حکومت سندھ اور ہسپتال


یہ کل کی خبر ہے کہ سندھ حکومت نے اپنی پانچ گھنٹے طویل کیبنٹ میٹنگ میں پولیس قوانین میں رد و بدل کے ساتھ ساتھ جو دوسرا اہم فیصلہ کیا ہے وہ کراچی میٹرو پولٹین سٹی یعنی کے ایم سی کے زیر انتظام چلنے والے برسوں پرانے چار ہسپتالوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ ان میں گزری میٹرنیٹی ہسپتال، پاکستان چوک پے واقع سو بیراج ہسپتال، گزدر آباد کا قدیم ہسپتال اور ڈسٹرکٹ کورنگی کا لانڈھی میڈیکل کمپلیکس شامل ہیں۔

اس ضمن میں حکومت سندھ کے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کا استدلال یہ ہے کہ کے ایم سی ان ہسپتالوں کو چلانے میں ناکام ہے اور محکمہ کے پاس ملازمین کی تنخواہوں تک کے پیسے نہیں ہیں۔ یہ استدلال کوئی بہت تعجب خیز بھی نہیں ہے کہ کے ایم سی کی عزت اور مال و اسباب کو جس طرح اس کے سابقہ میئر لوٹتے رہے ہیں اور اس لوٹی ہوئی عزت والی کے ایم سی کے ساتھ جو سلوک موجودہ حکومت کر رہی ہے وہ جو نہ کرے اور کہے کم ہے۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ اس شہر میں رہنے والوں کو نہ تو پتہ ہے نہ ہی دلچسپی ہے کہ ان کی ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے۔ اس ہیرا پھیری میں غور طلب بات یہ ہے کہ گزشتہ سالوں کے دوران خود حکومت سندھ اپنے ڈسٹرکٹ سطح کے متعدد ہسپتالوں کو چلانے میں ناکام ہونے کے بعد باقاعدہ مشتہر کر کے غیر سرکاری تنظیموں کے حوالے کر چکی ہے۔ نیو کراچی، نارتھ کراچی اور لانڈھی کورنگی میں واقع دو سے تین ہسپتال انڈس ہسپتال کے زیر انتظام اور ایک سے دو ہسپتال ایک جاپانی تنظیم کے زیر نگرانی چل رہے ہیں۔

بات صرف کراچی کی نہیں ہے اندرون سندھ بھی مقامی اور غیر مقامی تنظیمیں ہسپتالوں اور ان کے مختلف شعبہ جات کو چلا رہی ہیں۔ ان میں برطانیہ کی نور فاؤنڈیشن متعدد ہسپتالوں کی لیب، ایکسرے اور ڈائلیسس یونٹ کی نگہداشت کرتی ہے۔

شہداد پور کے سول ہسپتال کا پورا ڈائلیسس یونٹ مقامی لوگوں کی ایک تنظیم چلا رہی ہے اور اتنے اہتمام سے چلاتی ہے کہ اس ایک یونٹ کو انھوں نے سولر سسٹم پے منتقل کیا ہوا ہے تاکہ بجلی کی آنکھ مچولی سے ہونے والے نقصانات سے بچا جا سکے۔

میرپور خاص کے سول ہسپتال میں بھی غیر سرکاری تنظیموں کا عمل دخل ہے اور یہی حال خیر پور اور سکھر کے سول ہسپتالوں کا ہے۔ مجھے غیر سرکاری تنظیموں کے عمل دخل پر کوئی اعتراض نہیں کہ یہ ملک چل ہی غیر سرکاری تنظیموں اور نجی شعبے کے بل بوتے پر رہا ہے۔

مجھے فکر اس بات کی ہے کہ جو حکومت سندھ اپنے ڈسٹرکٹ اور سول ہسپتال چلانے میں ناکام ہے وہ کے ایم سی کے ہسپتالوں کا کیا کرے گی؟ اس سے تو بہتر تھا کہ وہ ایک اور اشتہار کے ذریعے ان ہسپتالوں کو بھی کسی تنظیم کے حوالے کر دیتے۔

کون نہیں جانتا کہ آج بھی سندھ بھر کے ہسپتالوں میں نہ تو کتے کے کاٹے کی ویکسین ملتی ہے اور نہ ہی سانپ کے کاٹے کا انجیکشن۔

مجھے یاد آ رہا ہے کہ جب ہم عمر کوٹ اور دادو ڈسٹرکٹ میں کیمپ کرنے گئے تھے تو صبح کے دس بجے تک ان ہسپتالوں کے ایم ایس اور دیگر طبی عملے کا کہیں پتہ نہ تھا لیکن اسی عمر کوٹ کے ایک ویران علاقے میں بنی ان گھڑت سی بلڈنگ میں زنگ آلود تالوں اور دروازوں کے اندر چار ڈبہ بند ڈائلیسس مشینیں قسمت کو رو رہی تھیں۔

جب ہی دوران گفتگو یہ انکشاف بھی ہوا کہ حکومت سندھ کے شعبہ صحت نے بنا جانچے پرکھے تمام ڈسٹرکٹ ہسپتالوں کو سب کو حصہ ملے گا کے مصداق چار مشینوں کا تحفہ دیا ہے۔ کہ اس وقت کے سکریٹری ہیلتھ اس وقت کے صدر مملکت کے بہنوئی تھے اور مشینوں کے اس لین دین میں بہت کچھ ادھر ادھر ہوا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سطح کے ہسپتالوں میں ڈائلیسس سے متعلق نہ تو کوئی سہولت تھی اور نہ ہی پہنچائی گئی تھی۔ یاد تو خیر یہ بھی آ رہا ہے کہ نوے کی دہائی میں اسی حکومت کا زمانہ تھا اور فرانس نے ایک حکومتی ڈیل میں کچھ مشینیں دی تھیں جن کا کام گردہ کی پتھریاں توڑنے کا تھا۔ ان کی قیمت اس وقت کروڑ سے زیادہ تھی۔ ان مشینوں کو لاڑکانہ اور نواب شاہ کے سول ہسپتالوں میں دے کر زندہ درگور کر دیا گیا اور وہ کبھی ڈبوں سے باہر نہ نکل سکیں۔

ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں طبی آلات، ادویات کی خریداری اور دیگر سہولیات کی فراہمی ایک ایسا ”مافیائی“ کاروبار ہے کہ کوئی سوچ نہیں سکتا۔ اب کہ کے ایم سی ہسپتالوں کا سندھ حکومت کو منتقلی یا جملہ حقوق اپنے نام کرنے کا یہ عمل پتہ نہیں کس افسانے کی ابتدا ہے۔

بات تو یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ کیا حکومت سندھ دھیرے دھیرے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی سانسیں بند کر رہی ہے؟ اس بارے میں بہت کچھ سوچنے کی ضرورت تو اس شہر میں رہنے والوں اور شہر کے ٹھیکیداروں کو بھی ہے۔ جن کی ہر سانس سے ایک ایسی آہ نکلتی ہے جو اثر نہیں رکھتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments