مندرا بیدی: ہندو عقیدے میں چتا جلانے کی رسم کے دوران خواتین کی موجودگی کے بارے میں کیا کہا جاتا ہے؟

گیتا پانڈے - بی بی سی نیوز، دہلی


Mandira Bedi with husband Raj Kaushal body

Press Trust of India
مندرا بیدی اپنے شوہر راج کوشال کی آخری رسومات ادا کرتے ہوئے

انڈین اداکارہ اور ٹی وی میزبان مندرا بیدی کا نام حال ہی شہ سرخیوں میں آیا جب انھوں نے اپنے خاوند کی وفات کے بعد ان کی آخری رسومات خود سے ادا کیں۔

روایتی طور پر چتا جلانے کی رسم کو مرد ادا کرتے ہیں اور خواتین کی اس رسم کی ادائیگی کے دوران موجودگی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن یہ روایت کہاں سے آئی اور ہندو مذہب کی کتابوں میں اس کے بارے میں کیا کہا جاتا ہے؟

جب ایک ہاتھ میں مقدس پانے سے بھرے ہوئے مٹی کے گھڑے کو اٹھائے ہوئے اور دوسرے ہاتھ سے اپنے شوہر راج کوشال کی لاش لے جاتے ہوئے مندرا بیدی کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور پھر انھوں نے خود اپنے شوہر کی آخری رسومات ادا کیں اور ان کی چتا کو نذر آتش کر دیا۔

مندرا بیدی کے 49 سالہ شوہر راج کوشال ممبئی کے ایک فلمساز تھے جو 30 جون کے اچانک دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہو گئے۔

شوہر کی وفات کے بعد مندرا بیدی کو ہر جانب سے تعزیتی پیغامات بھیجے گئے اور کئی لوگوں نے ان کو خراج تحسین پیش کیا کہ اس افسوسناک موقع پر بھی انھوں نے پدرشاہی نظام کے خلاف ہمت دکھائی اور اپنے شوہر کی آخری رسومات ادا کیں۔

معروف لکھاری شوبھا ڈے نے بھی مندرا بیدی کے بارے میں لکھا کہ ‘غمگین مندرا بیدی کی جانب سے اپنے شوہر کی آخری رسومات ادا کرتے ہوئے ہمارے معاشرے کی صدیوں پرانی فرسودہ روایات کو چیلنج کیا اور پدرشاہی نظام کے خلاف ایک مضبوط پیغام دیا ہے۔’

یہ واضح کرنا ضروری ہوگا کہ مندرا بیدی واحد خاتون نہیں ہیں جنھوں نے اپنے چاہنے والوں کی آخری رسومات ادا کی ہوں۔

تین سال قبل سابق انڈین وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی وفات کے موقع پر ان کی منہ بولی بیٹی نمیتا کول بھٹاچاریا نے ان کی آخری رسومات ادا کی تھیں۔

اس سے قبل 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئیر رکن گوپیناتھ مندے کی وفات پر ان کی بیٹی پنکاجا مندے نے ان کی چتا جلائی تھی۔

انڈیا میں کورونا وائرس کی وبا کے دوران حالیہ دنوں میں بھی ایسے کئی واقعات دیکھنے میں آئے تھے جب بیویوں اور بیٹیوں نے چتا جلانے کی رسوم ادا کیں۔ کچھ کے خاندان کے مرد وبا کے باعث فوت ہو گئے تھے ، کچھ مرد کورونا وائرس سے متاثر تھے جبکہ کچھ مرد لاک ڈاؤن کے باعث سفر کرنے سے قاصر تھے۔

لیکن مندرا بیدی کی جانب سے روایت کے برخلاف جانے سے انڈیا کے چند قدامت پرست طبقے اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ٹرولز نے ان کو سوشل میڈیا پر تضحیک کا نشانہ بنایا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ چتا ان کے دس سالہ بیٹے کو جلانی چاہیے تھی۔

چند افراد نے کہا عورت کی جانب سے چتا جلانا روایت کے برخلاف ہے اور حتی کہ ان کا اس رسم میں شرکت کرنا بھی غلط ہے۔

لیکن بی بی سی نے جب اس معاملے میں ہندو پنڈتوں اور مذہبی سکالروں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ہندو مذہب کی کتابوں میں خواتین کا چتا جلانے کی رسم میں شرکت کرنا یا اسے خود ادا کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

تو اگر ایسا ہے تو خواتین کی اس رسم میں شرکت کرنے یا اس پر خود عمل کرنے پر کیوں تنقید کی جاتی ہے اور انھیں منع کیا جاتا ہے۔

اس بارے میں انٹرنیٹ پر چند عجیب عجیب مفروضے بھی گردش کر رہے ہیں جس میں سے ایک میں کہا گیا کہ اگر ‘ایک لمبے سیاہ بالوں والی عورت شمشان گھاٹ جائے تو وہاں موجود روحیں اس عورت پر قبضے کر لیتی ہیں۔’

لیکن مرزاپور میں سنسکرت کے ایک سابق پروفیسر بھگوان دت پاٹھک کا کہنا ہے کہ عورتوں کے جانے پر تنقید کرنی وجہ شاید زیادہ معمول کی ہیں، جیسے کہ عورتوں کی ذمہ داری گھر کا کام کاج کرنے کی ہے جبکہ مرد گھر سے باہر کام کرتے ہیں اور بھاری محنت مزدوری کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔

انڈیا کی معروف بنارس ہندو یونیورسٹی میں سنسکرت لٹریچر کے پروفیسر کوشلیندرا پانڈے کہتے ہیں کہ قدیم کتابوں میں ایسے حوالے ملتے ہیں جہاں لکھا ہوا ہے کہ عورتوں نے اپنے شوہر کی آخری رسوم ادا کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حتی کے بیٹیوں کو بھی ایسا کرنے کا حق ہے۔

‘زمانہ قدیم کی ہندو سوسائٹی بہت روشن خیال تھی اور عورتوں کو بہت ساری سماجی آزادیاں میسر تھیں۔ لیکن قدامت پرست رجحانات دیگر مذاہب کو دیکھتے ہوئے بڑھے۔‘

آخری رسومات ادا کرنے کے ایک ماہر ہندو پنڈت منوج کمار پانڈے کہتے ہیں کہ موجودہ یقین کہ چتا جلانے کا عمل مرنے والے کے سب سے بڑے بیٹے کو ادا کرنا چاہیے، کا رواج گارون پوران نامی ہندو مذہب کی قدیم کتاب سے آیا ہے جس میں آخری رسومات کے طور طریقوں کے بارے میں درج ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب کم از کم ایک ہزار سال پرانی ہے۔

تاہم اس کتاب میں خواتین کے کردار پر کوئی تبصرہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ انھیں ایسا کرنے سے منع کرتی ہے۔

پروفیسر پانڈے کہتے ہیں کہ مندرا بیدی کی جانب سے اپنے شوہر کی چتا کو جلانا ‘ٹھیک’ تھا۔

‘تصاویر دیکھنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ اُن میں اور ان کے شوہر میں بہت قربت تھی۔ اور وہ اپنے بیٹے کو تحفظ دینا چاہ رہی تھیں جو کہ ابھی بہت کم عمر ہے۔ وہ بہت قابل خاتون ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے جو کیا وہ ٹھیک تھا۔’

پروفیسر پانڈے کے مطابق خواتین اپنی دیکھ بھال اور بہتری کے لیے ہی شمشان گھاٹ نہیں جاتیں کیونکہ وہاں پر ہونے والی رسومات سے وہ بہت متاثر ہو سکتی ہیں کیونکہ وہ ‘کمزور اور نرم دل’ ہوتی ہیں، تاہم یہ ایک ایسا نظریہ ہے جس کی خواتین کی اکثریت سختی سے تردید کرتی ہے۔

نیوز ویب سائٹ دا پرنٹ سے منسلک شائلاجا باجپائی کہتی ہیں کہ انڈیا کے دیہاتی علاقوں اور چھوٹے قصبوں میں خواتین آخری رسومات میں شرکت شاذ و نادر ہی کرتی ہیں لیکن شہروں میں ان کی ایسا کرنا اب معمول کی بات ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے خود متعدد آخری رسومات میں شرکت کی ہے جس میں ان کے اپنے والدین کی بھی رسومات شامل ہیں۔

‘میں نے اس میں شرکت کی تھی کیونکہ میں چاہتی تھی کہ انھیں الوداع کرتے وقت میں خود وہاں موجود ہوں۔ لیکن میری بہت ساری خواتین رشتےداروں نے اس میں شرکت نہیں کی تھی۔ یہ یقین کے خواتین شمشان گھاٹ نہیں جاتیں، یہ قدیم زمانے سے ایک چلی آ نے والی روایت ہے اور ہمارے خاندانوں میں کئی خواتین اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتیں اور میں ان کی خواہش کا احترام کرتی ہوں۔ یہ ہم سب کا اپنا ذاتی معاملہ ہے اور اس کا احترام کرنا چاہیے۔ ہمیں اجازت ہونی چاہیے کہ ہماری مرضی جو ہم کرنا چاہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp