سنتوش کمار نے ظہیرکاشمیری سے کیا کہا؟


بابا ظہیر کاشمیری میرے والد کے دوستوں میں شامل تھے ، اسی رشتہ کی بنیاد پرمیں نے ہمیشہ ان کا حد سے بڑھ کر احترام کیا۔ بابا جی کو جب شہید ذوالفقار علی بھٹو نے روزنامہ ’’مساوات ’’ کا ایڈیٹر بنایا ، میں اسی ادارے میں سب ایڈیٹر کے طور پر کام کررہا تھا ، ایڈیٹر بننے سے پہلے باباجی اخبار کے ایڈیٹوریل ہیڈ تھے اور اداریہ کے ساتھ روزانہ ’’ قطعہ’’ بھی لکھا کرتے تھے۔ وہ بنیادی طور پر ایسے شاعر تھے جسے اساتذہ کرام کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔ وہ عموما اشعار میں مشکل الفاظ کا چناؤ کیا کرتے تھے، لیکن فلموں کے لئے انہوں نے بہت آسان لفظوں میں شاعری کی ۔ انہیں شاعر رومان و انقلاب کالقب بھی دیا گیا۔ وہ سرتا پا سرخے اور انقلابی تھے۔ مزدوروں کی تنظیموں سے بھی وابستہ رہےاور عملی جدوجہد کرتے رہے۔ فاقہ مست ہونے کے باوجود انہوں نے دوستوں کے سرمایہ سے تین فلمیں بھی پروڈیوس کیں، ان فلموں کے ڈائریکٹر، رائٹر اور شاعر بھی وہ خود تھے ، ظاہر ہے فلموں نے فلاپ ہی ہونا تھا، ان کی شاعری اور تنقید کی 9 کتابیں بھی شائع ہوئیں۔ وہ اکثر اپنا یہ شعر گنگنایا کرتے تھے۔

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخرشب

ہمارے بعد ا ندھیرا نہیں اجالا ہے۔

 استاد امانت علی خان کی آواز میں 45 سال پہلے پی ٹی وی پر ریکارڈ کی گئی غزل کو آج بھی روز اول کی طرح پذیرائی حاصل ہے ۔

 موسم بدلا، رت گدرائی ، اہل جنوں بے باک ہوئے ،

موسم گل کے آتے آتے،کتنے گریباں چاک ہوئے۔

امرتسر سے نقل مکانی کرکے لاہور بس جانے والے بابا جی (ظہیر کاشمیری) بیڈن روڈ کی ایک گلی میں اپنے خاندان سمیت رہا کرتے تھے۔ نیلی اور ڈھیلی پتلون، لال قمیض، خاکی سویٹر، کالی ٹائی، سبز رنگ کا کوٹ۔ عجیب و غریب کمبی نیشن ہوتا ان کے لباس کا۔ ستر اسی سال کی عمر تک تین یا چار بار جوتے خریدے ہوں گے وہ بھی لنڈے سے، پتلون میں اگر کبھی بیلٹ نہ ہوتی تو آپ ناڑا ضرور دیکھ سکتے تھے۔انہوں نے عمر بھر شادی نہ کی۔

رنگ برنگے بابا جی کی ایک فلم کا نام تھا، ’’تین پھول‘‘ نئیر سلطانہ۔ اسلم پرویز اور علاؤالدین نے مرکزی کردار ادا کئے تھے۔ ایک فلم میں انہوں نے سنتوش کمار کو ہیرو لے لیا۔ فلم کی شوٹنگ ہو رہی تھی۔ سنتوش نے اپنی ہیروئن کے سامنے یہ مکالمہ بولنا تھا۔۔۔۔ جان جاں! ’’تم اتنی رقیق القلب کیوں ہوئی جاتی ہو‘‘۔ سنتوش صاحب سے یہ مکالمہ بولا نہیں جا رہا تھا۔ وہ بار بار رقیق القلب پر اٹک جاتے۔ بابا جی چاہتے تو رقیق القلب کو آسان لفظ میں بدل سکتے تھے۔ وہ لفظ رقیق القلب کو رنجیدہ میں بھی بدل سکتے تھے ،مگر کون تھا جو بابا جی سے یہ مشکل مکالمہ تبدیل کرا لیتا۔ ٹیک پہ ٹیک ہوتی رہی۔ بالآخر سنتوش کمار پھٹ پڑے۔او بابا۔ (پنجابی میں گالی) توں مینوں لقوہ کرانا ایں۔

میں نے بابا ظہیر کاشمیری کو جب پہلی بار دیکھا اس وقت میری عمر آٹھ نو سال تھی۔ میں اپنے آفس کے ایک ملازم کے ساتھ بیڈن روڈ سے گزر رہاتھا۔ اچانک میری نظر ایک سرخ و سپید فرنچ کٹ داڑھی والے شخص پر پڑی۔ جو’’ فل انگریز‘‘ دکھائی دے رہا تھا۔ مگر اس کا لباس اور ٹوپ بہت بوسیدہ تھے۔اس زمانے میں بیڈن روڈ کمرشل نہیں رہائشی علاقہ تھا، اور جگہوں کی طرح یہاں بھی سامان ضرورت کی چھوٹی چھوٹی دکانٰیں ہوا کرتی تھیں، بعد میں پتہ چلاکہ یہ ظہیر کاشمیری صاحب ہیں اور ان کا روزانہ کا معمول ہے کہ ہر دکان پر جاکر کھڑے ہوتے ہیں،سر سے ٹوپ اتار کے دکاندار کے سامنے کورنش بجا لاتے ہیں، ہر دکاندار ٹوپ میں چونی ڈالتا ہے جب مخصوص رقم پوری ہوجاتی ہے تو ریگل چوک کے قریب وائن شاپ پر پہنچ جاتے ہیں۔ بیڈن روڈ اس زمانے میں دانشمندوں اور بدمعاشوں سے مالا مال ایریا تھا، یہ اس محلے کا اعزاز ہوتا تھا، کیونکہ بدمعاش شریفوں سے زیادہ شریف ہوا کرتے تھے۔

نامور بدمعاش یاسین بمبے والا بھی بیڈن روڈ کے وسط میں رہتے تھے، بمبے والا نے،، سدھا رستہ ،، سمیت کئی فلمیں بھی پروڈیوس کی تھیں ،منیر نیازی کا ٹھکانہ رضیہ بلڈنگ میں تھا، اسی عمارت میں سردار پروڈکشنز کے نام سے ہمارا آفس بھی تھا،پڑوسی ملک میں جاکر بہت شہرت پانے والے موسیقارخیام، گلوکار سلیم رضا، جی اے چشتی، ایم اے رشید، مشیر کاظمی اور سیف الدین سیف بھی قریب قریب ہی رہائش پذیر تھے، سب لوگ بابا ظہیر کاشمیری کا بہت احترام کرتے تھے۔ ایک بار ’’مساوات‘‘ کے ایڈیٹوریل سکیشن میں بابا جی کے ساتھ انہی کی عمر کے ایک دانشور کو بٹھا دیا گیا جو بابا جی سے زیادہ وزنی گالیاں نکالتے تھے، میں اخبار کے نیوز روم میں صبح کی ڈیوٹی کیا کرتا تھا جب بابا جی کو ایڈیٹر بنادیا گیا، ایک دن میں ان کی طرف سے ایک شوکاز ملا، جو آج بھی میرے پاس موجود ہے، ہوا کچھ یوں کہ فیصل آباد کی ایک ٹیکسٹائل ملز میں مزدوروں کا احتجاج چل رہا تھا، وہ اپنی مانگیں منوانے کے لئے ہڑتال پر تھے، میں نے ان کے حق میں خبر چھاپ دی، میرے علم میں نہیں تھا کہ اس ملز کی مالکہ کوئی ایم این اے ہیں۔ اس ملز آنر کی جانب سے شکایت آئی تو باباجی نے اپنے دستخطوں سے مجھے نوٹس بھجوا دیا۔

آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کتنی شدت سے اپنی ادارتی ذمے داریاں نبھا رہے تھے، ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تو ایس جی ایم بدر الدین کے ساتھ بابا جی کو بھی گرفتار کرکے ملٹری کورٹ سے سزا سنائی گئی، جس رات مجھے کوڑے مارے گئے۔ وہ پوری رات بدر الدین صاحب اور باباجی نے میری بے ہوشی کے دوران میرے پاس جاگ کر گزاری تھی۔ اخبار کی حتمی بندش کے بعد میری بابا جی سے ملاقاتیں صرف پریس کلب میں ہی ہوتی رہیں، انہیں ان کے انتقال کے ایک سال بعد 1995ء میں صدارتی ایوارڈ ملا تھا۔ بابا جی نے ساری عمر فاقہ مستی میں گزاری۔ میں نے انہیں کبھی خوشحال نہیں دیکھا۔اللہ بابا جی کو غریق رحمت کرے اب ایسے لوگ کہاں، آج تو اصل لاہور بھی قصہ پارینہ اور تاریخ کا حصہ بنتا جا رہا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments