عمران خان کا ’فلمی ڈاکٹرائن‘ کیا ہے اور کیا پاکستانی فلمساز وزیر اعظم کے وژن کے مطابق فلمیں بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

طاہر سرور میر - صحافی، لاہور


عمران خان اور ازبکستان کے صدر

وزیر اعظم عمران خان اور ازبکستان کے صدر

گذشتہ ہفتے وزیر اعظم عمران خان نے تاشقند میں ازبکستان کے صدر کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ دونوں ملک مشترکہ طور پر ظہیر الدین بابر کی زندگی پر فلم بنائیں گے جس نے برصغیر میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی اور اُن کی نسل نے اگلے تین سو برس سے زائد عرصہ تک اس خطے پر حکمرانی کی۔

وزیر اعظم نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مذکورہ فلم کے ذریعے ازبکستان اور پاکستان کی نوجوان نسل کو یہ باور کروایا جا سکے گا کہ کس طرح دونوں قومیں ’صدیوں کے رشتے‘ میں بندھی ہوئی ہیں۔

عمران خان نے اس ایونٹ کو موقع غنیمت جانتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ مرزا غالب، اقبال اور امام بخاری کی زندگیوں پر بھی فلمیں بنائی جائیں گی۔

ان اعلانات سے چند روز قبل آئی ایس پی آر کے زیر اہتمام (NASFF) نیشنل امیچور شاٹ فلم فیسٹیول کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ فلم والوں کو اصل موضوعات پر فلمیں بنانا چاہییں جو ہمارے اپنے معاشرے کی عکاس ہوں لیکن بدقسمتی سے انھوں نے ہالی وڈ اور بالی وڈ کی نقالی شروع کر دی جس سے فحاشی کو فروغ ملا اور انڈسٹری تباہ ہو گئی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے علم ہے کہ لوگ مقامی فلمیں نہیں دیکھتے اور ان کے بقول اس کی وجہ یہ ہے کہ ان فلموں میں اُن کمرشل ٹرینڈز کو شامل نہیں کیا جاتا جنھیں لوگ پسند کرتے ہیں۔

انھوں نے نوجوان فلم میکرز کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی سوچ سے فلم بنائیں اور فلاپ ہونے کا خوف دل سے نکال دیں کیونکہ ’میں نے اس ٹیم کو کبھی جیتتے نہیں دیکھا جو شکست کے خوف سے کھیلتی ہے۔‘

وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ’میں نے ترکی کے صدر طیب اردوغان سے درخواست کی ان کی مہربانی سے ’ارطغرل‘ جیسا ڈرامہ سیریل پاکستان میں نمائش کے لیے پیش کیا جا سکا۔ مذکورہ سیریل اگرچہ ترکی کی ثقافت پر مبنی ہے لیکن اسے یہاں بہت پذیرائی ملی۔

اس سے قبل وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی ریٹائرڈ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم نے انھیں یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ پاکستانی ڈرامہ اور فلم کو فحاشی و عریانی سے پاک کیا جائِ اور ترکی کی طرح پاکستان میں بھی بامقصد، اسلامی ہیروز اور اسلامی تاریخ پر مبنی فلمیں اور ڈرامے بنائے جائیں جس سے پاکستانی قوم کی نشاۃ ثانیہ ابھر کر دنیا کے سامنے آ سکے۔

وزیر اعظم کے فلمی ڈاکٹرائن‘

وزیر اعظم عمران خان کے ان بیانات کی روشنی میں ہم نے اسلامی تاریخ کے ہیروز اور پاکستان کی نشاۃ ثانیہ پر مشتمل وزیر اعظم عمران خان کی اس ’فلمی ڈاکٹرائن‘ کے حوالے سے فلم انڈسٹری سے منسلک سٹیک ہولڈرز سے بات کی۔

ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ وہ وزیر اعظم کے فلمی ڈاکٹرائن سے کیا مراد لیتے ہیں؟ کیا ایسی فلموں کو قبول عام ملے گا؟ کیا ایسی فلمیں عملی طور پر بنائی جا سکتی ہیں اور کیا یہ منافع بخش ثابت ہوں گی؟

پروڈیوسرز ایسویسی ایشن کے سابق چیئرمین امجد رشید شیخ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’وزیر اعظم عمران خان کا ڈاکٹرائن ہم فلم والوں کو کیا سمجھ آئے گا کیونکہ وہ گذشتہ دو سال سے ہمیں ملاقات کا وقت ہی نہیں دے رہے۔‘

’فلم والوں کو وزیر اعظم کے اقوال زریں اخبارات اور خبر ناموں کے ذریعے سننے کو ملتے ہیں،اب سُنی سُنائی باتوں سے کیا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے؟‘

امجد رشید کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے فلمی ڈاکٹرائن کی ترویج کے لیے کئی کہنہ مشق مشیر و وزیر ہیں لیکن عملی طور پر تین برسوں میں تاحال حکومتی کلچرل پالیسی کا اعلان ہی نہیں ہو سکا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ وزیر اعظم کے ذہن میں ترکی ارطغرل ماڈل پر مبنی فلمیں ہیں جنھیں فلم کی اصطلاح میں ’کاسٹیوم فلم‘ کہا جاتا ہے۔

’یہ ہیوی بجٹ فلمیں ہوتی ہیں جنھیں جدید تکنیکی سہولیات اور پیشہ ور ہنرمندوں کی مشترکہ کاوشوں سے بنانا ممکن ہوتا ہے۔‘

امجد رشید کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے پہلے ترکی کے اشتراک سے فلمیں اور ٹی وی سیریلز بنانے کی بات تھی اب ازبکستان کے ساتھ فلم بنانے کا ارادہ دہرایا ہے۔

نشاۃ ثانیہ پر فلمیں بنانے سے پہلےموجود عہد کو بہتر کرنا ہوگا

سینیئر صحافی اور فلم نقاد سعید قاضی کے مطابق نشاۃ ثانیہ پر فلم بنانے سے پہلے نشاۃ ثانیہ پیدا کرنی چاہیے۔ ہمیں معلوم ہے کہ وزیر اعظم مسلم اُمت کی عظمت رفتہ کا پہیہ الٹا گھمانا چاہتے ہیں لیکن ماضی میں زندہ رہنا ناممکن ہے۔ ہمیں اپنا موجود عہد بہتر کرنا ہو گا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ دنیا میں فلم انڈسٹریز بھی اُن قوموں کی ہی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں جن کی معیشت بہتر ہوتی ہے۔

’ہم دنیا میں قرضہ مانگنے والی قوم کے طور پر متعارف ہیں، دوسری طرف ہمارا عظمت رفتہ کے خبط کا درجہ حرارت آج کی سپر پاورز سے بھی زیادہ ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کوئی واضح کلچرل پالیسی کا اعلان نہیں کیا جا سکا۔ ہمارے ہاں بین الاقوامی معیار کی فلم کیسے بنے گی؟‘

سعید قاضی کا کہنا ہے کہ ’آج بھی ہم فلم کو بطور میڈیم اہم تسلیم نہیں کر رہے۔ وزیر اعظم ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں اور ظہیر الدین بابر اور غالب پر فلم بنانے کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ یہ دونوں کام اکٹھے کیسے ہوں گے؟‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ فلم اور فلم والے ریاستوں کے تابع ہو کر پراپیگنڈا فلمیں بنا سکتے ہیں لیکن امریکہ میں میکارتھی ازم کے ستائے ہوئے فنکاروں (جن پر شک تھا کہ وہ کیمونیزم کے لیے ہمددردی رکھتے ہیں) اور روسی انقلاب سے بھاگے ہوئے آرٹسٹوں کی کہانی اور سکرین پلے مختلف نہیں تھا۔ دونوں نظاموں کے باغی فنکاروں نے سرمایہ دارانہ اور کیمونیزم ریاستوں کی پراپیگنڈا فلمیں بنانے سے انکار کر کے انتہائی مشکلات کا سامنا کیا تھا۔‘

باہو بلیجیسی جناتی فلمیں دکھائی جارہی تھیں

فلم

ڈرامہ نگار، مصنف و ہدایتکار خلیل الرحمان قمر اس بارے میں کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کے فلمی ڈاکٹرائن سے قومی حساسیت اور مثبت سوچ سامنے آتی ہے۔ ہمارے ہاں فلم اور تفریح کے نام پر قوم بھٹکی ہوئی تھی اب اگر انڈین فلموں پر پابندی ہے تو قائم رہنی چاہیے۔

’باہو بلی کے نام پر جناتی کلچر پروموٹ کیا جا رہا تھا۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جھوٹی تاریخ پڑھائی گئی اور جو لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مغرب میں گئے وہ وہاں کا نصاب اور تہذیب دونوں ساتھ لائے۔‘

خلیل الرحمان قمر کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی حیثیت ’فادر آف دی نیشن‘ کی ہوتی ہے۔ وزیرا عظم اگر کہہ رہے ہیں کہ ظہیر الدین بابر، علامہ اقبال، امام بخاری اور غالب کی زندگیوں کو سیلو لائیڈ پر منتقل کر کے نوجوان نسل کو دکھایا جائے تو بڑا صائب عمل ہے۔

’ظہیرالدین بابر نے جس روز شراب کے گھڑے توڑ کر ابراہیم لودھی کو شکست دی تھی اس دن وہ ہیرو بن گیا تھا۔ مرزا غالب ہماری تاریخ اور ثقافت کا ادبی اور جمالیاتی حصہ ہیں ان کی زندگی کو سیلولائیڈ پر منتقل کرتے ہوئے ان کے وہ پہلو بھی دکھائے جائیں جنھیں اخلاقی کمزوری قرار دیا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ہیروز کی غلطیاں دکھانے سے وہ انسان بھی دکھائی دیں گے، اس طرح قوم کی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی سوچ بھی بدلی جا سکتی ہے۔

فلمی ڈاکٹرائناور خاص معاشرہ؟

چار دہائی قبل بننے والی فلم مولا جٹ کا پوسٹر

خلیل الرحمان قمر کا کہنا ہے کہ ریاست کا کام سنیما اور فلم انڈسٹری میں دخل اندازی نہیں ہوتا، یہاں آج تک ریاست نے ایسا کب کیا ہے؟

اس پر انھیں یاد دلایا گیا کہ جنرل ضیا الحق کے دور آمریت میں فلم انڈسٹری کے معاملات میں اندھا دھند ریاستی مداخلت کی گئی بلکہ پاکستانی فلم ٹریڈ کی تالا بندی کر دی گئی اور دوسری جانب ذاتی طور پر جنرل ضیا الحق کے ہاں انڈین اداکار شترو گھن سنہا منھ بولے بیٹے کی حیثیت سے تشریف لاتے رہے۔

جس پر خلیل الرحمان قمر نے کہا کہ ’ضیاالحق کے دور کو تو تاریخ سے ہی حذف کر دینا چاہیے کیونکہ اگر میں اور آپ اس بحث میں الجھے رہے تو ہمارے درمیان یہ دوستانہ ڈائیلاگ بھی ’پارلیمانی آداب‘ کی نذر ہو جائے گا۔ ضیاالحق کے دور کو تاریخ کا بلیک ہول سمجھ کر اس پر سے لانگ جمپ لگانی چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ساری دنیا میں فلم پرائیویٹ سیکٹر میں بنائی جاتی ہے لیکن ریاست کا ایک پدرانہ کردار ہوتا ہے اسے ادا کرتے رہنا چاہیے۔ کیا آپ وزیر اعظم کے فلمی ڈاکٹرائن کو عملی جامہ پہنائیں گے؟ اس پر خلیل الرحمان قمر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک و قوم اور دھرتی کے کسی کام آ سکیں تو اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھیں گے۔

ہمارے پاس شاہ رخ اور سلمان خان جیسے سٹارز نہیں

فواد خان

ایگزیبیٹرز ایسویسی ایشن کے چیئرمین زوریز لاشاری اس بارے میں کہتے ہیں کہ ہمارے پاس شاہ رخ خان، عامر خان اور سلمان خان جیسے میگا سٹارز نہیں ہیں جن کی فلمیں دیکھنے مرد، عورتیں اور بچے بوڑھے گھروں سے سنیما گھر تک آئیں۔

ان سے جب فواد خان اور ہمایوں سعید جیسے اداکاروں کی مقبولیت کے بارے میں پوچھا گیا کہ تو ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ آرٹسٹ بھی فلم بینوں میں مقبول ہیں لیکن ایک سال میں 52 جمعے ہوتے ہیں اور ہمیں سنیماؤں میں نمائش کے لیے بھی 52 فلمیں چاہیے ہوتی ہیں۔

’کووڈ 19 کی وبا سے پہلے پاکستان سال بھر میں 16 سے 17 فلمیں بنا رہا تھا باقی 35 فلموں کے لیے بالی وڈ اور ہالی وڈ کی فلموں پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔‘

زوریز لاشاری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انڈین فلموں کے بغیر سنیما آباد کرنا ایک خواب ہے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ اگر حکومت کی طرف سے ایئر کنڈیشنڈ چلانے کے لیے بجلی پر حکومتی سبسڈی مل جائے تو یہ کام احسن انداز سے ممکن ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ شکوہ اور حکومتی عدم تعاون کا واویلا کرنا فلم انڈسٹری کی روایت ہے۔

’وزیر اعظم نے فلم ٹریڈ سے وابستہ افراد سے ملاقات کی تھی ان کے پاس کسی قسم کا ہوم ورک اور فلم ٹریڈ کی بحالی کا کوئی روڈ میپ نہیں تھا۔ لہذا صرف حکومت کو قصور وار ٹھہرانا مناسب نہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

وہ دور جب کراچی کے ہر کونے میں ایک سینما تھا

’فلموں کے لیے حکومت سرمایہ فراہم کرے گی‘

لالی وڈ کی فلم نگری: وہ جگہ جہاں وقت تھم سا گیا ہے

پاکستانی فلمیں عوام کا دل جیتنے میں ناکام کیوں؟

ملک میں سنیما گرائے جارہے ہیں ایسے میںمغل بادشاہوں پر فلمیں بنانا فلمی باتیں لگتی ہیں

سینما گھر

فلمساز و ہدایتکار شہزاد رفیق کہتے ہیں کہ پاکستان میں فلم انڈسٹری کے حالات دہائیوں سے دگرگوں ہیں۔ دو سے چار سال پہلے تک پاکستان میں 160 سنیما سکرینز تھیں کووڈ سے پہلے وہ 140رہ گئیں، اب جب سنیما کھلیں گے تو تعداد اور بھی کم ہونے کا اندیشہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’صوبہ بلوچستان میں صرف تین سے چار سنیما ہیں، خیبر پختونخوا میں پانچ سے چھ سنیما رہ گئے ہیں، ایسے میں مغل بادشاہوں پر فلمیں بنانا فلمی باتیں لگتی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’بڑی سنیما انڈسٹری وہاں وجود میں آتی ہے جہاں سرکٹ بھی بڑا ہو۔ ہمیں ففتھ جنریشن وار فیئر کا سامنا ہے اسے کاونٹر کرنے کے لیے حکومت، ریاست اور فلم ٹریڈ کو باہم مل کر ایک سنجیدہ حکمت عملی بنانی چاہیے۔‘

ادیبوں کے لیے فلم انڈسٹرینوگوایریا بنی رہی ہے

سینیئر صحافی اور عالمی سنیما کے نقاد عبدالروف کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا فلمی ڈاکٹرائن کیا ہے یہ انھیں خود بھی نہیں پتہ۔ ’وہ جس ملک میں جاتے ہیں وہاں مشترکہ پروڈکشن شروع کرنے کی بات کر لیتے ہیں۔ ازبکستان سے پہلے ترکی کے ساتھ بھی جوائنٹ ونچر کرنے کے اعلانات سن چکے ہیں۔‘

’وزیر اعظم کی فلمی ڈاکٹرائن یا ترکی برینڈ سنیما کو ہدف بنائیں تو صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں کاسٹیوم اور تاریخی فلمیں بنانے کی پیشہ وارانہ استطاعت نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ہمیشہ فارمولا فلم بنائی گئی ہیں، تجرباتی فلم سے ہم کوسوں دور رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’منفرد اور سنجیدہ سکرپٹنگ پر کبھی کوئی کام نہیں ہوا، ہمسایہ ملک انڈیا میں کئی دہائیوں سے فلم میکنگ کے 26 مستند ادارے ہیں جو ڈگری ہولڈر ٹیلنٹ پیدا کر رہے ہیں۔

’نصیرالدین شاہ، شبانہ اعظمی اور اوم پوری سے لے کر منوج واجپائی اور نواز الدین صدیقی سب فلم میکنگ پڑھ کر آئے ہیں۔دوسری طرف ہمارے ہاں ایک بھی ادارہ قائم نہیں کیا گیا۔‘

عبدالرؤف کا کہنا ہے کہ مستند شاعروں اور ادیبوں کے لیے فلم انڈسٹری ’نو گو ایریا‘ بنی رہی ہے۔ ادب کے سائے سے محروم انڈسٹری کا مقدر بربادی ہی ممکن تھا۔ فلم سائنس اور فائن آرٹس کے اعلیٰ ترین حسین امتزاج کا نام ہے۔ اچھی اور معیاری فلم وہیں بن سکتی ہے جہاں یہ تمام فنون ترقی کر رہے ہوں۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں کبھی نہیں سوچا گیا کہ منٹو، انتظارحسین، شمس الرحمان فاروقی اور قرۃ العین حیدر کے لکھے کسی فن پارے سے فلم کا سکرپٹ ماخوذ ہو؟

وہ کہتیے ہیں کہ انڈیا میں وشال بھردواج نے شکسپیئرکے ڈرامہ ہیملٹ کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے پیش منظر میں رکھ کر اس سے ’حیدر‘ جیسی فلم بنائی ہے۔ مصطفی العقاد کا تعلق شام سے تھا جس نے ’دی مسیج‘ اور ’دی لائن آف ڈزٹ‘ جیسی فلمیں بنائی ہیں،لیکن بین الاقوامی میعار کی فلم بنانا انھوں نے امریکی شہری کے طور پر ہالی وڈ سے تربیت حاصل کرنے کے بعد سیکھی تھی۔

’لہذا معیاری فلم صرف جذبوں اور جذبات سے نہیں سکرپٹ، تکنیک، وسائل اور محنت سے بنائی جا سکتی ہے۔ جس کے لیے ہم تیار نہیں لہذا ہنوز دلی دوراست۔‘

ان کا کہنا ہے کہ معیاری اور عالمی سطح کی فلم بنانے کے حوالے سے ہمارے ہاں قنوطیت اور رجائیت دونوں طرح کے خیالات اور احساسات پائے جاتے ہیں۔ ایران اور ترکی نے عالمی معیار کی فلمیں بنائی ہیں، وزیر اعظم بھی خواہش مند ہیں کہ برادر اسلامی ممالک کی طرح ہم بھی عالمی میعار کی فلمیں بنا پائیں۔

لالی وڈ فلم

وزیر اعظم نے ارطغرل اور ظہیر الدین بابر کی زندگی پر فلمیں بنانے کے عزم کا اظہار کیا تو چند مشیر کہہ رہے ہیں کہ ہم تو وہ قوم ہیں جس نے سنہ 92 کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا اور ایٹمی طاقت بھی ہیں، فلمیں بنانا تو کوئی مشکل کام نہیں۔

عبدالروف کے مطابق وزیر اعظم کے مشیر درست فرمایا رہے ہیں کہ ہم عالمی فاتح کرکٹ اور ایٹمی طاقت ہیں لیکن براہ راست دونوں صلاحیتوں کا فلم بنانے سے کوئی تعلق نہیں۔

’ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور خود وزیر اعظم عمران خان فلم کی کہانی کے ہیرو ہو سکتے ہیں لیکن اس کہانی کو سیلولائیڈ پر منتقل کرنے کے لیے ایک تربیت یافتہ اور پیشہ ور ٹیم کے ساتھ وہ سب کچھ چاہیے جس کی عالمی معیاری فلم بنانے کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔‘

عبدالرؤف کہتے ہیں کہ فی الحال ہمارے ہاں عالمی معیار کی فلم بنانے کی تربیت،تکنیک اور وسائل نہیں ہیں۔ لیکن اگر بدلتی ہوئی دنیا میں فلم کی اہمیت کو تسلیم کر لیا گیا ہے تو ریاستی اور حکومتی سطح پر اس صنعت کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی۔

ازبکستان، ایران اور ترکی سمیت دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ فلم سازی سے آغاز کر لیا جائے تو وزیر اعظم عمران خان کے ’فلمی ڈاکٹرائن‘ کے مطابق فلمیں بنائی جا سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp