قربانی یا بلیدھان


”اللہ تعالٰی کو نہ ان (قربانی) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، مگر صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے“
(سورہ الحج: 37 )

گزشتہ روایات کی مانند امسال بھی مذہب سے بیزار لوگوں نے تہوار کا سہارا لے کر اپنے دل کے نشتر چلانے کا اہتمام مکمل کر رکھا ہے۔ ہر مذہبی تہوار کے موقع پر مذہبی احکامات کے سلسلے میں ہونے والے خرچ اور تجارت کو فضول خرچی، پیسے کے ضیاع سے جوڑ کر مذہبی عقائد میں نقب لگانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ کمزور عقیدہ مذہبی پیروکار ایسے ہر عمل سے دور رہیں جس سے ان کا مذہبی احکامات و عبادات کی جانب رجحان ترویج پا سکے۔

دین اسلام کی تمام عبادات و احکامات کا منبع تقوی ہے۔
”تقوی کیا ہے؟“
مولا علی (کرم اللہ وجہہ) تقوی کی تعریف کرتے ہیں :
”یعنی اللہ کا خوف، شریعت کے مطابق عمل، کم پر قناعت اور آخرت کے دن کی تیاری“

گویا کہ تقوی چار چیزوں کے مجموعہ کا نام ہے، اللہ کا خوف، شریعت کی مکمل تابعداری، کم پر قناعت، اور یوم آخرت کی تیاری۔

”کم پر قناعت“ کا جذبہ پیدا کرنے کی خاطر دین اسلام میں روزہ اور قربانی جیسے احکامات کا نزول ممکن ہوا۔

رب کو کسی روزے دار کی سارا دن کی بھوک و پیاس سے کچھ سروکار نہیں بالکل اسی مانند رب تک قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا۔ اگر کوئی چیز اللہ پسند کرتا ہے تو وہ جذبہ ایثار و تقوی ہے جو ایک انسان حالت روزہ اور وقت قربان محسوس کرتا ہے۔

منکرین کا سب سے بڑا سوال قربانی کی بجائے کسی غریب کی مدد کیوں نہ کی جائے؟

اگر کسی شخص کی قربانی کا مقصد محض دکھاوا، ریاکاری اور اپنی معاشی برتری ثابت کرنا ہے تو وہ قربانی محض اس خالق کے خوبصورت مخلوق کا ذاتی ہوس کی بھینٹ چڑھنے کا عملی نمونہ ہے ایسی قربانی کو نہ تو رب نے حکم دیا نہ کسی بھی مذہبی پیرائے میں اس کی توجیح پیش کی جا سکتی ہے۔

قربانی جس عظیم پیغمبر کی سنت کی پیروی پر ادا کی جاتی ہے ان کا مقصد بھی صرف رب کی خوشنودی حاصل کرنا تھا ذبیح اسماعیل کے حکم سے (نعوذ باللہ) رب کا مقصد انسانی خون سے اپنی پیاس بجھانا نہیں تھا۔

اس کے پس پردہ مقصد اپنے پیغمبر سے اپنی سب سے پیاری چیز کی قربانی کا حکم صرف اور صرف اس پیغمبر کو ایثار کے جذبے سے سرشار کرنا تھا۔ تاکہ وہ پیغمبر اپنی قوم میں اس جذبے کی ترویج کو ممکن بنائے۔ اللہ خالق کن اور مالک اسباب کل جہاں ہے اگر وہ کسی انسان کو مال و معاش کی صورت میں اپنی مخلوق کے لیے قربانی کا حکم دے تو وہ اس کے متبادل یہ دلائل نہ پیش کرے اے مالک یہ مال و معاش میری محنت ہے میرا کل اثاثہ ہے۔ انسانی جان کی قیمت دنیا میں موجود تمام چیزوں سے افضل تر ہے اگر کوئی رب کے لیے اسے پیش کر سکتا ہے تو رب کے حکم پر اس کی مخلوق کی خاطر سب کچھ قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔

قربانی کی اصل اساس خون بہا یا نمود و نمائش نہیں اور نہ ہی قربانی کے اس عمل سے غریب کی غربت پر پردہ ڈالا جا سکتا ہے۔ یہ عمل ایک چھوٹی سعی کا آغاز ہے وہ شخص جس کو غریب کی غریب سے سروکار نہیں اور اپنے مال پر ناز ہے اس میں احساس ایثار کو جگانے کا نام ”قربانی“ ہے۔ یہ دیوتاؤں کی حضور کسی جانور کے ”بلیدھان“ کا نام نہیں۔

قربانی کا اصل احساس تب ہی کسی دل میں پھوٹے گا جب کوئی شخص اس کی حقیقی اساس تک پہنچے گا وگرنہ اس مادیت پرستی میں ڈوبی قوم کے لیے یہ ایک مذہبی تہوار کے علاوہ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔

منکرین کا دوسرا بڑا سوال قربانی کے موقع پر غریب کی دار رسی کی بجائے محرومی میں اضافہ ہوتا ہے؟

دین اسلام میں قربانی کو واجب عمل قرار دیا جس کا مقصد صرر صاحب استطاعت لوگ اس سنت پر عمل پیرا ہوں اور تاکہ جو استطاعت سے محروم ہیں ان کے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو سکے۔

جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے جب کوئی انفرادی حیثیت میں قربانی کو ریاکاری اور دکھاوے میں تبدیل کرتا ہے تو وہ قربانی کی عظیم سنت کی پیروی نہیں بلکہ اپنی ہوس اور نفس کا پیروی کا مظاہرہ کرتا ہے نتیجتاً اس عمل سے کسی غریب کے احساس محرومی میں اضافہ ہوتا ہے تو انفرادی ہوس کے عمل سے قربانی کی سنت کو ہدف تنقید بنانا صرف مذہب سے بیزاری کا مظاہرہ ہی ہو سکتا ہے۔

دین اسلام میں صاحب استطاعت پر سال میں ایک دن قربانی کے ذریعے غریب لی داد رسی واجب نہیں۔

اسلام میں سارا سال غریبوں کی دادرسی کے لیے زکواۃ، صدقہ و خیرات کا حکم ہے نہ صرف حکم بلکہ احکامات پر عمل درآمد کے باقاعدہ اصول وضع کیے گئے ہیں۔

اگر کوئی شخص سارا سال غریب کی داد رسی سے غافل رہے اور عید قربان کے موقع پر غریب کی داد رسی کے نام پر ریاکاری کا مظاہرہ کرے تو اس کا شریعت کے حکم سے کوئی تعلق نہیں۔

مذہب سے ناآشنائی مذہب سے بیزاری کا بنیادی سبب ہے میں مذہب سے دور لوگوں کو دعوے دیتا ہوں کسی بھی مذہب کو اس کی تعلیمات سے سیکھیں نہ کے مذہبی پیروکاروں کے افعال و اقوال سے۔

سب سے بڑا المیہ صاحب استطاعت لوگ اس تہوار پر بیش قیمت جانور تو قربان کر دیتے ہیں مگر سارا سال دلوں وہی نفرتیں پال کر بیٹھے رہتے ہیں سارا سال اپنے افعال، اقوال اور کردار سے غریب و امیر کی خواہشوں کو قربان کرتے رہتے ہیں۔

ایسے لوگوں کی قربانی رب کے نام پر ”بلیدھان“ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اس لیے تمام صاحب استطاعت لوگوں سے درخواست ہے وہ اپنی قربانی کے عمل کو اپنے افعال، اقوال و کردار سے ”سنت عمل“ بنائیں نہ کے کسی دیوتا کا ”بلیدھان“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments