معاشی آزادی کے 30 سال: وہ چار شعبے جنھوں نے انڈیا کو بدل کر رکھ دیا

میوریش کوننور - بی بی سی مراٹھی


انڈیا

1991 سے پہلے انڈیا کی معیشت کا انحصار کاشتکاری اور حکومت سرمایہ کاری پر تھا

1991 میں انڈیا میں اقتصادی لبرلائزیشن کا دور شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد انڈیا نے متعدد تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ یہ تبدیلیاں اتنے بڑے پیمانے پر ہوئیں کہ اس کے بعد پیدا ہونے والی نسل کے لیے 30 سال قبل کے انڈیا کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہے۔

وہ انڈیا شاید آج کی نسل کو ناقابل یقین لگے۔

سنہ 1991 سے پہلے کا انڈیا کیسا رہا ہو گا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت ملک میں صرف ایک ٹی وی چینل یعنی دور درشن ہوتا تھا اور صرف ایک ملکی ایئر لائن سروس تھی۔

لیکن گذشتہ 30 برسوں میں متعدد اہم تبدیلیاں آئی ہیں اور ہم نے اس رپورٹ میں ان تبدیلیوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

انڈیا میں ایک ٹی وی چینل

آج آن لائن پلیٹ فارم کا دور ہے۔ اس سے محسوس ہوتا ہے جیسے ساری دنیا موبائل تک ہی محدود ہے۔ ہم لوگ ٹی وی چینلز بھی موبائل پر دیکھنے لگے ہیں۔ فی الوقت انڈیا میں تقریباً 800 ٹی وی چینلز کی نشریات موجود ہیں۔

آج کل کی نئی نسل کی مسلسل چینل بدلنے کی عادت ہے۔ بچپن سے ہی انھوں نے ریموٹ کی مدد سے ٹی وی چینلز کو بدلنا سیکھا ہے۔ 1991 تک انڈیا میں صرف ایک ٹی وی چینل موجود تھا، وہ بھی سرکاری چینل جس کا نام ہے دور درشن تھا، یعنی گذشتہ 30 برسوں میں ایک ٹی وی چینل کا سفر 800 چینلز تک پہنچا ہے۔

انٹرٹیمنٹ کی دنیا میں یہ انقلاب 1991 کی معاشی آزادی کا نتیجہ ہے۔

आर्थिक उदारीकरण

ویسے تو انڈیا میں رنگین ٹی وی نشریات کا آغاز 1982 سے ہو گیا تھا لیکن اس وقت ٹی وی نشریات اور اس کی ٹیکنالوجی پر حکومت کی متعدد پابندیاں تھیں۔ بعض کاروباری گھرانے اخبارات شائع کر رہے تھے لیکن آڈیو نشریات کے لیے حکومت کے آل انڈیا ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے دور درشن ہی واحد متبادل تھے۔

حالانکہ تب دنیا کے کئی ممالک میں سیٹلائٹ کی ٹیکنالوجی متعارف ہو چکی تھی اور کیبل ٹی وی چینلز عروج پر تھے۔ انڈیا میں بھی ٹیکنالوجی پہنچ چکی تھی لیکن حکومت کی جانب سے لائسنس سے متعلق قوانین کی تحت بہت سی پابندیاں نافذ تھیں۔

اس دور میں بعض نامور صحافی اور پروڈیوسر سرکاری ٹی وی چینلز پر اپنے پروگرام پیش کرتے تھے لیکن کسی کے لیے بھی خود اپنا چینل شروع کرنا ایک خواب تھا۔ 1991 میں اقتصادی لبرلائزیشن کے فیصلے کے بعد، ان پابندیوں کو کم کیا گیا اور نجی ٹی وی چینلز کا خواب حقیقت بن گیا۔

یہی وجہ ہے کہ 1991 کی خلیج جنگ کی تصاویر کیبل ٹی وی کے ذریعے لوگوں کے گھروں تک پہنچیں۔ کیبل ٹی وی چینلز نے انڈیا میں غیر ملکی چینلز کی سیٹلائٹ کے ذریعے نشریات کا راستہ کھول دیا۔

چند ہی برسوں میں نجی ٹی وی چینلز کا انقلاب دیکھنے کو ملا۔ سنہ 1991 میں انڈیا میں سٹار نیٹ ورک نے اپنا قدم رکھا۔ اس کے فوراً بعد ہی سبھاش چندرا کے ‘زی نیٹ ورک’ کا آغاز ہوا۔

جب انڈیا میں نجی چینلز نے سیٹلائٹ کے ذریعے نشریات شروع کیں تو کیبل آپریٹرز کے ڈش اینٹینا گاؤں گاؤں تک پہنچ گئے۔ کیبل نیٹ ورک کا جال بچھنا شروع ہو گیا۔

چھوٹی سکرین کے ذریعے انڈیا کے مڈل کلاس کے ڈرائنگ روم میں دنیا بھر کی فلمیں، ٹی وی سیریلز اور رئیلٹی شو پہنچنا شروع ہوگئے۔ ٹی وی دیکھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں پہنچ گئی۔ انڈیا میں بھی پرائیوٹ ٹی وی چینلز کی تعداد بڑھنے لگی معیشت کے بڑھنے کی رفتار مزید تیز ہو گئی۔

اس کے بعد ڈی ٹی ایچ کا دور آیا اور ٹی وی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا۔

نجی بینکوں کی شروعات

موجودہ دور میں جب کوئی شخص اپنا پہلا بینک اکاؤنٹ کھولتا ہے یا ملازمت شروع کرنے کے بعد کارپوریٹ سیلری اکاؤنٹ کھولتا ہے یہ معمول سی بات ہے کہ وہ اپنا اکاؤنٹ کسی نجی بینک میں کھول رہا ہو گا۔

آج انڈیا میں متعدد پرائیوٹ بینک ہیں جن میں ایچ ڈی ایف سی ، آئی سی آئی سی آئی یا ایکسس بینک شامل ہیں۔ 30 برس قبل یہ بینکس انڈیا میں موجود نہیں تھے۔

انڈیا کی کرنسی

1991 کی اقتصادی پالیسیاں آج بھی زیر عمل ہیں

معاشی آزادی کی پالیسی کے عمل میں آنے کے بعد ہی ملک کا بینکنگ سیکٹر بڑھتا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انڈیا میں آج 22 نجی بینک ہیں جبکہ 27 سرکاری بینک ہیں لیکن حقیقت یہ بھی کہ جو بینک اپنے بل بوتے پر کاروبار کرنے میں ناقص ہیں وہ بڑے بینکوں میں ضم ہو رہے ہیں۔

بینکوں کے ذریعہ ملک بھر میں عام عوام یا کمپنیوں کو دیئے گئے تمام قرضوں میں سے 42 فیصد قرض ان نجی بینکوں نے دیئے ہیں۔

انڈیا کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے جولائی 1991 میں جو اقتصادی پالیسیاں پیش کیں وہ آج بھی زیر عمل ہیں۔ حالانکہ ان پالیسیوں میں بعض ترامیم کی گئی ہیں۔ سنہ 1969 میں اندرا گاندھی نے 14 بینکوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا تھا، اس فہرست میں 1980 میں مزید چھ بینک شامل کیے گئے۔

سرکاری بینکوں کے دور میں لیکویڈیٹی اور معاشی مواقع محدود تھے۔ یہ حالات 1991 کے بعد تبدیل ہوئے۔ اس وقت کی حکومت نے ریزرو بینک سے بینکنگ شعبے میں اصلاحات کا خاکہ مانگا۔

اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ کی سربراہی میں اس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کمیٹی نے دسمبر 1991 میں اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی۔ اس رپورٹ کی تمام تجاویز کو قبول نہیں کیا گیا لیکن نجی بینکوں کے لیے اپنے دروازے کھولنے کی تجویز قبول کرلی گئی۔

لیکن حکومت نے جلدی میں بینکنگ کے شعبے کو نہیں کھولا۔ اس میں ریزرو بینک نے اہم کردار ادا کیا۔ نجی بینکوں کو صرف آر بی آئی کے قواعد کے تحت کام کرنا ہے۔ 1993 کے اوائل میں، ریزرو بینک نے نجی بینکوں کو اجازت دی تھی۔

اس وقت انڈیا کے ریزرو بینک کے گورنر سی رنگراجن تھے۔ انھوں نے نجی بینکوں کو کام کرنے کی اجازت دی، لیکن اس کے آغاز کے لیے اہلیت کم از کم 100 کروڑ روپے کے فنڈز رکھی گئی تھی۔

اس سے قبل، 100 کے قریب مالیاتی اداروں نے بینک کھولنے کے لیے درخواست دی تھی۔ غور و فکر کے بعد حکومت نے یو ٹی آئی، آئی ڈی بی آئی اور آئی سی آئی سی آئی کو بینکاری کے شعبے میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ اس کے بعد، ایچ ڈی ایف سی سمیت چھ دوسرے بینکوں کو بھی مختصر وقت میں اجازت دے دی گئی۔

تاہم، اس عرصے میں بہت سے لوگوں نے نجی بینکوں کے آنے کی مخالفت کی۔ بڑے کاروباری گھرانوں کے بینکوں کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے صنعت کار ناراض تھے۔ تاہم بعد میں مالیاتی اداروں کو ترجیح دینے کا دور بھی شروع ہوا۔

دوسرے مرحلے میں 2002-03 میں، نجی بینکوں کو لائسنس دیئے گئے۔ اس دور میں کوٹک مہندرا اور یس بینک کو اجازت ملی۔ 2014 میں جب نجی بینکوں کے تعارف کا تیسرا مرحلہ آیا 25 درخواست دہندگان میں سے صرف دو ہی منظور ہوئے۔

نئے بینکوں کے تعارف نے انڈیا کی معیشت کو مزید ادارہ جاتی بنا دیا اور آبادی کے ایک بڑے حصے کو قومی دھارے میں جانے میں مدد فراہم کی۔ ابتدائی دور میں صارفین کو سرکاری بینکوں کی نسبت نجی بینکوں میں بہتر سہولیات میسر آئیں، لیکن فی الحال سہولیات کی لاگت صارفین کی جیب سے وصول کی جا رہی ہے۔

نجی بینکوں کی آمد کے ساتھ ہی سرکاری شعبے کے بینکوں میں کام کرنے کی رفتار میں بھی اضافہ ہوا۔ لیکن 30 سال پہلے شاید ہی کسی نے اے ٹی ایم مراکز اور موبائل سے بینکنگ کے بارے میں سنا یا تصور کیا ہو گا۔

एसटीडी

مواصلاتی انقلاب

1991 سے قبل انڈین گھروں میں ٹیلی فون کا ہونا ایک بڑی بات یا دولت مند ہونے کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ آج کی نئی نسل کے لیے یہ تصور کرنا بھی ناممکن ہے کہ لوگ ایک فون کال کرنے یا فون سننے کے لیے ایک دوسرے کے گھروں میں گھنٹوں انتظار کیا کرتے تھے اور ٹیلی فون بوتھ پر قطار لگاتے تھے۔

آج موبائل کے ذریعے آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں بات کر سکتے ہیں اور لینڈ لائن ٹیلیفون پر ہمارا انحصار مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ 1990 کے بعد پیدا ہونے والے شاید ہی کسی بچے نے لینڈ لائن فون کا استعمال کیا ہو گا۔

ویسے میں انڈیا میں مواصلاتی شعبے میں انقلاب کا آغاز 1991 میں نہیں ہوا تھا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس شعبے میں ترقی ہونا تبھی شروع ہو گئی تھی۔

ٹیلی فون 1980 کے دہائی میں ہی حققیت بننا شروع ہو گئے تھے، 1984 کے بعد دور دراز کے علاقوں میں بھی ٹیلیفون بوتھ کھلنا شروع ہوئے تھے۔ اس شعبے میں نجی اداروں کو بھی شامل کیا گیا۔ ٹیلی کمیونیکیشن کے سرکاری ادارے ایم ٹی این ایل اور وی ایس این ایل تشکیل دیے گئے۔ لیکن 1991 میں لبرلائزیش کے پوری تصویر ہی بدل دی۔

یہ بھی پڑھیے

نرسمہا راؤ کا وہ تاریخی فیصلہ جس نے انڈیا کو ایک معاشی قوت میں بدل دیا

نرسمہا راؤ کے وہ اقدامات جنھوں نے انڈیا کے معاشی مستقبل کا رخ طے کیا

نریندر مودی کے سات سالہ دور حکومت میں انڈین معیشت نے اپنی چمک دمک کیسے کھوئی

کیا 2024 تک انڈیا پانچ کھرب کی معیشت والا ملک بن سکے گا؟

نئی معاشی پالیسیوں کے ساتھ ہی ملک میں ٹیلی کام سیکٹر کے آلات بھی بننے شروع ہو گئے۔ سنہ 1992 میں اس کی متعدد سروسز کو پرائیوٹ کمپنیوں کے لیے کھول دیا گیا۔ اس طرح نجی شعبے نے اس سیکٹر میں سرمایہ کاری کی اور پورے ملک میں موبائل صارفین کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ بیرونی کمپنیاں بھی انڈیا میں سرمایہ کاری کرنے لگیں۔

1994 میں نئی اقتصادی پالیسیوں کے تحت ملک کی پہلی قومی ٹیلی کمیونیکیشن کی پالیسی کا اعلان کیا گیا اور اس کے بعد نجی کاروباری اداروں کی شرکت میں اضافہ ہوا۔ 1997 میں ‘ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی آف انڈیا (ٹرائی) وجود میں آئی۔

تب تک ٹیکنالوجی بھی بہت بہتر ہونے لگی تھی۔ انڈیا میں موبائل فون کا انقلاب آنا شروع ہو گیا۔ اس دوران 1999 میں ٹیلی کمیونیکشن کی دوسری پالیسی متعارف کرائی گئی جس کے بعد اس شعبے میں تیسرے مرحلے کی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔

ائیر انڈیا

1991 سے پہلے انڈیا میں صرف ایک ائیر لائن ہوا کرتی تھی۔

فضائی سروسز میں توسیع

1991 کی لبرلائزیشن پالیسیوں کے تحت شہری ہوا بازی کا شعبہ بھی بہت پروان چڑھا۔ انڈین مارکیٹ میں اچانک نجی ایئر لائنز کا سیلاب آ گیا، لیکن گزشتہ چند برسوں سے ان میں سے بعض ایئر لائنز خستہ حالت میں ہیں۔

ایئر کارپوریشن ایکٹ، 1953 کے تحت ایک وقت ایسا تھا کہ انڈین فضائی شعبے میں صرف سرکاری ائیر لائن کا غلبہ تھا۔ 1991 میں حکومت نے شہری ہوا بازی کے شعبے کو بھی نجی کمپینوں کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے 1994 میں ایئر کارپوریشن ایکٹ میں ترمیم کی گئی۔

ائیر انڈیا

انڈیا میں آج کے دور میں متعدد پرائیوٹ ائیرلائنز ہیں

اوپن سکائی پالیسی کی وجہ سے جلد ہی بہت ساری ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری والی ائیر لائنز کمپنیاں آ گئیں۔ ‘جیٹ ایئرویز’ اور سہارا ائیر لائنز دو انڈین کمپنیاں تھیں جنھوں نے ابتدا میں اس شعبے میں اپنی قسمت آزمائی۔ تاہم اب یہ دونوں کمپنیاں بند ہو چکی ہیں۔

شروعاتی دور میں نجی کمپنیوں کے ٹکٹ بہت مہنگے تھے لحاظہ ایک لمبے وقت تک انڈین ایئر لائن کا غلبہ رہا۔ اس کے علاوہ ‘ایسٹ ویسٹ‘ ائیر لائن اور ’ودوت‘ جیسی نجی کمپنیوں کو مختلف وجوہات کی وجہ سے شروعات میں ہی روک دیا گیا۔

لبرلائزیشن کی وجہ سے انڈیا کے مڈل کلاس کا نیا طبقہ تیار ہوا۔ یہ وہ طبقہ تھا جو ریل کے ذریعے سفر کرنے کے مقابلے میں ہوائی سفر کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہے اور اسی طبقے کی وجہ سے ملک میں داخلی ہوائی مسافروں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ حکومت نے اس شعبے میں 49 فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری اور 100 فیصد این آر آئی سرمایہ کاری کی بھی اجازت دی۔

2003 میں کفائتی ائیرلائن شروع ہوئیں۔ اسی برس ائیر دکن نے اکانومی سروس شروع کی۔ اس کے بعد سپائس جیٹ، انڈیگو، گو ائیر، کنگ فشر جیسی کمپنیوں نے سستے ہوائی سفر کی پیش کش کی۔ انڈیا کے ہوائی اڈوں پر لوگوں کا ہجوم لگنا شروع ہو گیا۔

1991 میں انڈین ائیرلائن کے ذریعے تقریباً ایک کروڑ سات لاکھ مسافروں نے سفر کیا تھا 2017 تک یہ تعداد 14 کروڑ ہو گئی تھی۔

سپائس جیٹ، کنگ فشر اور سہارا ایئر لائن جیسی کمپنیاں بند ہو چکی ہیں۔ ایئر انڈیا فروخت ہونے کے نہج پر ہے لیکن لبرلائزیشن کے بعد اس شعبے میں جو انقلابی تبدیلی آئی تھی اس نے ایک عام انڈین کو بھی زندگی میں کم از کم ایک بار ہوائی سفر کرنے کا خواب دیکھنے کی اجازت ضرور دی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp