اسرائیلی سافٹ وئیر: پرائیویسی کے نام پر دھندا


”مشکوک“ لوگوں پر کڑی نگاہ رکھنے کو انسانی تاریخ کے تمام سلطان ہمیشہ بے چین رہے ہیں۔ ہمارے خطے میں کئی سو سال قبل ”اخبار نویسی“ کا شعبہ قائم ہوا تھا۔ بادشاہوں کے تسلط میں آئے وسیع وعریض علاقوں کے تقریباً ہر شہر میں ”اخبار نویس“ ہوا کرتے تھے۔ وہ عام افراد میں گھلے ملے رہتے۔ سرائے گاہوں میں ٹھہرے مسافروں سے دوستیاں بڑھاتے اور اپنے گردوپیش کا احوال روزانہ کی بنیاد پر مرتب کرتے ہوئے دربار تک پہنچاتے۔ ان کے لکھے ”روزنامچوں“ کو دارالحکومت تک فی الفور پہنچانے کے لئے ”ڈاک“ کا نظام قائم ہوا تھا۔ مختلف مقامات پر تازہ دم گھوڑے اسے برق رفتار بنانے کے لئے موجود رہتے۔

روزنامچوں کے ذکر نے لاہور کے ملامتی شاہ حسین کی یاد بھی دلادی۔ ان کی زندگی اور شخصیت کے بارے میں سب سے مستند کتاب درحقیقت وہ ”روزنامچے“ ہیں جو میرے شہر میں موجود ”اخبار نویس“ مرتب کرتا تھا۔ فارسی میں لکھے یہ ”روزنامچے“ اگر د ریافت نہ ہوتے تو شاید ہم اس صوفی کی ”باغیانہ“ زندگی سے قطعاً بے خبر رہتے۔

ممکنہ ”باغیوں“ کی حرکات وسکنات پر کڑی نگاہ رکھنے کی روایت اس شور کی وجہ سے یاد آئی ہے جو گزشتہ دو دنوں سے دنیا کے کئی بڑے اخبارات میں پانامہ پیپرز کی طرح بیک وقت چھپنے والی ایک خبر کی وجہ سے برپا ہے۔ طویل اور جدید سائنسی بنیادوں پر ہوئی تحقیق کی بدولت اس خبر نے آشکار کیا ہے کہ اسرائیل کی ایک کمپنی نے ایسا سافٹ ویئر ایجاد کر رکھا ہے جو اپنے ہدف کے ٹیلی فون کو کئی حوالوں سے ناکارہ بنادیتا ہے۔ اس کے ذریعے ہوئی گفتگو یا بھیجے گئے پیغامات کڑی نگاہ رکھنے والوں کی دسترس میں رہتے ہیں۔

اسرائیل ویسے تو ایک ”جمہوری ملک“ ہونے کا دعوے دار ہے۔ اس کی کمپنی نے مگر مذکورہ سافٹ ویئر دنیا کے کئی ایسے ممالک کو فراہم کیا جہاں کاریاستی نظام آمرانہ ہے۔ وہ اپنے صحافیوں اور لکھاریوں کے خیالات سے باخبر رہنا چاہتے ہیں۔ ان کے رابطے میں موجود افراد کے انداز زندگی اور رویوں کو جاننا بھی لازمی سمجھتے ہیں۔ اب تک جمع ہوئی معلومات کے مطابق دنیا بھر کے تقریباً 50 ہزار ٹیلی فون اسرائیل میں ایجاد ہوئے سافٹ ویئر کا نشانہ بن چکے ہیں۔

یہ کالم لکھنے سے چند لمحے قبل بھارت کی لوک سبھا میں اسی سافٹ ویئر کی وجہ سے شدید ہنگامہ ہوا۔ مودی سرکار نے بھی اسے خرید رکھا ہے۔ جو خبر چھپی ہے وہ دعویٰ کرتی ہے کہ بھارتی حکومت نے اس کے ذریعے کانگریس کے رہ نما راہول گاندھی پر کڑی نگاہ رکھی۔ ہمارے وزیر اعظم کا فون بھی زد میں آیا۔ اس کے علاوہ مختلف شعبۂ ہائے زندگی کے بے تحاشا سرکردہ افراد کے فون بھی ”محفوظ“ نہ رہے۔ بھارتی اپوزیشن مودی سرکار سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ اسرائیل کی کمپنی کے ساتھ ہوئے بندوبست کی تفصیلات منظر عام پر لائے۔

اپنے مخالفین پر کڑی نگاہ رکھنے کی حقیقت بے نقاب ہونے کے بعد بھارتی وزیر اعظم اور وزیر داخلہ اپنے عہدوں سے مستعفی ہوں۔ آپ میں سے اکثر یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اسرائیلی کمپنی کے سافٹ ویئر کے حوالے سے بہت تحقیق اور اہتمام کے ساتھ چھاپی خبرنے مجھے ہرگز پریشان نہیں کیا۔ صحافتی کیرئیر کی ابتدا ہی میں جان لیا تھا کہ منہ سے نکالی بات ریاستوں سے چھپائی نہیں جا سکتی۔ ویسے بھی صحافی کا کام خبردینا اور چند اہم موضوعات پر اپنی رائے دینا ہے۔

اس تناظر میں سرکاری بیانیے سے ہٹ کر بات کرنے کی قیمت بھی ادا کرنا ہوتی ہے۔ یہ قیمت دینے کو تیار نہیں تو کوئی اور دھندا اختیار کرلو۔ پنجابی کا ایک محاورہ متنبہ کرتا ہے کہ گاجریں کھاؤ تو پیٹ میں درد اٹھنا لازمی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ درد کی شدت بڑھانے والی گاجریں کھانے سے پرہیز کرو۔ عملی صحافت سے ریٹائر ہونے کے بعد ”گاجر“ کھانا بھی چھوڑ دی ہے۔ اس کے بجائے ”دہی“ کھاتاہوں۔ وہ بھی کونے میں بیٹھ کر۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ ریاست پاکستان نے بھی وہ سافٹ ویئر خرید رکھا ہے یا نہیں جس کا چرچا ہو رہا ہے۔

اس سافٹ ویئر کے بغیر بھی آپ کے ہاتھ میں موجود موبائل فون ہر حوالے سے غیر محفوظ ہے۔ آپ کے بارے میں ریاست سے کہیں زیادہ باخبر وہ ٹیک کمپنیاں ہیں جن کے بنائے ٹیلی فون اور ایپس آپ کے زیر استعمال ہیں۔ ٹیک کمپنیوں کی حیران کن رسائی اور ذہن سازی کی صلاحیت نے دنیا کی واحد سپر طاقت کہلاتے امریکہ کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔ چند ہی روز قبل صدر بائیڈن نے لگی لپٹی کے بغیر الزام لگایا کہ ”وہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔

“ اس کا اشارہ فیس بک کی جانب تھا۔ اس برس کا آغاز ہوتے ہی اس نے وائٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد یہ عہد باندھا کہ 2021 کی 4 جولائی تک کم از کم 70 فی صد امریکی کرونا سے مدافعت کے قابل بنانے والی ویکسین لگوالیں گے۔ وہ اپنے ہدف کے حصول میں ناکام رہا کیونکہ فیس بک کے ذریعے جنونی جاہلوں کے ایک منظم گروہ نے امریکی عوام کی کثیر تعداد کو قائل کر دیا کہ چند دوا ساز کمپنیوں نے باہم مل کر کرونا کی وبا پھیلائی۔

وبا کو انگریزی میں Pandemic کہتے ہیں۔ کرونا سے بچانے والی ویکسین کے مخالف مگر اس وبا کو Plandamic پکارتے ہیں یعنی سازشی منصوبے کے تحت پھیلائی وبا۔ جنونی جاہلوں کا اصرار ہے کہ وبا متعارف کروانے کے بعد اس سے تدارک کی ویکسین ”ایجاد“ ہوئی۔ بنیادی مقصد اس کا زیادہ سے زیا دہ منافع کمانا ہے۔ عوام کو لہٰذا وبا کے خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ زندگی اور موت ویسے بھی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ جو رات قبر میں آنی ہے اسے ٹالا نہیں جاسکتا۔ فیس بک کو ”قاتل“ ٹھہرانے کے باوجود بائیڈن اس ایپ کو بین کرنے کی جرات نہیں دکھاسکتا۔

منافع کی ہوس نے سرمایہ دارانہ نظام کو توانا تر بنایا ہے۔ امریکہ اس کی بدولت سپرطاقت ہوا۔ بائیڈن انتظامیہ سوشل میڈیا کی اجارہ دار کمپنی سے پنگا لینے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اسرائیل کے سافٹ ویئر کے حوالے سے آشکار ہوئی خبر نے تاہم امریکی ریاست سے زیادہ ایک اور ملٹی نیشنل کمپنی۔ ایپل۔ کی ساکھ کو شدید ترین دھچکا لگایا ہے۔ آئی فون دنیا کا مہنگا ترین فون ہے۔ اسے بنانے والوں کا دعویٰ رہا کہ آئی فون کو ہیک نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے ذریعے بھیجے پیغامات غیر متعلقہ لوگوں کی دسترس میں نہیں آسکتے۔ اسرائیلی سافٹ ویئر کے بارے میں خبردینے والے صحافیوں نے مگر اعداد و شمار کی حقیقت سے ثابت کیا ہے کہ 50 ہزار ٹیلی فونوں کی جو فہرست ان کے پاس موجود ہے ان میں سے 85 فی صد جی ہاں 85 فی صد ایپل کے بنائے آئی فون تھے۔ آئی فون کو اب ایک نیا ماڈل متعارف کروانا پڑے گا۔ تشہیری مہم کے ذریعے صارفین کو باور کروایا جائے گا کہ نئے ماڈل نے اب تک ایجادہوئے ان تمام سافٹ ویئرز کا حل ڈھونڈ لیا ہے جو آپ کے فون کو ”غیروں“ تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔ نام نہاد ”پرائیوسی“ کے خوف میں مبتلا ہوئے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد نئے ماڈل کا بے چینی سے منتظر رہیں گے۔ یوں ٹیک کمپنیوں کا دھندا چلتا رہے گا۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments