عید کی خوشیوں کے متلاشی بچے



کل عید ہے، عید الاضحٰی۔ اسے بڑی عید بھی کہا جاتا ہے۔ یہ حضرت ابراہیم کی اس قربانی کی یاد دلاتی ہے جب وہ حضرت اسماعیل کو خواب کے مطابق قربان کرنے لے گئے مگر ان کی جگہ دنبہ قربان ہو گیا۔ دنیا بھر میں مسلمان اس دن قربانی کر کے سنت ابراہیمی کی تکمیل کرتے ہیں۔

عید کا دن میل ملاپ کا دن ہوتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے ہاں عید ملنے آتے جاتے ہیں۔ خوشیاں مناتے ہیں۔ شہروں میں رہنے والے عید اپنوں میں منانے کے لیے دور دراز دیہاتوں میں واپس لوٹ آتے ہیں۔ ہر طرف ایک جشن کا سا سماں ہوتا ہے۔ خصوصاً بچوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ کوئی اگر پردیش میں ہو تو دل غمگین سا ہو جاتا ہے کہ روزی روٹی کے چکر میں عید کا دن بھی اپنوں کے ساتھ نا گزار سکا۔ لیکن ان کو ایک یقین اور امید ہوتی ہے کہ اس سال نہیں تو اگلے سال وطن واپس جا کے عید اپنے پیاروں کے ساتھ منا لیں گے۔

لیکن اس خداداد مملکت پاکستان میں دسیوں گھرانے ایسے ہیں جن کے بچے، بزرگ اور خواتین کئی مہینوں اور سالوں سے اپنے پیاروں کی واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ دستک ہو تو بھاگ کے دروازہ کھولا جاتا ہے واپس آ گئے ہوں اور ہر مرتبہ دل کو جھوٹی سچی تسلی دے کے واپس لوٹنے پر مجبور کرنا ہوتا ہے۔

آج تک کئی احتجاجات، بھوک ہڑتال اور لانگ مارچ کے باوجود گمشدہ افراد کا مسئلہ حل نہیں ہو پایا۔

کچھ جبری لاپتہ افراد تو اپنے گھروں کے سربراہ تھے اور ان کے اہل خانہ کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بچے اپنے والد کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

ایک جبری لاپتہ سردار تنویر حیدر ہیں۔ تنویر حیدر سرگودھا کے رہائشی تھے اور ایک ویب سائٹ سے وابستہ تھے۔ نہایت شریف النفس، دھیما مزاج اور محب وطن پاکستانی ہیں۔

31 مارچ کی رات اچانک چادر و چاردیواری کا تقدس پامال کر کے چند نامعلوم افراد انہیں ساتھ نامعلوم مقام پر لے جاتے ہیں۔ چوتھا ماہ ختم ہونے کو ہے لیکن ابھی تک کوئی اتا پتہ نہیں کہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ بچوں نے عیدالفطر بھی والد کے بغیر منائی اور اب بڑی عید آ گئی لیکن ابھی تک ان کے والد نہیں لوٹے۔ معصوم بچے والد کی واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ بچوں سے ان کی خوشیاں تو نا چھینیں۔ دوسری عید والد کے بغیر اور وہ بھی ایسے کہ معلوم نہیں کس حال میں ہیں۔ اور نا ہی ان کی کوئی خیر خبر ہے۔

کسی کو محض شک کی بنیاد پر اٹھا کر چند مہینوں یا سال ڈیڑھ کے لیے لاپتہ کر دینا اور پھر اس کے بعد کہنا کہ جی آپ بے قصور ہیں یہ کہاں کا قانون ہے؟

ادارے ہی آئین کی دھجیاں اڑانے کے درپے ہیں۔

مولا علی نے فرمایا تھا کہ حکومت کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔ اگر ان کا کوئی قصور ہے تو مقدمہ چلائیں، عدالت میں پیش کریں لیکن اس طرح غائب کر لینا انصاف، عدالت اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments