سمیع چودھری کا کالم: یہ ٹرافی صرف ’ایک فیصلہ‘ دور تھی

سمیع چودھری - کرکٹ تجزیہ کار


کرکٹ

بسا اوقات کرکٹ کپتان (بالخصوص پاکستانی کپتان) ایسے عجیب عجیب فیصلے کر جاتے ہیں کہ عقل اور منطق بھی دنگ رہ جاتے ہیں۔ اور کبھی تو ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ قسمت یوں یاوری کرتی ہے کہ لوگ نتیجے کی خوشی میں فیصلہ بھول جاتے ہیں۔

ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ 2009 کے سیمی فائنل میں پاکستان کے لیے سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا مگر کپتان یونس خان نے اچانک پارٹ ٹائم بولر فواد عالم کو اوور دے دیا۔ اس ایک اوور میں سترہ رنز پڑ گئے جو خاصے مہنگے ثابت ہو سکتے تھے اگر سکور بورڈ پر ہدف ایسا تگڑا نہ ہوتا۔

مگر اکثر اوقات ایسے فیصلے کپتانوں کے گلے بھی پڑ جاتے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں ہی ایک ٹیسٹ میچ میں پاکستان چوتھی اننگز کی بولنگ کر رہا تھا۔ سعید اجمل کی چال بازیاں کسی بلے باز کے پلے نہ پڑ رہی تھیں۔ محمد حفیظ بولنگ کرنا چاہتے تھے مگر مصباح الحق نے فیصلہ برعکس کیا اور پاکستان میچ چار وکٹوں سے ہار گیا۔

یہاں بھی کچھ ایسا ہی قضیہ تھا۔ وکٹ پہ پیس بالکل بھی مناسب نہ تھی اور پہلے پاور پلے سے سپنرز ہی میچ کی رفتار طے کر رہے تھے۔ عادل رشید نے پاکستان کو ابتدائی نقصان پہنچایا اور پھر بیچ کے اوورز میں معین علی ناقابلِ شکست ٹھہرے۔

بابر اعظم نے بھی وکٹ کے حساب سے تین سپنرز کھلائے۔ اس پہ مستزاد محمد حفیظ کی خدمات گویا ایک بونس سا تھا۔ اگر ایسی سست وکٹ پہ کپتان کو سپن کے سولہ اوورز میسر ہوں تو اسے اور کیا چاہئے؟

انگلینڈ کرکٹ ٹیم

بھلے سکور کارڈ کا مجموعہ حقیر تھا مگر چار ایسے سپنرز کی موجودگی میں یہ یقیناً قابلِ دفاع تھا۔

پچھلے دونوں میچز میں جس طرح کی پچز دیکھنے کو ملیں، یہ ان سے یکسر مختلف تھی۔ گیند وکٹ میں رک رہا تھا۔ کچھ گیندیں کم باؤنس کرتیں تو کچھ زیادہ۔ بیٹنگ کے لیے یہ ایسی دقیق کنڈیشنز تھیں کہ محمد رضوان پورے بیس اوورز کھیل جانے کے باوجود کہیں اپنی من مانی نہ کر پائے۔

بابر اعظم کو صرف یہ طے کرنا تھا کہ سپن کے سولہ اوورز کے سوا باقی چار اوورز کو پیسرز میں کیسے تقسیم کرنا ہے۔ وکٹ میں ٹرن تو شروع سے ہی تھا مگر پرانے گیند کے سامنے ڈیتھ اوورز میں یہاں پاور ہٹنگ کا سوچنا بھی محال تھا۔ یہ بے بسی ہمیں پچھلے دونوں میچز کے بہترین بلے باز لیونگ سٹون کی مختصر اننگز میں واضح نظر آئی۔

عقدہ یہ ہے کہ جب ایک طرف سے شاداب خان اور دوسرے کنارے سے محمد حفیظ نے انگلش بیٹنگ کو بالکل باندھ رکھا تھا تو اچانک بابر اعظم کے دل میں پیس سے اٹیک کرنے کی خواہش کیوں جاگی؟ معمہ یہ بھی ہے کہ اٹھارہویں اوور میں پیس کا انجام دیکھنے کے باوجود بابر اعظم حسن علی کی بجائے شاداب خان کی طرف کیوں نہ گئے؟

یہ بھی پڑھیے

پاکستان بمقابلہ انگلینڈ: ’میرے خیال میں جیسن روئے کسی اور ٹریک پر بیٹنگ کر رہے تھے‘

کیا بابر اعظم کی ٹیم اپنی شناخت بحال کر پائے گی؟

’مصباح اور وسیم اکرم عوام سے مکی آرتھر کی برطرفی پر معافی مانگیں‘

سمیع چوہدری کا کالم: ’یہ شکست نہیں، یہ نری حماقت ہے‘

کرکٹ

اس میں دو رائے نہیں کہ حسن علی ڈیتھ اوورز کے بہترین مشاق بولر ہیں۔ ان کی جیب میں سلو گیندوں، یارکرز اور کٹرز سمیت کئی گُر موجود ہیں مگر یہ وکٹ صرف انہی کے لیے نہیں، کسی بھی پیسر کے لیے سازگار نہ تھی۔ آخری اوور پھینکنے کے لیے یقیناً بابر کو انھیں ہی چننا پڑتا۔

مگر اٹھارہویں اوور میں شاداب خان کو گیند نہ تھمانا بابر اعظم کی وہ مہین سی غلطی تھی جس نے فتح پاکستان کے منھ سے چھین لی۔ اگر بابر اعظم وہ اوور سپن کو دے دیتے تو یہ ساری کہانی مختلف ثابت ہوتی۔

پاکستان یہ میچ چار پانچ رنز سے جیت سکتا تھا۔ محمد رضوان یا محمد حفیظ میں سے کوئی ایک پلئیر آف میچ کہلاتا اور سیریز کی ٹرافی بابر اعظم اور ان کے ساتھی لے جاتے۔ مگر یہ، بظاہر معمولی سا فیصلہ ایک یقینی ٹرافی پاکستان کے منھ سے چھین کر لے گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp