یہ خط ہم نے نہیں لکھا!


(راہ رواں: بانو قدسیہ: صفحہ نمبر 119)

دیال سنگھ کالج

لاہور

اکتوبر 1951

حضور امی جان!

قدسیہ کی وہ کہانیاں جو ایک عرصے سے میرے پاس تھیں، اچانک طلب کر لی گئیں۔ ایک رات اثر صاحب تشریف لائے اور کہا کہ کاکی (قدسیہ) نے لکھا ہے کہ وہ افسانے اشفاق سے لے کر اسے پہنچا دیئے جائیں۔ میں نے بلا چون وچرا وہ فائل اثر صاحب کے سپرد کر دی اور انہوں نے اسے مقام مقصود تک پہنچا دیا۔

ان کے استفسار پر کاکی (قدسیہ) نے بتایا کہ اشفاق کو ہر گھڑی میری اور میرے گھر والوں کی تذلیل مقصود ہوتی ہے اور وہ جان بوجھ کر ان کی بے عزتی کرتا ہے۔

 میں آپ کو اس وقت سے امی کہتا رہا ہوں، جب میں نے آپ کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ اگر میں نے شعوری یا غیر شعوری طور پر ارادی یا غیر ارادی طور پر آپ کی ہتک کی ہو یا آپ لوگوں کو ہیٹا سمجھا ہو تو میری دعا ہے کہ میری ایک بیٹی ہو اور میری آنکھوں کے سامنے سر بازار اس کی اوڑھنی اتر جائے۔ چوراہے پر اس کی عصمت دری ہو اور میں اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔ میری زندگی میں بھرے مجمعے میں اس کا نیلام ہو۔ آسمانوں سے لعنتوں کا نزول ہو اور زمین سے مجھ پر تھتکار ہو اور خدا کرے کہ آپ بھی یہ سب کچھ دیکھنے کے لئے زندہ رہیں۔

والسلام

نیازمند

اشفاق احمد

یہ خط پڑھ کے ہم انگشت بدنداں ہیں۔

یقین نہیں آتا کہ اپنی سچائی کا یقین دلانے کے لئے اس بیٹی کی عصمت دری کا تفصیلی نقشہ کھینچا گیا ہے جو خوش قسمتی سے کبھی پیدا نہ ہوئی۔

ہمیں رنج اس بات کا ہے کہ اشفاق صاحب نے اپنی بات میں وزن ایک عورت کی عزت کی قسم کھاتے ہوئے پیدا کیا۔

اب سوال یہ ہے کہ اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بیٹی کی عصمت دری کا نقشہ کھینچا گیا، کیا اس کی جگہ بیٹا نہیں ہو سکتا تھا یا بیٹے کی کوئی عصمت نہیں ہوتی؟

اگلا سوال یہ کہ ایک مرد کیا اتنا کمزور ہے کہ اسے اپنی بات ثابت کرنے کے لئے گھر کی عورت کی عصمت دری کی دعا پیش کرنی پڑے؟ یاد رکھیے مرد بھی وہ جو معاشرے کا عام مرد نہیں بلکہ جس کی دانشوری، عقل و فہم، ذکاوت اور سچائی کا ایک زمانہ گرویدہ ہو،انہیں روحانیت کے کسی اعلی مقام پہ فائز کر کے بابا کا لقب بھی دے دیا گیا ہو اور ان کے الفاظ تعویذوں کا رتبہ رکھتے ہوں

ان کے چاہنے والے یہ کوڑی لا سکتے ہیں کہ جس زمانے کا یہ خط ہے ہو سکتا ہے بابا اشفاق اس رتبے تک نہ پہنچے ہوں۔

فرض کیجیے اگر ایسا ہو تو یہ خط سنبھال کر رکھا جانا اور بانو قدسیہ کا اپنی کتاب میں اسے پبلک کر دینا سمجھ سے باہر ہے۔

اشفاق صاحب کی اگر ماہیت قلبی بدل چکی تھی تو انیس سو اکاون سے لے کر دو ہزار دس تک یہ خط سنبھال کر رکھنا چہ معنی دارد؟

چلیے فرض کر لیتے ہیں کہ خط کسی ایسی الماری کی کسی ایسی دراز میں پڑا رہا جو برسوں نہ کھلی اور یوں خط آنکھ سے اوجھل رہا۔ اگر ایسا ہوا اور بانو قدسیہ کو وہ خطوط ان کی وفات کے بعد ملے تو کیا بانو قدسیہ کو یہ خط پبلک کرنا چاہئے تھا جو ان کے مرحوم شوہر کے ایسے ماضی کی کہانی سناتا تھا جس کی تردید کبھی نہیں ہوئی۔ خیال رہے کہ اس خط کے ساتھ بانو قدسیہ کا کوئی معذرتی نوٹ شامل نہیں۔ جس سے خیال آتا ہے کہ انہیں اس خط کے نفس مضمون پہ نہ اعتراض تھا اور نہ ہی اپنی کتاب میں شامل کرنے پہ کوئی تشویش۔

کیا یہ حیرت کی بات نہیں ؟

کچھ صاحبان دانش کا کہنا یہ ہے کہ سوئے عدم سدھارنے والے ادیبوں کے متعلق کچھ کہنا اور لکھنا آداب کے منافی ہے۔

ہم بصد احترام پوچھنا چاہتے ہیں، کیا دنیائے ادب سے شیکسپئر، ورڈزورتھ، غالب اور میر کے ترکے کی بساط ایک معینہ مدت کے بعد لپیٹ دی گئی؟

ہماری ناقص رائے میں ادیب کا سرمایہ خیال نہ کبھی متروک ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ دفن کیا جاتا ہے۔ ساتھ میں اگر ایسا بھی ہو کہ تخلیق کردہ ادب مقبولیت کے اعلیٰ ترین درجے پر بھی فائز ہو اور آنے والی نسلوں کی ذہنی تربیت کا ذمہ دار بھی سمجھا جائے تو وہ ادب امانت سمجھ کر سنبھال لیا جاتا ہے۔

فکر و خیال کے اس سرمایہ حیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے جہاں ادیب پہ توصیف کے ڈونگرے برستے ہیں وہاں کچھ سوال بھی پیدا ہوتے ہیں اور سوال کے وجود کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سوال دانشور کے خیال کی جہت اور وسعت کے امکان بڑھا دیتا ہے، سوال بد تہذیبی اور مقام سے گرانے کی کوشش کا مظہر نہیں ہوا کرتا۔

ہم اس لئے سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ سب پڑھتے ہوئے ہمارے دل پہ ایک گھاؤ سا لگ جاتا ہے۔ ہمارے یہ ادیب جنہیں معاشرے میں مستند سمجھا گیا، اور آج بھی سمجھا جاتا ہے، شہرت کی دیوی ان پہ مہربان ہوئی اور وہ ادب کی دنیا میں جید ادیب کہلائے، معاشرے کی ذہن سازی میں ان کا اہم کردار رہا،

لیکن عورت ان کی نظر میں بھی اسی گھٹیا مقام پہ رہی، جہاں اسے مرد کو شرم دلانے اور نام نہاد غیرت کو ناپنے کے پیمانے کے طور پر ایک ہتھیار یا آلے کی طرح استعمال کیا گیا۔ جہاں اس کے وجود کی حرمت محض اسی قابل سمجھی گئی کہ اس کی عزت کی قسم ہی مرد کے پندار قائم رہنے اور معاشرے میں سر اٹھا کے چلنے کی ضمانت ہے۔

مرد اپنی ذات کے بے وقعت ٹھہرنے اور دلی رنج وتکلیف پہنچنے کی مثال بلا ہچکچاہٹ گھر کی عورت کے جسم سے جوڑتا ہے۔ گویا عورت کا کرچی کرچی وجود اور اس کی عصمت دری سے زیادہ اہم مرد کی انا اور غرور کو پہنچی ٹھیس ہے جسے رفو کرنے کے لئے عورت کا وجود چاہیے, چاہے وہ بیٹی ہی کیوں نہ ہو؟

کیوں نہ بابا جی کے موقف کو ان گالیوں کے تناظر میں دیکھا جائے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے جن میں قریب ترین عورت کے وجود کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

کہیے کیا کہتے ہیں آپ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments