نور مقدم: ’ایسی حکومت کب آئے گی جو خواتین کے خلاف جرائم پر ایمرجنسی کا اعلان کرے گی؟‘

حمیرا کنول - بی بی سی اردو ڈاٹ کام آسلام آباد


قتل

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گذشتہ روز قتل ہونے والی 27 سالہ نور مقدم کے کیس کی ایف آئی آر اُن کے والد اور سابق سفیر شوکت مقدم کی مدعیت میں درج کر لی گئی ہے۔

پولیس حکام کے مطابق اس مقدمے میں نامزد ملزم کو کچھ ہی دیر میں مقامی عدالت میں ریمانڈ حاصل کرنے کی غرض سے پیش کر دیا جائے گا۔

تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او محمد شاہد کے مطابق قتل کا یہ واقعہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون فور میں منگل کی رات آٹھ بجے کے لگ بھگ پیش آیا۔ ایس ایچ او کے مطابق نور مقدم کو تیز دھار آلے کی مدد سے گلا کاٹ کر ہلاک کیا گیا۔

پولیس حکام کے مطابق لڑکی کے والد نے پولیس کو بتایا کہ ان کی بیٹی 19 تاریخ کو گھر سے گئی تھیں مگر اس کے بعد ان کا فون نمبر بند ہو گیا تھا، تاہم دوبارہ رابطہ ہونے پر مقتولہ نے بتایا کہ وہ لاہور جا رہی ہیں۔ پولیس کے مطابق بعدازاں اسلام آباد میں اُن کے قتل کی اطلاع موصول ہوئی۔

اس کیس میں نامزد ملزم کنسٹرکشن کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور نور مقدم کے دوست بتائے جاتے ہیں۔

پولیس کے مطابق ملزم کو جائے وقوعہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔

قتل کے جرائم کی تفتیش کرنے والے پولیس یونٹ کے اہلکار اور اس کیس کے انویسٹیگیشن افسر دوست محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم کو کچھ ہی دیر میں ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے سات روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کی استدعا کی جائے گی۔

گلا

انھوں نے کہا کہ ملزم سے مزید تفتیش ہی کے ذریعے مزید معلومات میسر آ سکیں گی۔

پولیس حکام کے مطابق وقوعہ کے وقت نور مقدم اس کیس میں نامزد ملزم کے گھر پر ہی موجود تھیں اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر ملزم نے چھری سے گلا کاٹ دیا جس سے ان کی موقع پر ہی ہلاکت ہو گئی۔

ایک پولیس اہلکار کے مطابق پولیس کو ایک فون کال کے ذریعے اس قتل کی اطلاع دی گئی اور جب پولیس بتائے گئے ایڈریس پر گئی تو ملزم وہیں موجود تھا۔

پولیس اہلکار نے بتایا کہ فون کال کرنے والے کا نام صیغہ راز میں رکھا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’جب پتا چلا کہ داماد تین سال سے بیٹی پر تشدد کر رہا ہے تو پاؤں تلے زمین سرک گئی‘

’مائرہ جج بننا چاہتی تھی۔۔۔ اگر میری بیٹی کی بات سُن لی جاتی تو آج وہ زندہ ہوتی‘

’مرجائیں گے لیکن بیٹی کے خون کا سودا نہیں کریں گے‘

’فون پر اطلاع ملی کہ ایک خاتون کو قتل کیا گیا ہے اور وہ موقع پر موجود ہے۔ پولیس جب وہاں پہنچی تو ملزم موجود تھا جسے گرفتار کر لیا گیا۔‘

نور کی میت کو پوسٹ مارٹم کے لیے سرکاری ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کا انتظار ہے۔

گذشتہ شب گیارہ بجے پولیس حکام کی جانب سے سوشل میڈیا پر بتایا گیا تھا کہ اس واقعہ کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔

سوشل میڈیا پر ردِعمل

گذشتہ رات نور مقدم کی ہلاکت کی خبر سامنے آنے کے بعد سے پاکستان میں سوشل میڈیا پر یہ واقعہ زیِر بحث ہے۔

جہاں کچھ افراد خصوصاً خواتین، عورتوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے واقعات پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اس حوالے سے حکام سے سنجیدگی دکھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں وہیں گذشتہ ہفتے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں یکے بعد دیگرے خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے بعد اسلام آباد کے ‘محفوظ شہر’ ہونے پر بھی سوالات کیے جا رہے ہیں۔

صحافی رابعہ محمود پوچھتی ہیں کہ کب ایسی حکومت آئے گی جو خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کو لے کر ایمرجنسی کا اعلان کرے گی؟ پاکستانی مردوں کی خواتین سے نفرت وبائی بیماری کی طرح ہے اور یہ کسی بھی طرح کی طبقاتی، نسلی یا مالی تقسیم سے بالاتر ہے۔

پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ ‘اسلام آباد غیر محفوظ ہو چکا ہے یا انسانی جان کی قیمت ختم ہو گئی ہے؟

’خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے، معاشرہ پرتشدد رویہ اپنا رہا ہے، ایک کے بعد ایک خوفناک واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ کمزور نظام انصاف جرائم کی مزید حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔‘

عروج سیامی نامی صارف نے لکھا ’کیا کہا جائے؟ یہ اسلام آباد میں ہوا جو سیاست اور سفارتکاروں کا شہر ہے۔ یہ اب محفوظ نہیں رہا، یہ اب سیف سٹی نہیں رہا۔‘

مہوش پال نے لکھا ’خواتین پر ظلم اور تشدد کا جواز کبھی نہیں مل سکتا۔ میں ایسی دنیا کے لیے دعا ہوں جو تمام خواتین کے لیے محفوظ ہو۔‘

نور مقدم کی سہلیاں بھی انھیں یاد کرتے ہوئے اُن کے قتل پر رنج کا اظہار کر رہی ہیں۔

ان کی دوست یمنیٰ نے ان کے نام پیغام میں لکھا ’پیاری نور، میں سمجھ نہیں پا رہی کہ وہ درندہ تم جیسی پیاری روح کے ساتھ یہ کیسے کر سکتا ہے۔ میں تمھارے مسکراتے چہرے، عاجزانہ انداز اور تمھاری مثبت انرجی کے بارے میں سوچنے سے خود کو روک نہیں پا رہی۔ تمھارے پورے خاندان کی ہمت کے لیے دعا گو۔ یہ ایک ناقابل یقین نقصان۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp