انڈس ”رورس“ سسٹم اتھارٹی؟


قرآن کریم میں انسانوں سمیت تمام جانداروں کی تخلیق کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کئی بار ارشاد فرمایا ہے کہ، ”ہم نے انسانوں کو پانی اور مٹی سے پیدا کیا ہے۔“ موجودہ دور میں خاصی تحقیق اور ترقی کے بعد سائنسدان بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسانوں سمیت تمام جاندار انہی عناصر سے مرتب و مرکب ہیں جن سے کہ یہ زمین، چاند ستارے اور کائنات میں گردش کرتی دھول کی ترکیب و ترتیب کی گئی ہے۔ یہی سبب ہے کہ انسان کو بھی ایک چھوٹی سی کائنات قرار دیا جاتا ہے۔

البتہ ان عناصر کے علاوہ جانداروں کے اجزائے ترکیبی میں سب سے زیادہ جو عنصر شامل ہے وہ ہے پانی جو کہ حقیقت میں دو عناصر آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مجموعہ ہے۔ ہر جاندار کے جسم میں پچاس سے 90 فی صدی تک پانی شامل ہے۔ جب کہ زمین اور ارضیاتی ماحول میں بھی پانی وافر مقدار میں موجود ہے۔ 66 فی صدی سے بھی زیادہ! نہ صرف دریاؤں اور سمندروں میں بلکہ فضا میں بھی نمی یا بخارات کی صورت میں ‏ خاصا پانی موجود ہے یہاں تک کی صحراؤں کے فضا میں بھی۔

جہاں کہ فضا سے پانی کے حصول کے منصوبے تک بنائے جا رہے ہیں۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ پانی اور ہوا جیسی نعمتیں فی الحال زمین کے علاوہ اور کہیں دریافت نہیں ہوئیں۔ لیکن اس کے باوجود دنیا موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل سمیت کئی وجوہ سے پانی کی قلت کی شکار ہے۔ جن میں کہ انسانی حرص و ہوا اور ہوس نیز بدانتظامی و بدنیتی یہاں تک کہ ترقی اور تجاوز ترقی (اوور ڈویلپمنٹ؟ ) ایسے معاملات بھی شامل ہیں۔

اس وقت نیل طاس، میکونگ طاس، سندھ طاس سمیت دنیا کے مختلف علاقوں میں پانی کے سلسلے میں چھوٹے بڑے تنازعات موجود ہیں۔ جو کسی وقت بھی دنیا کے امن کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔

پاکستان، کہ جسے نامور ماہر آثار قدیم احمد حسن دانی سندھو سبھیتا کا بچہ قرار دیتے ہیں، جیسا کہ مصر کو نیل کی تہذیب کا بچہ قرار دیا جاتا ہے، اس ”بچے“ کے پاس الحمدللہ آبی وسائل کی کوئی بھی قلت نہیں، دریائے سندھ سمیت کتنے ہی دریا اور کینجھر سمیت کتنی ہی جھیلیں ندی نالے اہم آب گاہوں کے طور پر موجود ہیں لیکن اس کے باوجود سندھو کے اس بچے کے وارثوں کی ”طفلانہ“ پالیسیوں کے سبب بھارت سمیت دیگر پڑوسی ملکوں سے آبی تنازعات موجود ہیں جب کہ ملک کے اندر بین الصوبائی اور علاقائی تنازعات بھی کم نہیں ہیں۔ جن سب کا سبب پانی کی قلت نہیں بلکہ آبی معاملات کا عدم فہم، وسائل کی تقسیم میں بدانتظامی، نا انصافی اور باہمی اعتماد کی کمی ہے۔ ان سب کا ہی نتیجہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں فی کس صرف 800 میٹر پانی دستیاب ہے جبکہ 1950 ع میں فی کس میسر پانی کی مقدار 5000 میٹر تھی۔

آبی معاملات کے عدم فہم کا سب سے بڑا ثبوت یہ غیر سائنسی تصور ہے کہ سمندر میں گرنے والا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ یہ بنیادی اختلاف ہے جو کہ خاص طور پنجاب اور باقی صوبوں کے عوام و خواص ‏میں پایا جاتا ہے۔ نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں یہ تصور عام ہے کہ جو پانی آبپاشی یا شہری استعمال میں نہ آ کر سمندر میں بہ جاتا ہے وہ ضائع ہو جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سمندر میں جانے والا پانی حیاتیاتی اور ماحولیاتی نظام کے لیے کثیر فوائد کا ضامن ہے۔ جن عمومی، اہم، مستقل اور طویل المیعاد فوائد کو عام طور پر فوری فوائد اور عارضی مفادات کی بنا پر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

یو ایس جیولوجیکل سروے کے مطابق دریاؤں کا پانی سمندر میں داخل ہوتا ہے تو ساحلی آبادیاں، ڈیلٹا اور مرطوب زمینوں کو بہت سے فوائد نصیب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کسی ڈیلٹا کی اردگرد بستے ہیں تو دریا کا پانی سمندر کی نمکین پانی کو دریا میں داخل ہونے سے روکتا ہے۔ اگر دریا کا بہاؤ کم زور ہے تو اس صورت میں ڈیلٹا کا پانی بہت زیادہ کھارا ہو جاتا ہے۔ اور یہ پینے یا آبپاشی کے لائق نہیں رہتا۔

اسی طرح دریائی پانی میں رسوبات یا گاد بھی شامل ہوتا ہے جو کہ ایکو سسٹم خصوصاً مستحکم مدوجزر اور دلدلوں کے لیے اہم ہے۔ جس سے کہ نہ صرف آبی پیڑ پودے پیدا ہوتے ہیں بلکہ اسی کی وجہ سے آبی حیات اور کئی قسم کے جانور اور آبی پرندے بھی پنپ پاتے ہیں۔ حیاتیاتی تنوع قائم رہتا ہے اور انسانی وجود بھی محفوظ رہتا ہے۔ سو اگر سمندر میں دریا کا پانی نہیں چھوڑا جاتا اور دریا کا فطری بہاؤ روکا یا موڑا جاتا ہے تو ساحل اور ساحلی علاقے غرق ہو سکتے ہیں۔ جس سے نہ صرف ماحولیاتی نقصان اور موسمیاتی تبدیلیوں کی رفتار بڑھ جاتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر انسانی آبادیاں تباہ برباد ہونے لگتی ہیں۔

سمندر میں پانی کے چھوڑنے کی اہمیت کشش ثقل سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ کشش ثقل ختم ہو جائے تو نظام ارض درہم برہم ہو جائے اور سمندر میں پانی نہ چھوڑا جائے تو ماحولیاتی تباہی لازم ہے۔

جیسا کہ ہم سندھ میں اب بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ٹھٹہ اور بدین کے کتنے ہی ساحلی علاقے سمندر میں غرق ہو چکے ہیں اور کئی بستیاں برباد ہو چکی اور دیگر پسپائی اختیار کرتی کرتی خاتمے کی طرف گامزن ہیں۔

جب کہ دریائی پانی کی بہاؤ سے ہونے والی مزاحمت میں کمی کی وجہ سے سطح سمندر پر کائی کی پیداوار بڑھ جاتی ہے اور اس کی موٹی موٹی تہوں کی وجہ سے آبی حیات تک روشنی اور آکسیجن کی رسائی نہ ہونے سے کتنی ہی جانی انجانی مخلوقات معدوم ہوجاتی ہیں، جو عمل بہرحال مجموعی طور پر نہ صرف آبی حیات بلکہ انسانی حیات کے لیے بھی ایک بہت بڑا سانحہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جب کہ یہ عمل اسی جگہ محدود نہ رہتے ہوئے دیمک کی طرح بڑھتا رہے گا تا آنکہ سمندر اپنے راستے میں موجود خشکی اور بستیوں کو نہ نگل لے یا شاید دریا سمندر ایک نہ ہو جائیں۔

اسی طرح یہ خیال کے بڑے ڈیم بجلی کی پیداوار اور پانی کی ذخیرہ اندوزی کے لیے ضروری ہیں۔ محض قیاس و افسانہ ہے۔ اس سے فائدہ صرف سیمنٹ سریا بیچنے والوں کو ہوگا یا ٹھیکیدار صاحبان کو۔ جب کہ بجلی کی پیداوار اور پانی ذخیرہ کرنے کے بہت سے آسان اور ارزاں طریقے موجود ہیں۔ اور اس کی ابتدا ایک عام آدمی اپنے بہتے نل کی مرمت اور آبپاشی سے متعلقہ ادارے کھالوں کو پختہ کر کے کر سکتے ہیں۔ جب کہ چھوٹے ڈیموں کی تعمیر بھی اس سلسلے میں ماحول دوست اور کارآمد ثابت ہو چکی ہے۔

بڑے ڈیم بنانے کا رجحان یا تو کرپشن میں ڈوبے بھارت اور پاکستان جیسے ملکوں میں باقی ہے یا پھر چین ایسے ملکوں میں جو کہ پہلے چڑیوں کو مار ڈالتے ہیں اور پھر پچھتاتے ہیں کہ ”تب کیا ہوت جب چڑیاں نہ چگیں کھیت؟“ یا پہلے خاندانی منصوبہ بندی کرتے ہیں، بچوں کی پیدائش پر پابندیاں لگاتے ہیں اور ان کی تعداد مقرر کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ منصوبے اور ”منصوبہ باز“ تو باقی ہیں لیکن ”خاندانوں“ اور ”بندیوں“ کا خاتمہ ہو رہا ہے!

ہماری معلومات کے مطابق اول تو پاکستان سمیت دنیا کے بڑے ڈیموں کے ذخیرہ اندوزی کی صلاحیت مسلسل کم ہوتی جا رہے اور اس کے علاوہ بڑے ڈیموں میں ذخیرہ شدہ پانی کے خشک سالی یا خشک سالوں میں استعمال کی کوئی خاص مثال بھی ہمارے سامنے نہیں ہے جب کہ ڈیموں کی تعمیر اور انتظامات کے اخراجات اس کے فرضی فوائد اور مفروضہ برکات سے کئی گنا زیادہ اور ناقابل قبول و ناقابل برداشت ہیں۔ حقیقت یہ کہ بڑے ڈیموں سے بعض لوگوں کو سیاسی اور بعض کو مالی فائدہ تو حاصل ہو سکتا ہے لیکن علمی طور پر یہ فطرت کے خلاف بہت بڑا خطرہ ہیں اور ان کے حیاتیاتی، ماحولیاتی، جغرافیائی اور معاشی نقصانات بے شمار ہیں۔ جو کہ بہرحال سیاسی اور معاشرتی نقصانات کا باعث بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔

سب سے بڑی بات نہ ”ہم“ نہ ہی ”معاشی/سیاسی طاقتیں اور نہ ہی بین الاقوامی مالی اور امدادی ادارے“ ہی موجودہ یا آئندہ کئی برسوں تک کے پاکستانی حکمرانوں پر اعتماد کے لیے تیار ہوں گے کہ انہیں میگا منصوبہ جات کے لیے امداد یا قرضے دیں۔ نہ ہی ریلوے، ہوائی سروس اور اسٹیل مل جیسے اداروں کی ناکامی بلکہ تباہی کے بعد کوئی مملکت خداداد کی انتظامیہ کو اس قابل بھی گردانے گا کہ وطن عزیز کی انتظامیہ کوئی منصوبہ مکمل کرنے اور اس کا انتظام و انصرام کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ کوئی سیاسی اور معاشی سپر پاور پاکستان میں کوئی میگا پروجیکٹ شروع کر بھی دے تو پاکستان کے حقوق مشروط اور مفاد موہوم ہوں۔ جب کہ افغانستان میں سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان کی سیاسی اور معاشی حالات بھی فی الحال ناقابل بھروسا گردانے جا رہے ہیں۔

ہمیں یقین ہے بہت سے قارئین کو ہماری باتیں حب الوطنی سے پرے اور خیالات سخت محسوس ہوں گے لیکن کیا آپ سب کو یاد نہیں کہ ایک بھاری مینڈیٹ یافتہ وزیراعظم نے جوہری دھماکوں کے بعد بینکوں کے لاکرز وطن عزیز کے عظیم تر مفاد میں سے بغیر کسی قانونی جواز کے سرکاری قبضے میں لے لیے تھے اور ایک مجسمہ انصاف ہندی میں بولے تو نیائے مورتی نے ڈیمس کے لیے عوام و خواص سے چندہ لے کر ایسے ہی بینکوں میں جمع کروا لیا!

اور رہی بات بجلی کی تو ”کرنٹلی“ اس کے متبادل ذرائع پر افریقہ جیسے ملکوں تک میں کام جاری ہے اور شمسی توانائی تو خصوصاً دیہاتوں میں نہ صرف گھریلو پیمانے پر مروج ہوتی جا رہی ہے بلکہ تجارتی ادارے بھی اس سے کماحقہ فائدے اٹھانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں۔ کہنے والے کہ رہے ہیں کہ اب یہ برس چند کی بات ہے کہ ہر کوئی اپنی بجلی آپ پیدا کرے گا!

وسائل یا پانی کی تقسیم میں بدانتظامی بھی کسی سے چھپی نہیں۔ یہ وہ الزام ہے جو کہ تینوں چھوٹے صوبوں کی طرف سے پنجاب اور وفاق کے حکام اور عمال پر (نہ کہ عوام پر) شد و مد سے لگتا رہا ہے۔ اور اس کے لیے یہ دیکھنا کافی رہتا ہے کہ ماضی میں کس صوبے میں کتنی پیداوار ہوتی تھی، اور آزادی کے بعد کتنی ہونی چاہیے اور اب کتنی ہو رہی ہے۔ یا یہ بھی ملاحظہ فرمایا جا سکتا ہے کہ بنگلہ دیش جب مشرقی پاکستان تھا تو کس حال میں تھا اور آج جب کہ وہ ایک الگ ”غیر جوہری“ لیکن ”جمہوری مملکت“ ہے تو اس کے ”دو ٹکے“ ہمارے چار روپوں کے برابر کیوں ہیں؟ اور وہ مشرقی پاکستان جو کہ ہر سال سیلابوں کے زد میں رہتا تھا اب وہاں سیلاب کیوں نہیں آتے اور یہ ورثہ مغربی پاکستان خاص طور پر سندھ کو کیوں اور کیسے منتقل ہو گیا ہے ؟

پیداوار کی اسی کم ہوتی شرح سے پانی کے سلسلے میں خصوصاً چھوٹے صوبوں سے ہونے والی نا انصافیوں کا بھی اندازہ ہو سکتا ہے اور پھر اسی وجہ سے صوبوں اور وفاق میں باہمی اعتماد کی بھی کمی وجود میں آتی ہے۔ اور پانی کی کمی کے باعث صوبوں میں ایک دوسرے کے خلاف شکایتیں اور مخالفتیں خوب پھل پھول رہی ہیں۔

آبی منبع کا ایک زمیندار جو سلوک پانی کے سلسلے میں دہانے کے زمیندار سے کرتا ہے، یا بھارت جو سلوک پاکستان سے کرتا ہے اسی قسم کے اقدامات کے چھوٹے صوبے بھی پنجاب اور وفاقی حکومتوں سے شاکی ہیں۔

اور بے بس صوبے واپڈا اور انڈس رور سسٹم اتھارٹی کے انتظامات اور اقدامات پر بے ساختہ اور بے اختیار یہ پکار اٹھتے ہیں کہ انڈس رور سسٹم اتھارٹی کو ”انڈس رورس سسٹم اتھارٹی“ میں تبدیل کر دیا گیا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments