بھارت کی ریاست یو پی کی ’ٹو چائلڈ پالیسی‘؛ ماہرین اس کے خلاف کیوں ہیں؟


فائل فوٹو

نئی دہلی — بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے بڑھتی آبادی پر قابو پانے کے لیے ایک قانون کا مسودہ پیش کیا ہے جس کے تحت والدین کو زیادہ سے زیادہ دو بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔

بعض مبصرین اس مجوزہ قانون کے مسودے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے صنفی عدم مساوات پیدا ہو گی اور دیگر کئی مسائل جنم لیں گے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت نے یہ قدم آئندہ برس کے اوائل میں ہونے والے ریاست کی اسمبلی کے انتخابات کے پیشِ نظر اٹھایا ہے۔ ریاست کے لا کمیشن نے گزشتہ ہفتے یہ مسودہ عوامی غور و خوض کے لیے پیش کیا تھا اور عوام سے اس پر ان کی رائے مانگی گئی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کی آبادی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے اور اگر اسے نہ روکا گیا تو 2025 میں بھارت کی آبادی چین سے زیادہ ہو جائے گی۔ حکومت کے مطابق اتر پردیش کی آبادی بھی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ خیال رہے کہ یو پی کی آبادی 22 کروڑ ہے۔

مجوزہ قانون کے مسودے میں کیا ہے؟

مسودے کے مطابق جن جوڑوں کے ہاں دو بچوں سے زائد اولاد ہو گی ان کو سرکاری ملازمت نہیں ملے گی۔ وہ سرکاری ملازمت کے لیے درخواست بھی نہیں دے سکیں گے۔ جو لوگ سرکاری ملازمت کر رہے ہیں ان کو ترقی نہیں دی جائے گی اور انہیں حکومت کی 77 فلاحی اسکیموں کے فائدوں سے محروم کر دیا جائے گا۔

اس کے علاوہ جن کے دو سے زائد بچے ہوں گے وہ پنچایت کے انتخابات بھی نہیں لڑ سکیں گے۔ البتہ جو سرکاری ملازمین ’دو بچہ پالیسی‘ کو اپنائیں گے ان کو ملازمت کے دوران اضافی مراعات دی جائیں گی۔ زمین یا مکان کی خریداری پر رعایت دی جائے گی اور ان کے پرویڈنٹ فنڈ میں تین فی صد اضافہ ہو گا۔

مجوزہ قانون کے مسودے کے مطابق جو سرکاری ملازمین ’ایک بچہ پالیسی‘ اپنائیں گے یعنی صرف ایک بچے پر اکتفا کریں گے، ان کی تنخواہوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا اور ان کی اولاد کو 20 برس کی عمر تک مفت صحت و تعلیمی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔

مسودے کے مطابق جو لوگ سرکاری ملازمت میں نہیں ہیں اور پھر بھی ’دو بچہ پالیسی‘ اختیار کرتے ہیں انہیں پانی اور بجلی کے بلوں، ہاؤسنگ ٹیکس اور مکان بنانے کے لیے بینک سے قرض لینے میں چھوٹ دی جائے گی۔

کیا اس قانون سے آبادی کے کنٹرول ہونے کا امکان ہے؟

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ اس قسم کے قانون سے آبادی پر کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی بلکہ اس کی وجہ سے صنفی امتیاز پیدا ہوگا۔

سال 16-2015 میں کیے جانے والے ’نیشنل فیملی ہیلتھ سروے‘ کے مطابق اترپردیش میں مجموعی شرح پیدائش 2.7 فی صد ہے جب کہ قومی شرح پیدائش 2.1 فی صد ہے۔

وزارتِ صحت کی سابق سیکریٹری اور نیشنل پاپولیشن اسٹیبلائزیشن فنڈ کی سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر شیلجا چندرا نے قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی قانون شرح پیدائش کو نیچے نہیں لا سکتا۔ 12 ریاستوں میں پہلے سے ہی ایسا قانون موجود ہے۔ البتہ بچوں کی پیدائش سے متعلق لوگوں کی ذہنیت میں کسی مثبت تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حکومت کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کی وجہ سے لوگ بچے پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اسے ’دباؤ‘ مانا جائے گا اور کسی بھی قسم کا دباؤ قابل قبول نہیں ہے۔ ریاستیں ایسے اہم معاملے پر قومی پالیسی سے الگ ہٹ کر کچھ نہیں کر سکتیں۔

سابق چیف الیکشن کمشنر اور بھارت میں آبادی کے موضوع پر کتاب کے مصنف ڈاکٹر ایس وائی قریشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سال 2000 سے ملک میں قومی پاپولیشن پالیسی کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے۔ اس نئی پالیسی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اور پھر وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو الیکشن سے عین قبل اس کا خیال کیوں آیا۔

ان کے مطابق یو پی حکومت کا یہ قدم مکمل طور پر سیاسی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دائیں بازو کے لوگوں کا یہ ایک پرانا پروپیگنڈا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور اگر اسے قابو میں کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تو مسلمانوں کی آبادی غیر مسلموں سے زیادہ ہو جائے گی۔ اس لیے وہ غیر مسلموں کو مسلمانوں کے نام پر ڈراتے اور عوام کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان کے مطابق مجوزہ قانون میں مسلمانوں یا اقلیتوں کا نام اگرچہ نہیں ہے۔ البتہ قومی سطح پر جو بحث ہو رہی ہے وہ یہی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور اسے روکنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یوگی آدتیہ ناتھ ساڑھے چار سال قبل حکومت میں آتے ہی یہ پالیسی لے آتے تو ان کی نیت پر شک نہیں ہوتا لیکن اب جب کہ انتخابات سر پر ہیں اس کو لانے کا کیا مطلب ہے؟

ان کے مطابق آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے بھی آبادی پر کنٹرول کے لیے قانون لانے کی بات کی ہے۔ وہاں بھی فرقہ واریت کا کافی بول بالا ہے۔ اس لیے وہاں کی حکومت بھی چاہتی ہے کہ فرقہ واریت زندہ رہے تاکہ اسے اس کا سیاسی فائدہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ پھر بھی آسام کے وزیر اعلیٰ کا یہ قدم اس لیے قابل اعتراض نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی حکومت کے آغاز میں ہی ایسا قانون لانے کی بات کہی ہے۔

کیا یہ قانون خواتین مخالف ہے؟

فیضان مصطفیٰ کے مطابق پنچایت انتخابات میں عورتوں کی سیٹیں مخصوص ہیں اس لیے ان کو الیکشن کے لیے نااہل قرار دینا بھی اس قانون کا ایک مقصد ہے۔ انہوں نے اس قانون کو خواتین مخالف قرار دیا۔

ان کے مطابق ملک میں بچیوں کی شرح پیدائش کم ہو رہی ہے۔ بہت سے لوگ یہ معلوم کرنے کے بعد کہ شکم میں بچی پل رہی ہے حمل ضائع کرا دیتے ہیں جس کی وجہ سے کئی ریاستوں میں مردوں کو شادی کے لیے عورتیں نہیں مل رہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں جن ریاستوں میں دو بچوں کا قانون نافذ ہوا وہاں طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا۔

ایس وائی قریشی کے مطابق مدھیہ پردیش کی آئی اے ایس افسر نرملا بُچ نے پانچ ریاستوں میں ایک تحقیق کی تھی جس کے مطابق ان ریاستوں میں جب مردوں نے دیکھا کہ کئی بچوں کی وجہ سے وہ پنچایت الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ تو انہوں نے اپنی عورتوں کو طلاق دینی شروع کر دی کہ وہ بچوں کو لے کر چلی جائیں گی اور وہ پھر سے غیر شادی شدہ ہو جائیں گے اور الیکشن لڑنے کے اہل ہو جائیں گے۔

انہوں نے بھی اس قانون کو مکمل طور پر خواتین مخالف قرار دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم آبادی کے سلسلے میں چین کو ماڈل کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن چین نے اپنی یہ پالیسی بدل دی ہے۔

ان کے مطابق چین نے اپنی ون چائلڈ پالیسی کو ٹو اور ٹو سے تھری چائلڈ پالیسی میں بدل دیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ مرکزی حکومت کی وزارتِ صحت نے گزشتہ سال سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کیا تھا اور کہا تھا کہ فیملی پلاننگ رضاکارانہ ہونی چاہیے۔ اس میں کوئی زور زبردستی نہیں ہونی چاہیے۔ بھارت کی فیملی پلاننگ پالیسی بغیر جبر کے کامیاب ہے اور پوری دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے۔

حزبِ اختلاف کی تنقید

اتر پردیش کی حزبِ اختلاف کی جماعت ’سماج وادی پارٹی‘ نے مجوزہ قانون کی مخالفت کی ہے۔

سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمان ڈاکٹر شفیق الرحمٰن برق کا کہنا ہے کہ اگر حکومت آبادی پر قابو پانا چاہتی ہے تو شادیوں پر ہی پابندی لگا دے۔

ان کے مطابق بی جے پی ہر چیز کو سیاسی نقطۂ نظر سے دیکھتی ہے۔ اب اسمبلی انتخابات قریب آ رہے ہیں تو ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے۔

کانگریس کے سینئر رہنما سلمان خورشید کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس قسم کا قانون بنانے سے قبل یہ بتانا چاہیے کہ وزرا کے کتنے بچے ہیں۔ سیاستدان پہلے یہ اعلان کریں کہ ان کی کتنی اولاد ہے۔

ریاستی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے قائد رام گووند چوہدری نے الزام لگایا کہ ریاستی حکومت ہر محاذ پر ناکام رہی ہے۔ خواہ امنِ عامہ کا معاملہ ہو یا پھر لوگوں کو روزگار دینے کا۔

انہوں نے سوال کیا کہ اگر کسی کی دو بیٹیاں ہیں تو کیا وہ بیٹے کی امید میں تیسرا بچہ پیدا کرنا نہیں چاہے گا۔

بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی جو کہ ریاست میں بی جے پی کے ساتھ مل کر ایک مخلوط حکومت چلا رہے ہیں اس کے مخالف ہیں۔ ان کے مطابق صرف قانون بنا دینے سے آبادی کم نہیں ہوگی۔ اس کے لیے خاص طور پر خواتین میں بیداری کی ضرورت ہے۔

وشو ہندو پریشد بھی مخالف

دائیں بازو کی ایک اہم تنظیم اور بی جے پی کی معاون وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے بھی مجوزہ قانون کی مخالفت کی ہے۔ اس نے اترپردیش کے لا کمیشن کے نام ایک مکتوب میں کہا ہے کہ مجوزہ قانون سے ون چائلڈ پالیسی کو ختم کیا جائے۔

وی ایچ پی کے صدر آلوک کمار نے کہا کہ ون چائلڈ پالیسی سے مختلف برادریوں میں عدم توازن پیدا ہوگا۔

تنظیم کے جنرل سیکریٹری ملند پرانڈے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آبادی کنٹرول کا کوئی بھی قدم اس بات کو ذہن میں رکھ کر اٹھانا ہو گا کہ ہندوؤں کی بالادستی برقرا رہے۔ اگر ہندو ایک ہی بچہ پیدا کریں گے تو وہ اپنی آبادی خود ہی کم کر دیں گے۔

ان کے مطابق ہر ہندو خاندان کو سوچنا ہوگا کہ اس کے کم از کم دو بچے ہوں۔

کیا مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں؟

ڈاکٹر ایس وائی قریشی اس کی تردید کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں شرح پیدائش زیادہ ہے۔

ان کے مطابق 1951 سے لے کر 2011 کی مردم شماری تک مسلمانوں میں شرح پیدائش میں اضافہ ہوا تھا۔ وہ 9.8 سے بڑھ کر 14.2 فی صد ہو گئی تھی۔

تاہم ان کے مطابق گزشتہ 30 برس سے مسلمان ہندوؤں سے زیادہ تیزی سے فیملی پلاننگ کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک بچے کا جو فرق تھا اب گھٹ کر نصف ہو گیا ہے۔

ان کے بقول مسلمانوں کے حوالے سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ہندوؤں کا ایک بچہ ہے تو مسلمانوں کے 10 بچے ہیں۔

معروف قانون دان اور نلسار لا یونیورسٹی حیدرآباد کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفیٰ بھی مسلمانوں کے زیادہ بچے ہونے کی تردید کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں پر یہ الزام لگانا کہ وہ چار چار شادیاں کرتے اور 25، 25 بچے پیدا کرتے ہیں بالکل غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ آبادی کا مسئلہ علاقائی ہے مذہبی نہیں۔ الگ الگ صوبوں میں شرح پیدائش الگ الگ ہے۔ شرح پیدائش میں سب سے زیادہ گراوٹ مسلمانوں میں آرہی ہے۔ لیکن یو پی لا کمیشن نے اس پر غور نہیں کیا۔

اعداد وشمار کیا کہتے ہیں؟

ہندی روزنامہ ’بھاسکر‘ نے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (پانچ) کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جموں و کشمیر، کیرالہ اور مغربی بنگال سمیت جن پانچ ریاستوں میں مسلم آبادی 20 فی صد سے زیادہ ہے وہاں شرح پیدائش قومی شرح پیدائش سے 1.8 فی صد نیچے ہے۔

پاپولیشن فیڈریشن آف انڈیا کے جوائنٹ ڈائرکٹر آلوک واجپئی کے مطابق عام خیال کے برعکس شرح پیدائش کا براہِ راست تعلق مذہب سے نہیں بلکہ تعلیم، سماجی اقتصادی صورتِ حال اور صحت کے معاملات سے ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ 96 فی صد مسلم آبادی والے صوبے لکش دیپ اور 68 فی صد آبادی والے جموں و کشمیر میں شرح پیدائش 1.4 فی صد ہے۔

حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں شرح پیدائش میں مسلسل گراوٹ آ رہی ہے۔ 55-1950 میں شرح پیدائش 5.9 فی صد تھی جو کہ تیزی سے کم ہو کر 1975 تک 2.2 فی صد تک آگئی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ 2025 تک یہ شرح اور کم ہو کر 1.93 فی صد پر آ جائے گی۔

انتخابات لڑنے والے سیاسی رہنماؤں پر اطلاق کیوں نہیں کیا جا رہا ہے؟

ایس وائی قریشی نے کہا کہ اگر بی جے پی حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہے تو وہ دو سے زائد بچوں کے پنچایتی الیکشن لڑنے پر ہی کیوں پابندی عائد کر رہی ہے اسمبلی اور پارلیمنٹ کا انتخاب لڑنے پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔ بلکہ اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو ایک پالیسی لانی چاہیے۔

فیضان مصطفیٰ بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے یو ٹیوب پروگرام ’لیگل اویئرنیس ویب سیریز‘ کے لیے بنائی گئی ایک ویڈیو میں کہا کہ اگر قانون لانا ہے تو پارلیمنٹ اور اسمبلی کے لیے لایے نہ کہ مقامی بلدیاتی اداروں کے لیے قانون ہو۔

ان کے مطابق اس وقت اترپردیش میں بی جے پی کے 50 فی صد سے زیادہ ارکان اسمبلی کے دو سے زائد بچے ہیں۔ جب کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کے خود سات بھائی بہن اور وزیرِ اعلیٰ یوگی چھ بھائی بہن ہیں۔

انگریزی روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے 304 ارکانِ اسمبلی میں سے 152 کے تین یا اس سے زائد بچے ہیں۔

سرکاری ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق ایک بی جے پی ایم ایل اے کے آٹھ بچے ہیں۔ جب کہ ایک کے سات اور آٹھ ارکان کے چھ چھ اور 15 کے پانچ پانچ بچے ہیں۔

اس کے علاوہ بی جے پی کے 44 ارکان اسمبلی کے چار چار بچے اور 83 ارکان کے تین تین بچے ہیں۔

فیضان مصطفیٰ کہتے ہیں کہ اگر مذکورہ قانون یو پی اسمبلی میں نافذ ہو جائے تو بی جے پی کے نصف ارکان نا اہل قرار دے دیے جائیں گے۔

رپورٹ کے مطابق یہی صورت حال پارلیمنٹ میں بھی ہے۔ گورکھپور سے بی جے پی کے رکن اسمبلی روی کشن آبادی کنٹرول کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں ایک پرائیوٹ ممبر بل پیش کرنے والے ہیں اور ان کے خود چار بچے ہیں۔

لوک سبھا کی ویب سائٹ کے مطابق 168 موجودہ ارکان پارلیمنٹ کے تین یا اس سے زائد بچے ہیں۔ ان میں بی جے پی کے ارکان کی تعداد 105 ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments