نکولائی چوشیس: دن میں بیس مرتبہ الکوحل سے ہاتھ دھونے والے ’سفاک آمر‘ جن کا انجام انتہائی افسوسناک ہوا

ریحان فضل - بی بی سی ہندی، دہلی


نکولائی چوشیس

نکولائی چوشیس

ساٹھ کی دہائی میں رومانیہ میں نکولائی چوشیس جو مظالم ڈھا رہے تھے اگر آج آپ کو ان کی تفصیلات سُنائی جائیں تو شاید آپ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آئے گا۔

25 سال تک انھوں نے ملکی میڈیا کو مکمل طور پر اپنے قابو میں رکھا صرف یہی نہیں انھوں نے ملک میں کھانے پینے کی اشیا، مشروبات، تیل اور پانی کے ساتھ ساتھ ادویات کی درآمد پر بھی پابندی عائد کر دی تھی جس کے نتیجے میں رومانیہ کی عوام فاقہ کشی کا شکار ہوئی اور ہزاروں شہری مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوئے۔

اُن کے دور میں ملک کی خفیہ پولیس، جسے ’سیکیوریٹ‘ کہا جاتا تھا، لوگوں کی نجی زندگیوں کی جاسوسی کرتی تھی۔

نکولائی رومانیہ میں ’کنڈکٹر‘ کے نام سے معروف تھے جس کا مطلب ہے ’رہنما‘ جبکہ ان کی اہلیہ الینہ کو ’مدر آف دی نیشن‘ یعنی مادر ملت کہا جاتا تھا۔

رومانیہ کے باشندے نکولائی کے سائے سے بھی خوفزدہ

चाचेस्कू

رومانیہ میں بطور انڈیا کے سفیر تعینات رہنے والے راجیو ڈوگرا نے رومانیہ کے اُس معاشرے کو بہت قریب سے دیکھا ہے جب نکولائی یہاں سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ جب راجیو کی تعیناتی رومانیہ میں بطور انڈین سفیر ہوئی تو اگرچہ اُس وقت نکولائی کی ڈکٹیٹرشپ کو ختم ہوئے دس برس بیت چکے تھے مگر وہ بتاتے ہیں کہ پھر بھی وہاں کے لوگوں میں نکولائی کے نام کو لے کر عجیب سا خوف اور دہشت تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میں عہدہ سنبھالنے رومانیہ پہنچا تو دیکھا کہ لوگ اپنے سایوں سے بھی خوفزدہ نظر آتے تھے۔ شہری سڑکوں پر چلتے ہوئے آگے پیچھے اِس متجسس انداز میں دیکھتے جیسے کوئی اُن کا پیچھا یا جاسوسی کر رہا ہو۔‘

وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’لوگوں کو مسلسل یہ پریشانی لاحق ہوتی تھی کہ جب وہ پارک میں ہوتے ہیں تو کوئی اُن پر نظر تو نہیں رکھے ہوئے ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ نکولائی کے دورِ اقتدار میں پارک میں بینچز پر بیٹھ کر اخبار پڑھنے والے شہری اخبار کے ہر صفحے میں چھوٹا سا چھید یا سوراخ کر لیتے تھے تاکہ وہ اخبار پڑھتے ہوئے بھی اپنی جاسوسی کرنے والوں کی پارک میں نقل و حمل سے مطلع رہ سکیں۔‘

گھر کی کھڑکیوں کو کھلا رکھنے کا حکم

رومانیہ کی ایک شہری کارمین بگن کے والد نکولائی کے شدید مخالف تھے۔

10 مارچ 1982 کو اُن کے گاؤں میں واقع گھر پر خفیہ پولیس نے چھاپہ مارا اور اگلے پانچ برسوں تک سرکاری جاسوسوں نے اُن کے پورے خاندان پر نگاہ رکھی۔ نہ صرف یہ بلکہ اہلخانہ گھر میں رہتے ہوئے کیا بات کرتے ہیں اس کو بھی ریکارڈ کیا جاتا تھا۔

اپنے گھر پڑنے والے چھاپے کے بارے میں کارمین بگن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب میں سکول سے گھر پہنچی تو میرے گھر میں ہر جگہ پولیس موجود تھی۔ وہ ہمارے گھر میں ہر جگہ مائیکرو فون چھپا رہے تھے تاکہ ہماری باتیں سُن سکیں۔ وہ میرے والدین کی سگریٹ پی رہے تھے اور بغیر پوچھے کافی بنا بنا کر پی رہے تھے۔‘

’مجھے اُس وقت پتہ نہیں تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ میرے والد نے نکولائی کے خلاف مواد پر مبنی کتابچے تقسیم کیے تھے۔ اس وقت میرے والد اس کے خوف سے انڈر گراؤنڈ تھے جبکہ میری والدہ ہسپتال میں تھیں۔‘

’وہ ہمارے گھر سے کھانے پینے کی تمام اشیا سمیٹ کر لے گئے اور اگلے ایک ہفتے تک ہم نے صرف پانی پر گزارہ کیا۔‘

’ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ گھر کی کھڑکیاں کُھلی رکھیں، اس سے قطع نظر کہ باہر کتنی سردی ہے، ایسا کرنے کا مقصد ہم پر نگاہ رکھنا تھا۔ جب میں سکول جاتی تھی تو ایک جاسوس میرا پیچھا کرتا۔ مجھے اب بھی اس کا براؤن کوٹ اور ٹوپی یاد ہے۔‘

اہلیہ الینہ

نکولائی کی اہلیہ الینہ کو ‘مدر آف دی نیشن’ یعنی مادر ملت کہا جاتا تھا

تصاویر لینے والوں کے لیے احکامات

نکولائی پست قامت انسان تھے۔ ان کا قد محض پانچ فٹ چار انچ کے لگ بھگ تھا۔ انھوں نے تمام فوٹو گرافروں کو اپنی تصاویر ایسے انداز میں اُتارنے کا حکم دے رکھا جس میں اُن کا قد دراز نظر آئے۔

جب وہ ستر سال کے تھے تب بھی ذرائع ابلاغ میں ان کی وہ تصاویر چلائی جاتیں جو 40 برس کی عمر میں بنائی گئی تھیں۔ ان کی اہلیہ ایلینا کو یہ پسند نہیں تھا اُن کے شوہر کسی خوبصورت خاتون کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر بنوائیں۔

ایلینا 14 سال کی عمر میں متعدد مضامین میں فیل ہونے کے بعد سکول چھوڑ گئی تھیں۔ لیکن رومانیہ کی خاتون اول بننے کے بعد انھوں نے اعلان کیا کہ انھوں نے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔

اربوں ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والی دنیا کی دوسری سب سے بڑی عمارت

نکولائی

نکولائی رومانیہ کو ایک عالمی طاقت بنانا چاہتے تھے۔ نکولائی کا خیال تھا کہ عالمی طاقت بننے کے لیے ملک کی آبادی بھی بڑی ہونی چاہیے اور اسی خیال کے پیش نظر انھوں نے ملک بھر میں اسقاط حمل پر پابندی عائد کر دی تھی۔

طلاق کے عمل کو جان بوجھ کر مشکل بنا دیا گیا تاکہ معاشرے میں زیادہ طلاقیں نہ ہوں اور بچوں کی پیدائش کا عمل جاری رہے۔ نکولائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چونکہ وہ خود پست قامت تھے مگر انھیں بلند و بالا چیزیں کافی پسند تھیں۔

انھوں نے اربوں ڈالر کی لاگت سے بخارسٹ میں ’پیپلز ہاؤس‘ کی عمارت تعمیر کروائی۔ یہ عمارت اتنی وسیع اور بڑی تھی کہ اس کی تعمیر کے پچیس برس بعد بھی اس کے 70 فیصد کمرے خالی تھے، یعنی زیر استعمال نہیں تھے۔

اس عمارت کو تقریباً 15 ہزار مزدوروں نے تین شفٹوں میں دن رات کام کر کے تعمیر کیا تھا۔ نکولائی کو اس عمارت میں بہت دلچسپی تھی اور بعض اوقات وہ دن میں تین، تین مرتبہ تعمیراتی کام کا معائنہ کرنے چلے آتے۔

جان سوینی نے نکولائی کی خود نوشت ’دی لائف اینڈ ایول ٹائمز آف نکولائی‘ میں لکھا ہے کہ ’اس عمارت پر کام کرنے والے 15 ہزار کارکنوں کے لیے کوئی بیت الخلا تعمیر نہیں کیا گیا تھا لہذا کارکن زیر تعمیر عمارت میں ہی رفع حاجت کر لیتے جس کی وجہ سے پوری عمارت سے بدبو اٹھتی رہتی تھی۔ رفع حاجت کے لیے کارکنوں نے ایک کونہ مختص کر رکھا تھا۔‘

ایک روز اطلاع دی گئی کہ نکولائی عمارت کے اس حصے کی طرف آ رہے ہیں جہاں مزدور رفع حاجت کرتے تھے۔ نکولائی نے وہاں دیکھا کہ پورا حصہ غلاظت سے بھرا ہوا تھا اور تھوڑی سی غلاظت نکولائی کے جوتے پر بھی لگ گئی۔

یہ دیکھ کر کچھ کارکن مسکرا دیے۔ لیکن جب سیکیورٹی پولیس نے انھیں غصے سے دیکھنا شروع کیا تو وہ بغلیں جھانکنے لگے۔

’ایک سکیورٹی گارڈ نے نکولائی کے جوتوں پر سے گندگی صاف کرنا شروع کر دی مگر جو گندگی جوتے کے نیچے لگی تھی وہ صاف نہ ہو سکی۔ نکولائی نے اپنے گندے جوتوں سمیت اپنی کار کا رخ کیا۔ وہ جہاں بھی قدم رکھتے جاتے وہاں گندگی کے آثار بنتے جاتے۔ لیکن کسی کو ہنسنے یا انھیں آگاہ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔‘

دن میں بیس بار شراب سے ہاتھ دھوتے

चाचेस्कू

جان سوینی لکتھے ہیں کہ ’اپنی ذاتی زندگی میں نکولائی حفظان صحت کے اصولوں کو لے کر پاگل تھے۔ وہ دن میں بیس بار شراب سے ہاتھ دھوتے تھے تاکہ انفیکشن سے محفوظ رہ سکیں۔‘

’عمارت میں پیش آئے اس واقعے کے بعد خفیہ پولیس نے پورے معاملے کی چھان بین کی۔ لیکن یہ واضح نہیں ہوا کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے۔ لہذا حکام کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کہیں بھی واقعے کا تذکرہ نہ کریں۔‘

سوویت یونین کی براہ راست مخالفت

نکولائی اگرچہ سوویت کیمپ میں تھے مگر وہ ہمیشہ ایسے عالمی رہنماؤں کو اپنے ملک میں دعوت دیتے جو سوویت یونین پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔

سنہ 1966 میں انھوں نے اس وقت کے چینی وزیر اعظم کو اپنے ملک میں مدعو کیا اور پھر سنہ 1967 میں امریکہ کے مستقبل کے صدر رچرڈ نکسن کو مدعو کیا۔

’ہاؤ ٹو بی اے ڈکٹیٹر‘ کے مصنف فرینک ڈکٹر لکھتے ہیں کہ ’سوویت یونین نے کمیونزم کے خلاف بغاوت کو روکنے کے لیے چیکو سلوواکیا پر حملہ کیا تھا اور یہی وقت نکولائی کی زندگی کا ایک اہم لمحہ تھا۔‘

بلغاریہ، پولینڈ اور ہنگری نے سوویت یونین کی حمایت کے لیے فوج بھیجنے کا وعدہ کیا تھا لیکن رومانیہ نے سوویت یونین کا ساتھ نہیں دیا۔

’جب سوویت ٹینک حملے کے لیے پراگ میں داخل ہوئے تو نکولائی نے پیلس سکوائر میں ایک بڑی میٹنگ کی۔ انھوں نے سویت یونین کے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ اس کے بعد ایسا لگا جیسے وہ راتوں ہیرو بن گئے تھے۔‘

جب نکولائی چین گئے تو وہاں موجود تمام بڑے رہنماؤں نے اُن کا ایئرپورٹ پر استقبال کیا۔ سڑک کے دونوں اطراف ہزاروں افراد ان کو خوش آمدید کرنے کے لیے کھڑے تھے۔

بیجنگ کے تیانمین سکوائر میں ان کے لیے جمناسٹکس کا ایک بڑا شو بھی منعقد کیا گیا۔ لیکن ہٹلر کے پہلے دورے کی طرح چین میں بھی یہ سب کچھ ایک تماشا تھا، جسے نکولائی نے محسوس نہیں کیا۔

چین سے واپسی پر نکولائی نے اپنے ملک میں ایک نیا ثقافتی انقلاب برپا کرنا شروع کیا۔ اس نے میڈیا پر پابندیوں میں نرمی کر دی تھی۔ اس کے بعد کچھ غیر ملکی پروگرام بھی ٹی وی پر دکھائے گئے۔ لیکن یہ سب برائے نام تھا کیونکہ انھوں نے یہ واضح کر دیا تھا کہ لینن اور مارکسزم ان کی سوشلسٹ سوچ رکھنے والی حکومت میں غالب ہو گا۔

بڑے نام

امریکی صدر نیکسن کے ساتھ

امریکی صدر نکسن کے ساتھ

نکولائی نے اپنے بارے میں جانتے بوجھتے بہت سی افواہیں پھیلا رکھی تھیں۔ ان کی سوانح عمری میں لکھا گیا کہ وہ ایک انتہائی غریب گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ افواہ بھی پھیلائی گئی کہ وہ ننگے پاؤں سکول جایا کرتے تھے۔

ان کی سوانح عمری 1972 میں لندن میں ڈونلڈ چالوف نے شائع کی تھی۔ اس کتاب کی مدد سے نکولائی کو اپنے بارے میں مزید افواہیں پھیلانے میں مزید مدد ملی۔

کچھ میڈیا اداروں نے نکولائی کی چاپلوسی کرتے ہوئے ایسی باتیں پھیلائی۔ رومانیہ کے معروف اخبار نے بھی نکولائی کو رومانیہ کا جولیس سیزر، نپولین ، گریٹ پیٹر اور لنکن کہا۔

ان کی 60 ویں سالگرہ کے موقع پر رومانیہ کے ایک اور سیاست دان کونسٹنٹن پیرولیوسکو نے انھیں ’تاریخ کا سب سے مقبول قائد‘ کا خطاب پیش کیا۔

اس کی چابلوسی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ اس کا نام بڑے خطوط (کیپیٹل لیٹرز) میں لکھا جاتا تھا۔ انھیں دو بار رومانیہ کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ سے نوازا گیا۔

ملکہ کے ساتھ بگھی میں

ڈکٹیٹر

ملکہ برطانیہ کے ہمراہ

نکولائی نے سنہ 1979 میں انگلینڈ کا دورہ کیا۔ ان کی میزبانی بکنگھم پیلس میں کی گئی تھی۔

لیکن وہاں نکولائی کی خفیہ پولیس ’سیکیوریٹ‘ نے انھیں پیش کیے جانے والے کھانے کو چیک کرنے کی کوشش کی جس سے کسی حد تک عجیب و غریب صورتحال پیدا ہو گئی۔

جان سوینی کے مطابق ’بظاہر نکولائی کا دورہ کامیاب رہا کیونکہ ملکہ نے انھیں پوائنٹ 270 بور کی رائفل پیش کی اور ان کی اہلیہ ایلینا کو سونے اور ہیروں کی جیولری دی۔‘

جان سوینی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ ’بکنگھم پیلس اس وقت سے لے کر آج تک اپنی مہمان نوازی کے لیے مشہور رہا ہے۔ لیکن وہاں بھی ہر ایک کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ نکولائی سب سے ہاتھ ملانے کے بعد شراب سے ہاتھ دھوتے تھے۔‘

’اس مقصد کے لیے نکولائی کے کمروں کے تینوں باتھ رومز میں شراب کی ایک بوتل رکھی گئی تھی۔‘

انگلینڈ کی ملکہ کا عدم اطمینان

سوینی نے لکھا ’یہاں تک کہ ملکہ الزبتھ کو جلد ہی احساس ہوا کہ وہ کسی اور ہی نوعیت کے شخص کی میزبانی کر رہی ہیں۔‘

’ایک صبح نکولائی اپنی ایک ٹیم کے ساتھ بکنگھم پیلس کے باغ میں سیر کے لیے گئے کیونکہ انھیں شبہ تھا کہ محل کے کمرے میں ان کا ہر لفظ ٹیپ کیا جا رہا ہے۔ لہذا وہ اپنے ساتھیوں سے بات کرنے باغ میں گئے۔‘

پابندیاں

रोमानिया

مجموعی طور پر رومانیہ کے عوام کے لیے نکولائی کا دور حکومت انتہائی مشکل تھا۔ لوگوں کو ہر چیز کے لیے لائن لگا کر کھڑا ہونا اور انتظار کرنا پڑتا تھا۔ یہاں تک کہ قصائیوں کی دکانوں کے باہر بھی لائنیں لگی ہوتی تھیں۔

عام لوگوں کے لیے شراب حاصل کرنا مشکل تھا کیونکہ یہ چند ایک ریستورانوں میں دستیاب تھی۔

’سب سے بڑا مسئلہ بجلی کا تھا۔ اگر تین بلب ہیں کسی جگہ تو ان میں سے صرف ایک کو جلانے کی اجازت تھی۔ اتوار کے روز پبلک ٹرانسپورٹ کے چلنے پر پابندی عائد تھی۔‘

’اچانک ہی انھوں نے ایک ساتھ ملک پر چڑھے تمام قرضوں کی ادائیگی کرنے کا فیصلہ کیا۔ سوویت یونین کو گوشت کی برآمدات دو سال میں تین گنا بڑھ گئیں۔ پھل، سبزیاں اور شراب سب غیر ملکی منڈیوں میں بھیج دی گئی۔‘

’کھانے پینے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ بجلی کی کھپت بھی کم کر دی گئی تھی۔ لوگوں کو سردی کے موسم میں گھروں کو گرم رکھنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔‘

لوگ پیچھے تنقید کرنے لگے

ملک میں نکولائی کی شخصیت کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شروع کر دیا گیا کہ ہر سکول کی درسی کتاب کے سامنے والے صفحے پر اُن کی ایک تصویر شائع کرنا مجبوری تھی۔

ٹی وی پر صرف ایک چینل آتا تھا جس پر ان کی کامیابیوں کی دن رات تعریف کی جاتی۔

ان کی تقاریر کا ایک مجموعہ کتابوں کی دکانوں اور میوزک سٹورز میں رکھنا ضروری تھا۔

دوسری جانب ان کی اہلیہ فیصلہ کرتی تھیں کہ جب دو فٹ بال ٹیموں کے مابین میچ ہو گا تو کون جیتے گا۔

’بظاہر ہر کوئی نکولائی کی تعریف کر رہا تھا مگر ڈھکے چھپے الفاظ میں اب لوگ تنقید کرنے لگے تھے۔‘

21 دسمبر 1989 کو آخری تقریر

चाचेस्कू

17 دسمبر 1979 کو رومانیہ کی فوج نے تیمسوارا میں ہونے والے ایک مظاہرے کے شرکا پر فائرنگ کر دی جس میں جانی نقصان ہوا۔

21 دسمبر 1989 کو نکولائی نے بخارسٹ میں ایک سٹریٹجک مقام پر پارٹی کے صدر دفاتر کی بالکونی پر کھڑے ہو کر ایک ریلی سے خطاب کیا۔ لیکن تقریر شروع ہونے کے فورا بعد ہی مجمے سے سیٹیوں کی آوازیں آنے لگیں۔

نکولائی نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مائیک کو ’ٹیپ‘ کر کے لوگوں کو پُرسکون رکھنے کی کوشش کی لیکن مجمعے کے پچھلے حصے میں ہنگامہ جاری رہا۔

یہ دیکھ کر نکولائی بھی حیران ہوئے۔ ان کی اہلیہ الینا نے بھیڑ کو قابو کرنے کی کوشش کی اور بار بار چیخ کر کہا ’پُرسکون رہو، تمہیں کیا ہوا ہے؟‘

لیکن اس کا مجمعے پر بہت کم اثر ہوا۔ اس کے فوراً بعد ہی جلسہ گاہ میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔

انقلاب کا آغاز

تقریر براہ راست ٹی وی پر دکھائی جا رہی تھی۔ جیسے ہی یہ منظر ختم ہوا لوگوں کو احساس ہوا کہ انقلاب شروع ہو چکا ہے۔

اس کے بعد ملک بھر سے لوگ اس تحریک میں شامل ہوئے۔ سرکاری عمارتوں اور دفاتر پر حملے ہر جگہ سے شروع ہو گئے۔ نکولائی کی تصاویر اور مجسموں کو توڑا جا رہا تھا۔

نکولائی نے بغاوت کو ختم کرنے کے لیے اپنی خفیہ پولیس کو احکامات دیے لیکن وہ شورش کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

لفٹ میں پھنسنے کا واقعہ

اگلے ہی دن ملک کی فوج بھی عوامی بغاوت میں شامل ہو گئی۔ مشتعل مظاہرین نے پارٹی ہیڈ کوارٹر کا محاصرہ کرنا شروع کر دیا۔ نکولائی اور ان کی اہلیہ ایلینا کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرار ہونا پڑا۔ لیکن اس سے پہلے ایک بڑا ڈرامہ ہوا۔

نکولائی لفٹ سے عمارت کی چھت تک گئے جہاں ایک ہیلی کاپٹر تیار کھڑا تھا۔ سوینی لکھتے ہیں کہ ’جیسے ہی وہ لفٹ میں داخل ہوئے، ان کے آرمی چیف جنرل اسٹینکولوسکو وزارت دفاع کی طرف روانہ ہو گئے۔‘

’آرمی چیف نے اپنی کار میں بیٹھ کر سکیورٹی فورسز کو عمارت کی حفاظت نہ کرنے کا حکم دیا جس کے بعد مظاہرین عمارت میں داخل ہو گئے۔ لیکن مظاہرین کو یہ معلوم نہیں تھا کہ نکولائی ابھی بھی عمارت میں موجود ہیں کیونکہ وہ چھت تک جانے والی لفٹ میں پھنس چکے تھے۔‘

’بلآخر کئی کوششوں کے بعد نکولائی اور ان کے ساتھی لفٹ کا دروازہ توڑنے میں کامیاب ہوئے۔ جیسے ہی مظاہرین عمارت کی چھت پر پہنچے تو ایک ہیلی کاپٹر چھ افراد کو لے کر پرواز بھر چکا تھا۔ لیکن ہیلی کاپٹر میں اتنی کم جگہ تھی کہ پائلٹ کے شریک پائلٹ کو نکولائی کی گود میں بیٹھنا پڑا۔‘

चाचेस्कू

افسوسناک انجام

پائلٹ نے ہیلی کاپٹر کو دارالحکومت بخارسٹ کے باہر ایک کھیت میں اُتارا۔ نکولائی اور ان کی اہلیہ کے ہمراہ ان کے محافظ بھی تھے۔

مگر اسی روز نکولائی اور ان کی اہلیہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ دونوں پر کرسمس کے روز فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور انھیں سزائے موت سُنائی گئی۔

انھیں ہتھکڑی لگا کر دیوار کے سامنے کھڑا کر دیا گیا تھا، اس سے قبل کہ دونوں کو الگ الگ گولی مار کر ہلاک کیا جاتا نکولائی کی اہلیہ نے اپنے شوہر کے ساتھ، ایک ساتھ مرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

اس کے بعد فائرنگ سکواڈ کے نشانہ بازوں نے اپنا نشانہ لیا اور نکولائی کی رومانیہ پر 25 سالہ سفاکانہ آمریت کا خاتمہ کر دیا۔

کارل مارکس نے بجا طور پر کہا تھا کہ ’افراد اپنی تاریخ خود بناتے ہیں، لیکن تاریخ ان کی پسند کے مطابق کبھی نہیں بنتی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp