہ بیگم کوچیک کرایا تھا کہ خرابی کیا ہے۔ پتہ چلا  primary ovarian insufficiency (POI)کاعارضہ ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ بچہ کی پیدائش سے جڑے کئی معاملات ہیں۔ طبی درستی پیچیدہ بھی ہے اور اس میں خطرات بھی ہیں۔ دواﺅں کا استعمال طویل عرصے رہے گا۔ پیٹ میں آنے والا بچہ کسی بد احتیاطی کی وجہ سے پیدا بھی ہوا تو وہ ذہنی جسمانی معذوری کا شکار ہوسکتا ہے۔ ماں باپ نہ بننے کو رضائے الہی مانو۔ جاپانیوں کے ہاں بھی تو آٹھ ہزار افراد میں ایک بچہ کا برتھ ریٹ ہے۔ اللہ کے آگے کس کی چلی۔ تم مرد ہو۔ تم میں کوئی خرابی نہیں۔ یہ سن کر بینو ایسی جذباتی اور نہال ہوئی کہ بوسہ لینے میں ان کی زبان بھی ہلکے سے کاٹ لی۔

ٹیپو بتانے لگے کہ ان کی بیگم اس مدعے کو لے کر بہت مذہبی ہوگئی ہیں۔ گھر میں بھی بہت لپٹی لپٹائی رہتی ہیں۔ اصرار یہ کہ گھر میں بھی مرد ملازم ہوتے ہیں۔ میرا چھونا انہیں ایک طعنہ لگتا ہے۔ ہم ساتھ ہوں تب بھی سوتی علیحدہ کمرے میں ہی ہیں۔ کراچی کی لڑکیوں سے شادی کے معاملے میں انہوں نے طے کرلیا ہے کہ وہ اپنی سات پشتوں کو منع کر دیں گے۔ وہ کیوں؟ بینو نے پوچھا۔

کہنے لگے سندھ کے لوگوں میں Sense of Entitlement  بہت ہوتا ہے۔ بینو کے من میں آئی کہ یہ کیا چیز ہے مگر یہ سوچ کر باز رہی کہ کہنے سننے کو ان مشکل سے حاصل لمحات میں اور بھی بہت کچھ ہے۔

اس بیان ازدواجی بے لطفی کو سن کر بینو کی سخاوت اور سپردگی میں اضافہ ہوا۔ اس کے بوسوں اور آغوش دونوں میں شدت آگئی۔ ان ہی جسمانی لذتوں کے تبادلے میں اس کے  Multi-Tasking Mind نے سوچا کہ کراچی کی لڑکیوں پر فی الحال مٹی پاﺅ۔ جب ان کی شادی ہوجائے گی تو تاجر کی اس جنس بے زار بیٹی کو وہ سال بھر کے اندر ہی میکے کورئیر کر دے گی۔ شادی ہوجائے گی تو خود لمحات وحشت و وصال میں سیکس اور دلداری کا ایسا سونامی لائے گی کہ اس کے جان یمان جیسے ٹیپو بھی بستر کے نیچے چھپتے پھریں گے۔ کمرے میں ہر طرف بس ایک گیت بجے گا کہ پورے ہوں گے سب ارمان، تم دیکھنا میری جان، بنے گا نیا پاکستان۔

گرفت میں بتدریج بڑھتی وحشت سے اندازہ ہورہا تھا کہ ساری خرابی بیگم ٹیپو میں ہی تھی۔ بینو نے سوچا جب عورتیں ازدواجی حلال سیکس میں بھی ایسے درشت، جنس دشمن اور بے زار سوکھی تلی ہوئی مرچ جیسے رویے اپنائیں گی تو مرد کا تو دل، دماغ اور باڈی ڈیزائین ہے ہی ایسا کہ وہ اس کی تسکین باہر تلاش کرے۔ مرد تو نطفے کے معاملے میں ہمیشہ لاپرواہ ہے۔ کہاں کیا چھوڑ آیا یہ تو محمود غزنوی اور سکندر اعظم کے زمانے سے ملتان دہلی اور چترال بھی نہیں بتا سکتے۔ اس نے دل ہی دل میں تف بر بیگم ٹیپو کہا۔

اس کے اندازے درست تھے۔ ٹیپو واقعی مرد ہیں۔ ان میں کوئی خرابی نہیں۔ ان کی کھرج دار آواز گھٹی گھٹی سانسوں اور یہاں وہاں ٹٹولتے مردانہ ہاتوں کے لمس کے الجھتے پھیلاﺅ میں دور سے آتی ہوئی ایک یقین دہانی بھی سنائی دی کہ اگلے سال کے آخر میں بورڈ ہے۔ جب وہ اگلے رینک پر ترقی پا لیں گے تو اسی ہفتے وہ مستقل طور پر ایک دوسرے کے ہو کر اپنا گھر بسا لیں گے۔ ان کاا اپنا گھر بچے ہوں گے۔ تب تک احتیاط اور رازداری، معاملہ فہمی اور ایک دوسرے پر اعتماد کر کے جینا ہو گا۔ اس سارے مکالمے کو انہوں نے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر یہ کہہ کر سیل کردیا کہ

 You never disobey me and I will not disappoint you.

میری حکم عدولی مت کرنا تو میں تمہیں کبھی مایوس نہیں کروں گا

بینو کی انگریزی کوئی ایسی خاص نہ تھی مگر بوس و کنار اور ہم آغوشی میں سپردگی کا ایسا الاﺅ دہکا کہ ہلکی سی سسکی بھر کر اس نے بھی کہا

Once Yours, All and Always Yours

ایک دفعہ تمہاری بنی تو ہمیشہ اور پوری کی پوری تمہاری ہوئی۔

یہ سلسلہ بوس و کنار اور لاگ لپٹ جانے کب تک چلتا رہتا مگر سیڑھیوں کے پاس سے بینو کو اپنی امی کی آواز سنائی دی۔ ڈری کہ کہیں اوپر ہی نہ آ جائیں۔ حلیہ درست کر سیڑھیاں پھلانگ کر بھاگم بھاگ نیچے گئی تو پوچھنے لگیں کہ یہ مہمان کا بستر ٹھیک ہو رہا ہے کہ ملتان میں کوئی پولو گراﺅنڈ تیار ہو رہا ہے۔ بستر بچھانے میں پون گھنٹے لگ گیا۔ کیا پہلی دفعہ پلنگ کے پاس گئی ہے۔ اسے اپنی امی کے اس ذو معنی جملے پر زور کی ہنسی آئی۔ چیخ کر کہنے لگی ” گیزر نہیں چل رہا۔ میں باتھ روم میں لائن چیک کر رہی تھی۔ مہمان ٹھہرانے کا شوق ہے تو گرم پانی کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ بے چارے سردی میں کیسے نہائیں گے“۔ امی نے ترنت کہا ”تم سویرے نیچے سے گرم پانی کی بالٹی اوپر لے جانا۔”

صبح کو ملتان جاتے وقت وہ ابو کو زبردستی گاڑی میں بٹھا بڑے ہسپتال کے ڈاکٹر کو دکھانے ساتھ لے گئے۔ بینو نہیں گئی۔ وہ ظہیر کو اس لاحاصل شک و حسد میں نہیں بدلنا چاہتی تھی کہ وہ اس کی گھر سے دوری سے کو اپنے کسی ناجائز منصوبے کی عملداری کے حق میں استعمال کرکے مزے لوٹ رہی ہے۔ اس کی امی نے بھی اس کی تجویز اجتناب کی حمایت کی۔ بینو کی ماں کا کہنا تھا ظہیر لاکھ سگے بھائی کا بیبا بیٹا سہی۔ سات دلہنوں کے جیسا کم سخن و تابع دار۔ پھر بھی ہے تو داماد ہی نا۔ بڑے بوڑھے کہتے تھے، داماد گدھے کی پچھلی لات ہوتا ہے کوئی پتہ نہیں وہ کس وقت اچھال دے۔ دولتیاں جھاڑنے کا بلا وجہ موقع دینا قرین دانش نہیں۔

اس نے بہانہ کر دیا کہ اسکول میں تقریب ہے اور شرکت لازم۔ امی ساتھ چلی گئیں تھیں، ان کی روانگی کے بعد بینو کو لگا ایک نئی عورت نے اس میں جنم لیا ہے۔ آزاد، بے باک، جسمانی لذت کے کھوج میں سرگرداں۔ محبوب کو سب کچھ سونپ دینے پر آمادہ۔ نتائج سے بے پرواہ مگر تیندوے کی طرح بے وفائی کے درخت پر گھات لگا کر براجمان۔

ابو امی جب ملتان کے لیے سفری سامان جمع کرنے کو کمرے میں تھے، ٹیپو کی جانب سے بینو کو بتا دیا گیا کہ وہ فون وغیرہ کے معاملے میں احتیاط کرے۔ اب ان کا ملنا اچانک ہوگا۔ اسکول کی ملازمت کا جو موجودہ انتظام ہے وہ اس ملاقات میں معاون ہوگا۔ کبھی وہاڑی تو کبھی ملتان۔ اس میں اب فوری طور پر کسی تبدیلی کی کوشش سے معاملات آﺅٹ آف کنٹرول ہو جائیں گے۔ سو اس معاملے میں چل (Chill ) رہے۔۔ اس کی ملتان آمد کے لیے جب بھی ضرورت ہو چار گھنٹے میں مناسب کار مع ڈرائیور اس کی خدمت میں حاضر ہوجائے گی۔ (جاری ہے)

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments