ملالہ کی تصویر والی کتاب (مکمل کالم)


’ہدایت نامہ طلبا‘ شفیق الرحمن کا ایک شاہکار مضمون ہے، وہ اس میں نصابی کتابوں کی مضحکہ خیز باتوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”لوگ عموماً چراگاہوں میں بھیڑ بکریاں پال کر گزارا کرتے ہیں یا کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ جغرافیے (کی کتابوں ) میں یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ دفتروں اور کارخانوں میں آدمی کام نہیں کرتے۔“ پہلی مرتبہ جب میں نے یہ مضمون پڑھا تو مجھے اپنے اسکول کا دور یاد آ گیا، اس زمانے میں ہم نے بھی نصابی کتابوں سے یہی کچھ اخذ کیا تھا کہ لوگ یا تو گاؤں میں کبڈی کھیلتے ہیں یا پھر کھیت میں ہل چلاتے ہیں، کوئی ٹی وی پر ڈرامہ دیکھتا ہے اور نہ شہر میں نوکری کرتا ہے۔ گو کہ آج کل کی نصابی کتابیں کچھ مختلف ہو گئی ہیں اور ان میں شہری زندگی کا ذکر مل جاتا ہے، تاہم ایک بات ان کتابوں میں عجیب ہے کہ جہاں بھی کسی لڑکی یا عورت کی شبیہ بنائی جاتی ہے وہاں اس کے سر پر دوپٹہ اوڑھا دیا جاتا ہے۔ گویا بچوں کو غیر محسوس طریقے سے یہ بات ذہن نشین کروائی جاتی ہے کہ سلجھی ہوئی اور با وقار خاتون ہمیشہ سر پر دوپٹہ رکھے گی۔

خیر، یہ ایک علیحدہ بحث طلب بات ہے کہ کیا دوپٹہ شرافت کا معیار ہے یا نہیں، اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں عورتیں بغیر دوپٹے کے باہر نہیں نکلتیں، کیا یہاں عورتیں ٹراؤزر اور شرٹ میں نہیں گھومتیں، کیا گیارہ کروڑ میں سے دو تین کروڑ عورتیں بھی ایسی نہیں جو سر پر دوپٹہ نہیں لیتیں، کیا یہ سب با وقار عورتیں نہیں؟ اور اگر ایسا ہے تو پھر ہماری نصابی کتابوں سے یہ پاکستانی عورت کیوں غائب ہے؟ جس طرح بھارتی فلموں میں جب کوئی پاکستانی علاقہ دکھایا جاتا ہے تو یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہر مرد کے سر پر ٹوپی، چہرے پر داڑھی اور کندھے پر رومال ہو گا اور وہ بات بات پر ’جناب‘ کہتا پھرے گا اسی طرح ہماری درسی کتب میں بھی یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ شرافت کا معیار دوپٹہ ہے۔

عورت کے لیے شرافت کا یہ معیار پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے طے کیا ہے۔ یہ وہی ٹیکسٹ بک بورڈ ہے جس نے پچھلے دنوں پولیس کی معیت میں شہر کی مختلف دکانوں پر چھاپے مارے اور وہاں سے ساتویں جماعت کے لیے شائع شدہ وہ کتاب ضبط کر لی جس میں ملالہ یوسفزئی کی تصویر تھی۔ چھاپے کے دوران پولیس اور بورڈ کے اہلکاروں نے صرف ’ملالہ والی کتاب‘ مانگی اور اس کی تمام کاپیاں اٹھا لیں۔ اس کے بعد ٹیکسٹ بک بورڈ نے اخبارات کو ایک حکم نامہ دکھایا جس میں لکھا تھا کہ چونکہ کتاب شائع کرنے والے غیر ملکی اشاعتی ادارے نے اجازت نامہ (این او سی ) نہیں لیا تھا اس لیے قانون کے مطابق کتاب ضبط کر لی گئی۔ بظاہر اس پوری بات سے یوں لگتا ہے جیسے اس ملک میں قانون نام کی ایک چیز موجود ہے جو نیوٹن کے تیسرے اصول کے مطابق کسی بھی خلاف ضابطہ عمل کے رد عمل میں خود بخود حرکت میں آ جاتی ہے۔ تاہم یہاں تین سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا، این او سی دینا بورڈ کا کام ہے، درجنوں کے حساب سے کتابیں بورڈ کی

کمیٹیوں کے پاس جمع ہیں جن کا نہ این او سی جاری کیا جاتا ہے اور نہ انہیں کوئی جواب دیا جاتا ہے کہ آپ کی کتاب پر فلاں فلاں اعتراضات ہیں، نتیجتاً ناشران بغیر این او سی کے وہ کتب چھاپ دیتے ہیں، بورڈ اس پر کوئی ایکشن نہیں لیتا، کیونکہ بورڈ میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ وہ ہر کتاب کو تین مرتبہ مختلف کمیٹیوں کی چھلنی سے گزارے اور اس کے بعد مکمل پڑتال کر کے این او سی جاری کرے۔ اس معاملے میں بھی اشاعتی ادارے کی این او سی کی درخواست بورڈ کے پاس 2019 سے جمع تھی مگر بورڈ کے حکام دھنیا پی کر سوئے رہے اور اس کے بعد یکایک جب کسی نے انہیں دو ہتڑ مار کر کہا کہ ملالہ کی تصویر والی کتابیں ضبط کرو تو انہوں حکم کی تعمیل کی۔ یہی وجہ ہے کہ چھاپہ مار ٹیم کے اہلکاروں نے دکانوں پر جا کر کسی سے این او سی طلب نہیں کیا بلکہ سیدھا ملالہ کی تصویر والی کتاب مانگی اور بحق سرکار ضبط کرلی۔

دوسرا سوال، ایک لمحے کے لیے فرض کر لیں کہ اشاعتی ادارے نے این او سی نہیں لیا تو اس کا یہ مطلب کیسے ہوا کہ یہ کتاب دکانوں سے ہی اٹھا لی جائے، آپ قانوناً اسکولوں کو خط لکھ سکتے تھے کہ یہ کتاب اجازت کے بغیر شائع ہوئی ہے اس لیے بچوں کو نہ پڑھائی جائے۔ ٹیکسٹ بک بورڈ عام شہری کو کس قانون کی رو یہ کتاب پڑھنے سے روک سکتا ہے؟ بورڈ نے کس ضابطے کے تحت شہر کی تمام دکانوں سے اس کتاب کی کاپیاں اٹھائیں؟ تیسرا سوال، بورڈ کے پاس این او سی کی درخواست موجود ہے، کیا ایک ہفتے کے اندر اندر بورڈ اس درخواست کو نمٹا کر بتا دے گا کہ اس کتاب میں کون سا مواد ایسا ہے جو نا قابل اشاعت ہے جس کی وجہ سے این او سی جاری نہیں کیا گیا؟ نہیں ایسا نہیں ہو گا۔ کیونکہ کتاب کی ضبطی کی وجہ این او سی نہیں وجہ ملالہ کی تصویر ہے، اگر اس کتاب میں ملالہ کی تصویر نہ ہوتی تو کسی کے کان پر جوں بھی نہ رینگتی اور بورڈ کے خود ساختہ راست باز اہلکار یوں حرکت میں نہ آتے۔

پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کا این او سی جاری کرنے کا طریقہ کار بھی نہایت پیچیدہ ہے، تین کمیٹیاں ہیں جو مختلف مراحل پر کتابوں کی پڑتال کرتی ہیں اور ان میں سے ایک متحدہ علما بورڈ بھی ہے۔ متحدہ علما بورڈ کا کام درسی کتب میں صرف یہ دیکھنا ہے کہ آیا کوئی مواد دین کے خلاف تو نہیں۔ یہاں بھی دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اول، یہ دائرہ کہاں کھینچا جائے گا کہ کوئی چیز دین کے خلاف ہے یا نہیں، کیونکہ اگر حیاتیات کی کتابوں میں کلوننگ یا زندگی کے آغاز کے بارے میں سائنسی تحقیق پڑھائی جائے گی تو ممکن ہے کہ وہ مذہبی تعبیر کے عین مطابق نہ ہو بالکل ویسے جیسے گلیلیو نے کہا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو چرچ نے اسے خلاف دین کہہ کر مقدمہ چلا دیا تھا۔ دوسرا سوال، کیا یہ حق صرف دائیں بازو کے ایک مخصوص طبقے کو ہی حاصل ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ ان کی کس بات سے دل آزاری ہوتی ہے یا معاشرے کے دیگر طبقات بھی جان کی امان پا کر اپنی گزارشات پیش کر سکتے ہیں؟ اور اگر پیش کر سکتے ہیں تو کیا کوئی کمیٹی ایسے غیر جانبدار لوگوں کی بھی موجود ہے جو اس زاویے سے درسی کتب کی پڑتال کر کے بتائے کہ ان میں کون سا مواد انتہا پسندی کا سبب بن رہا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو اب تک ایسی کتنی کتابیں بورڈ نے چھاپے مار کر دکانوں سے اٹھائی ہیں؟

پچھلے دنوں اس بات پر بھی خاصا واویلا ہوا کہ نصابی کتابوں کی پڑتال کرنے والی کمیٹی کے اجلاس میں کسی نے نیوٹن کو عورت سمجھ کر کہا کہ اس کی تصویر کو دوپٹے میں دکھایا جائے اور ایک دوسرے اجلاس میں متحدہ علما بورڈ نے کہا کہ بیالوجی کی کتابوں سے انسانی جسم کی تصاویر نکال دی جائیں۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ درسی کتب کی پڑتال کے وقت ایسی کوئی بات نہیں ہوئی، نہ کوئی تحریری حکم جاری کیا گیا اور نہ ہی کسی فائل پر یہ بات لکھی گئی۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ کمیٹی کے اجلاس میں درسی کتب کے ناشران بھی موجود ہوتے ہیں اور انہیں زبانی کہا جاتا ہے کہ اپنی کتاب سے فلاں فلاں چیزیں حذف کر دیں، تحریری حکم نہیں دیا جاتا۔ مجبوراً ناشران کو وہ باتیں ماننی پڑتی ہیں اور اجلاس کی کارروائی انہی لوگوں کے ذریعے اخبارات میں رپورٹ ہوتی ہے۔ بیالوجی سے انسانی جسم کی تصاویر حذف کرنے والے اجلاس کی کارروائی ’بک پبلشر ایسوسی ایشن‘ کے صدر کے حوالے سے ایک موقر انگریزی روزنامے میں شائع ہوئی اور آج کی تاریخ تک اس خبر کی تردید کی زحمت کسی متعلقہ فرد یا ادارے نے نہیں کی۔

رہی بات ملالہ کی تو میری رائے میں ملالہ کوئی فلاسفر یا دانشور نہیں اور نہ ہی اس نے کوئی ایسا نظریہ پیش کیا ہے جس کی وجہ سے اسے جینئس مان لیا جائے۔ ملالہ ایک استعارہ ہے انتہا پسندی کے خلاف۔ جس طرح ہماری پاک فوج میں میجر عزیز بھٹی شہید سے کہیں زیادہ قابل افسران ہوں گے مگر عزیز بھٹی بہادری کا ایک سمبل بن گئے، بالکل اسی طرح لاکھوں بچیاں ملالہ سے زیادہ ذہین ہوں گی مگر ملالہ انتہا پسندی کے خلاف ایک سمبل بن گئی۔ مسئلہ یہ نہیں کہ کوئی ملالہ کو ہیرو مانتا ہے یا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ آپ انتہا پسندوں کے ساتھ ہیں یا ان کے مخالف ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments