عارف نظامی: نوجوان صحافیوں کے ’نڈر‘ ایڈیٹر


معروف صحافی اور ایڈیٹر عارف نظامی بدھ کو پاکستان میں عید کے روز انتقال کر گئے۔ ان کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ کچھ روز پہلے انھیں دل کا دورہ پڑا تھا جس کی وجہ سے ہسپتال میں تھے۔

عارف نظامی پاکستان کے مشہور صحافی حمید نظامی کے بیٹے تھے اور ایک سے زائد مرتبہ کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔

عارف نظامی کو ایک لبرل اور پڑھا لکھا معتبر صحافی سمجھا جاتا تھا جن کا شمار سابق وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں ’آزاد‘ ہونے والے میڈیا کے ان ایڈیٹروں میں کیا جاتا ہے جو اپنے ورکروں کے ساتھ ایڈیٹر سے زیادہ ساتھی کے طور پر پیش آتے تھے۔ انھوں نے اپنے رپورٹروں کو کام کرنے کی مکمل آزادی دی تھی اور خود بھی کافی انویسٹیگیٹیو رپورٹس کیں جن میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کی رپورٹ اور عمران خان کی طلاق کی رپورٹیں بہت مشہور ہوئیں۔ اپنی زندگی کے آخر میں انھوں نے ایک قابل تجزیہ نگار کے بہت شہرت حاصل کی۔ ان کے ہم عصر کہتے ہیں کہ عارف نظامی تنقید ضرور کرتے تھے لیکن وہ کبھی بد دیانتی پر مبنی نہیں ہوتی تھی۔

ان کے دوست اور سکول فیلو مجید شیخ کہتے ہیں کہ عارف ایک لبرل انسان تھے اور اگر ان کے والد صاحب اور ان کے اخبار کے حوالے سے بھی بات کی جائے تو وہ ’سینٹر آف رائٹ‘ میں ہی کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔

مزید پڑھیے:

’آئی اے رحمان پاکستانی صحافت میں مزاحمت کی عکاسی کرتے رہے‘

عمران خان، مودی، اردوغان اور محمد بن سلمان ’آزادی صحافت کے دشمنوں‘ کی فہرست میں شامل

مجید شیخ کہتے ہیں کہ عارف میرے دوست تھے اور ان کا ہمارے گھر آنا جانا تھا۔ ان کے والد نوائے وقت کے ایڈیٹر تھے اور میرے والد سول اینڈ ملٹری گیزیٹ کے۔ دونوں دو مختلف سمت کی سوچ رکھتے تھے لیکن دونوں ہی صحافت کو ایمان سمجھتے تھے۔ ’میں یہ کہوں گا کہ عارف بھی ایک دلچسپ امتزاج کی شخصیت کے مالک تھے۔ جو نہ تو کرپٹ تھے اور نہ ہی لفافہ جرنلسٹ۔ وہ تو اس میں کہیں فٹ ہی نہیں ہوتے تھے اور یہی ان کی کامیابی تھی۔‘

عارف نظامی نے صحافت کا آغاز اپنے والد حمید نظامی کے اخبار نوائے وقت سے ہی بطور رپورٹر کیا۔ حمید نظامی کی موت کے بعد 1962 میں مجید نظامی نوائے وقت کے ایڈیٹر بنے لیکن پھر 1969 میں انھوں نے اپنا اخبار ندائے ملت نکالا۔ عارف اور ان کے بھائی شعیب نوائے وقت چلاتے رہے اور ان کے چچا مجید نظامی ندائے ملت۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ندائے ملت اور نوائے وقت اکٹھے ہو گئے اور نوائے وقت کو ندائے ملت ہی چھاپتا رہا۔ مجید نظامی اس کے ایڈیٹر بنے، تاہم عارف نظامی اور مجید نظامی کی کبھی نہ بنی کیونکہ وہ اپنے چچا سے بالکل مختلف تھے۔

صحافی اکمل شہزاد گھمن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جو انھوں نے اپنی کتاب میڈیا منڈی میں چھاپا ہے عارف نظامی کہتے ہیں کہ ’میرا نوائے وقت کی پالیسی پر کوئی اختیار نہ تھا۔ لیکن میں ذاتی طور پر محترم مجید نظامی سے اختلافِ رائے کا اظہار کر دیتا تھا۔ چناچہ مجھ پر لیبل لگا دیا گیا کہ یہ نوائے وقت کے اندر ایک پپلیا ہے۔ حالانکہ ایسی بات نہیں تھی۔ بھٹو کے دورِ حکومت میں مجید نظامی صاحب خود مجھے بھٹو صاحب کے ساتھ مختلف دوروں پر بھیجتے رہے۔‘

جب یکم اکتوبر 1986 کو لاہور سے نجی انگریزی روزنامہ ’دی نیشن‘ نکلا تو عارف نظامی اس کے ایڈیٹر بنے۔ اس نئے انگریزی اخبار نے نوجوان صحافیوں کی بڑی تعداد کو تیار کیا جو بعد میں پاکستان کے متعدد اخباروں اور ٹی وی چینلوں کے ایڈیٹر بنے یا ان میں سینیئر عہدوں پر کام کرتے رہے اور کئی ایک اب بھی کر رہے ہیں۔ بی بی سی کے ثقلین امام بھی رپورٹروں کی اس نئی کھیپ کا حصہ تھے۔

ثقلین کہتے ہیں کہ عارف نظامی ہمیشہ اپنے رپورٹروں کو تحفظ فراہم کرتے تھے۔ کیونکہ وہ ضیا کا دور تھا اور ذرا سی بات پر کہیں نہ کہیں سے کوئی نوٹس آ جاتا تھا، لیکن عارف ہمیشہ اپنے رپورٹروں کا ساتھ دیتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے پروفیشنل معاملات میں آزادی دی اور اچھے سٹینڈرڈ برقرار رکھے۔

’خبروں کے حوالے سے بھی وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے کہ دباؤ میں آ کر کوئی خبر روک لی۔ یہ ان کی شخصیت کا حصہ نہیں تھا۔ وہ دھیمے مزاج سے وہی کرتے جو انھوں نے کرنا ہوتا تھا۔‘

عارف نظامی دی نیشن کی ٹیم کے ساتھیوں کے ہمراہ

عارف نظامی دی نیشن کی ٹیم کے ساتھیوں کے ہمراہ

بقول ثقلین آج کل کے دور میں ان کے مقابلے کا کوئی ایسا ایڈیٹر نہیں جو مالک بھی ہو لیکن اس کی پرواہ نہ کرے کہ فلاں خبر سے ان کے اخبار کے بزنس پر اثر پڑ سکتا ہے۔

دی نیشن اخبار کے ایڈیٹر ایم اے نیازی نے بی بی سی کو دیے گئے ایک پیغام میں کہا کہ ’عارف نظامی ایک محتاط ایڈیٹر تھے، جن سے میں نے سیکھا کہ آپ کسی سٹوری کو زیادہ دیر اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ ان کی فطری کوشش ہوتی تھی کہ کہانی کو چھاپ دیا جائے۔ تاہم جب ایک مرتبہ وہ اسے چھاپ دیتے تو جس نے بھی وہ فائل کی ہوتی اسے کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔ اور اچھی چیز یہ ہے کہ انھوں نے کبھی نوجوان رپورٹروں کو یہ نہیں بتایا تھا کہ انھوں نے ان کے لیے کیا کچھ برداشت کیا ہے۔‘

نیازی کہتے ہیں کہ جب میں زیادہ سینیئر ہوا تو تب ہی مجھے معلوم ہوا کہ انھوں نے کیا کچھ کیا تھا۔ ’میرا خیال ہے کہ یہ اس لیے کیا گیا تھا کہ صحافی خوفزدہ نہ ہو جائیں۔‘

اکمل شہزاد گھمن کہتے ہیں کہ وہ ایک نہایت وضعدار آدمی تھے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ ریڈیو پر تبصرے کے لیے انھیں بلایا اور جب کچھ دن بعد انھیں ایک چھوٹا سا 1200 یا 1400 روپے کا چیک بھیجا گیا تو انھوں نے ریڈیو کے اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں فون کر کے وہاں کے عملے کا شکریہ ادا کیا۔ چیک کے ساتھ جو لیٹر تھا اس پر اکاؤنٹس کے شعبے کا نمبر ہی درج تھا۔‘

اس طرح ایک اور مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنگ اخبار کے میر شکیل الرحمن اور عارف نظامی کا ننھیال ایک شہر وزیرِ آباد میں ہے اور اپنی پوری اخباری ’رائولری‘ کے باوجود دونوں آپس میں ملتے رہتے تھے۔ ’یہاں تک کہ جب عارف نظامی نے دی نیشن چھوڑا تو میر شکیل الرحمن ان سے اپنے اخبار میں کالم لکھواتے رہے۔

مجید نظامی کے ساتھ اختلافات کے بعد عارف نے دی نیشن سے علیحدہ ہو کر 2010 میں اپنا اخبار پاکستان ٹو ڈے نکالا اور اس کے ایڈیٹر بنے۔

سنہ 2013 میں بننے والی عبوری حکومت میں وہ اطلاعات کے وزیر بھی رہے۔

اس کے علاوہ وہ اپنی مصروف زندگی کے آخری وقت تک ٹی وی چینلوں پر ٹالک شوز کی میزبانی بھی کرتے رہے اور ان میں حصہ بھی لیتے رہے۔

ان کی وفات پر انھیں پورے ملک کے سیاسی اور سماجی حلقوں نے تعزیت اور خراج تحسین پیش کیا اور ان کا نام سوشل میڈیا پر ٹاپ 10 ٹرینڈ میں رہا۔

پرائم منسٹر عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ انھیں عارف نظامی کی موت کا دکھ ہوا ہے اور ان کی دعائیں ان کے خاندان والوں کے ساتھ ہیں۔

https://twitter.com/ImranKhanPTI/status/1417757662486450182

پاکستان بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے عارف نظامی کی موت پر غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لیے ایثالِ ثواب کی دعا مانگی ہے۔

https://twitter.com/OfficialDGISPR/status/1417817933829623809

پاکستان کی قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما شہباز شریف نے عارف نظامی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وفات کے ساتھ ہی صحافت کا ایک دور ختم ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ بحیثیت ایڈیٹر، صحافی اور اینکر کے کسی سے کم نہیں تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی عارف نظامی کے وفات پر تعزیت کا اظہار کیا۔

https://twitter.com/CMShehbaz/status/1417771012624637953

اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے کہا کہ عارف نظامی کی وفات پاکستان کا نقصان ہے۔ انھوں نے کہا کہ عارف نظامی ایک اچھے دوست، ممتاز صحافی اور زبردست انسان تھے۔

https://twitter.com/LodhiMaleeha/status/1417762309846540289

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عامر متین بھی دی نیشن کی ٹیم کا حصہ تھے۔ انھوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں عارف نظامی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’عارف نظامی صاحب کی موت پر بہت دکھ ہوا ہے۔ وہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک میرے ایڈیٹر رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ ایک ساتھ صحافی کے طور پر رہنے کی کوشش کرتے تھے اور کبھی بھی مالک کی طرح برتاؤ نہیں کیا۔ صحافیوں کی ایک کامیاب کھیپ نے ان کی ادارت میں اپنے کیریئرز کا آغاز کیا ہے۔‘

https://twitter.com/AmirMateen2/status/1417847493254160386

صحافی اور تجزیہ نگار قدسیہ اخلاق کہتی ہے کہ وہ بہت قابل ایڈیٹر تھے اور رپورٹر کی سٹوری کے لیے لڑ جاتے تھے اور نئے رپورٹروں کی خصوصاً حوصلہ افزایی کرتے تھے۔ ’ایک مرتبہ جب میں نے پی آئی اے کی حج فلائٹس پر ایک سٹوری کی جس میں طیاروں میں آکسیجن کے ماسک کام نہیں کر رہے تھے تو پی آئی اے کو بہت برا لگا۔ جب انھوں نے کہا کہ کہانی سے قومی ایئر لائن کی ساکھ متاثر ہوئی ہے تو عارف صاحب نے کہا کہ انھوں نے خود اپنے ذرائع سے تحقیق کرائی تھی کہ یہ بالکل ٹھیک کہانی ہے اور ان کے خراب آلات کہانی سے زیادہ ساکھ تباہ کر رہے تھے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp