کم ہانگ بن: دنیا کے ’بہادر ترین‘ کوہ پیما بروڈ پیک سر کرنے کے بعد واپسی کے راستے پر لاپتہ

محمد زبیر خان - صحافی


ہاتھوں کی انگلیوں سے محروم عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما کم ہانگ بن گلگت سکردو میں واقع دنیا کی 12ویں بلند ترین چوٹی بروڈ پیک سر کرنے کے بعد واپسی کے راستے میں لاپتہ ہو گئے ہیں۔

مقامی حکام کے مطابق موسم کی خرابی کے سبب سے ان کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن تاحال شروع نہیں ہو سکا ہے۔

کم ہانگ بن دنیا کی تمام آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں کو فتح کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ دنیا کے واحد معذور کوہ پیما ہیں جنھوں نے آٹھ ہزار میٹر سے بلند تمام 14 چوٹیاں سر کی ہیں۔

الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری کے مطابق کم ہانگ بن نے 20 جولائی کو بروڈ پیک کو سر کیا تھا، جس کے بعد وہ واپسی کے راستے پر تھے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ان کا پاؤں پھسلا اور وہ چین کی سرحد میں موجود پہاڑی سلسلے میں لاپتہ ہو گئے۔

کم ہانگ کا تعلق جنوبی کوریا سے ہے۔

دو روز قبل جب کم ہانگ بن نے بروڈ پیک کو فتح کیا تھا تو اس وقت جنوبی کوریا کے صدر مون جا ان نے کم ہانگ بن کو مبارکباد کا پیغام ارسال کرتے ہوئے اپنی پوری قوم کو مبارک باد پیش کی تھی۔

ان کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات کے بعد جنوبی کوریا کے صدر نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ابھی تک دستیاب معلومات واضح نہیں ہیں اور انھیں امید ہے کہ کم ہانگ زندہ ہوں گے۔

’میں اور جنوبی کوریا کی عوام اُن کی محفوظ واپسی کی امید کرتے ہیں۔‘

کم ہانگ بن کون ہیں؟

کم

کم ہانگ بن، کرار حیدری کے ہمراہ

کم ہانگ بن جنوبی کوریا کے مشہور زمانہ کوہ پیما ہیں۔ انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے دنیا کی تمام 14 بلند ترین چوٹیاں فتح کی ہیں، جن میں دنیا کی بلند ترین چوٹی ماوئنٹ ایورسٹ اور کے ٹو بھی شامل ہیں۔

57 سالہ کم ہانگ بن سنہ 1991 میں امریکہ ریاست الاسکا میں ایک مہم کے دوران فراسٹ بائیٹ کا شکار ہونے کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے محروم ہوگئے تھے۔ مگر اس کے باوجود بھی انھوں نے کوہ پیمائی ترک نہیں کی تھی۔

اس حادثے کا شکار ہونے کے بعد انھوں نے کئی چوٹیوں کو سر کیا تھا۔

کم ہانگ بن کو دنیا بھر میں کوہ پیماؤں اور ایڈونچر کے شوقین لوگوں میں بہت زیادہ عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ انھیں دنیا کا ’بہادر ترین‘ کوہ پیما کہا جاتا تھا جنھوں نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے محروم ہونے کے باوجود کئی بلند و بالا چوٹیوں کو سر کیا ہے۔

جنوبی کوریا میں انھیں ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے۔

دو سال تک مہم کا انتظار کرتے رہے

کرار حیدری نے بتایا کہ کم ہانگ بن دو سال سے اس چوٹی کو فتح کرنے کے انتظار میں تھے مگر چونکہ کورونا کی وجہ سے سے پابندیاں عائد تھیں اس لیے وہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔

’مگر اجازت ملنے کے بعد جب وہ پاکستان آئے تو وہ بہت پُرجوش تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ چوٹی سر کرنے کے بعد پاکستان اور جنوبی کوریا میں جا کر جشن منائیں گے۔‘

کرار حیدری کا کہنا ہے کہ جسمانی معذوری کے باوجود جو ریکارڈ کم ہانک بن نے قائم کیا ہے شاید اس کو توڑنا ممکن نہ ہو سکے۔

حادثے نے مضبوط تر بنا دیا ہے

کم ہانگ بن نے اپنے زندگی میں پیش آنے والے حادثے سے متعلق ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’اگر میرے ساتھ حادثہ پیش نہ آتا تو شاید میں ایک عام کوہ پیما ہوتا ہے۔‘

’میں الاسکا کے ایک ہسپتال میں تین ماہ کے علاج کے بعد کوریا واپس آیا، لیکن دوسروں کی مدد کے بغیر اپنی روزمرہ کی زندگی بسر کرنا ناممکن تھا۔ میں خود کھا بھی نہیں سکتا تھا۔ یہ صورتحال میرے لیے انتہائی مایوسی کا سبب تھی۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی کوہ پیما جو K 2 سر کرنے والی پہلی کامیاب مہم کا حصہ نہ بن سکا

کے ٹو کا ’ڈیتھ زون‘ کیا ہے اور کوہ پیما وہاں کتنے گھنٹے زندہ رہ سکتے ہیں؟

نیپالی کوہ پیماؤں نے تاریخ رقم کر دی، کے ٹو کو موسم سرما میں پہلی بار سر کر لیا گیا

ان کا کہنا تھا کہ تاہم اپنے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کے بعد ایک بار پھر وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوئے اور پہلے سے کہیں زیادہ سخت محنت شروع کی۔

’چونکہ میں کوہ پیمائی میں مدد گار ساز وسامان جیسے رسیاں، لاٹھی اور برف کی کلہاڑی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا، اس لیے مجھے اپنی جسمانی طاقت کو مضبوط کرنا تھا جس کے لیے میں نے سخت محنت شروع کی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سنہ 1997 میں، میں نے یورپ کی سب سے اونچی چوٹی کو فتح کیا۔ جس سے میرا حوصلہ بڑھا اور میں نے اعلان کیا کہ میں سات براعظموں کی تمام بڑی چوٹیوں کو فتح کروں گا۔ لوگوں نے بظاہر تو میرے منصوبے کو سراہا مگر بہت سے لوگوں کو شک تھا کہ شاید یہ ممکن نہ ہو سکے۔‘

’مگر وقت کے ساتھ ساتھ میں نے ثابت کیا کہ سب کچھ ممکن ہے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔‘

امدادی سرگرمیوں کی صورتحال

کرار حیدری کے مطابق فی الحال بروڈ پیک پر موسم انتہائی خراب ہے جس کی وجہ سے امدادی اور تلاش کی سرگرمیاں تاخیر کا شکار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جیسے ہی موسم کی صورتحال بہتر ہو گی تلاش کا کام فی الفور شروع کر دیا جائے گا۔

جنوبی کوریا کے وزارت خارجہ کے ترجمان چوئی تنگ سم کے مطابق پاکستان نے تلاش کے آپریشن میں مدد کا وعدہ کیا ہے۔ حکومت پاکستان نے کہا ہے کہ جس وقت بھی موسم ٹھیک ہوگا تلاش کے لیے ہیلی کاپٹر روانہ کر دیا جائے گا۔

چین نے بھی تلاش کے آپریشن میں مدد کا وعدہ کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp