مریخ روور: ناسا کا پرسیورینس مریخ سے پتھر کا پہلا نمونہ ڈرل کرنے کے لیے تیار
امریکی خلائی ایجنسی کا پرسیورینس روور مریخ کی چٹان کا پہلا نمونہ لینے کے لیے تیار ہے۔
ایک انگلی کے حجم جتنا یہ ٹکڑا ایک مہر بند ٹیوب میں پیک کیا جائے گا جس کے بعد اسے زمین پر لایا جائے گا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جدید ترین تجربہ گاہوں میں مریخ کی سطح سے آنے والے مادے کا مطالعہ کر کے ان کے لیے اس بات کا تعین کرنے کا بہترین موقع ہو گا کہ آیا مریخ پر کبھی زندگی تھی۔
پرسیورینس فروری میں سیارے کے جیزیرو نامی 45 کلومیٹر چوڑے (30 میل) گڑھے میں اترا تھا۔
مصنوعی سیارے سے بھیجی جانے والی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کبھی ایک جھیل ہوا کرتی تھی اور ایک دریائی ڈیلٹا سے پانی ملا کرتا تھا۔
اس طرح، یہ قدیم مائکروبیل حیاتیات کے تحفظ کے لیے ایک بہترین جگہ سمجھی جاتی ہے، اگر وہ کبھی یہاں موجود تھی تو۔
ناسا کا یہ روبوٹ اس مقام سے تقریباً 1 کلو میٹر جنوب کی سمت سفر کر چکا ہے جہاں وہ پانچ ماہ قبل ڈرامائی انداز میں اترا تھا۔
اب یہ ایک ایسی جگہ پر رک گیا ہے جسے ’پیور سٹونز‘ یا ’فکچرڈ رف‘ کا نام دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیئے
پرسیویرینس کے کیمروں سے مریخ کی سطح کی پہلی جھلکیاں
مریخ پر 3000 دن: ناسا کیوروسٹی روور نے سرخ سیارے پر کیا دیکھا؟
پرسیورینس روور نے مریخ سے رنگین کے بجائے بلیک اینڈ وائٹ تصویر کیوں بھیجی؟
یہ ہلکے رنگ کے پتھروں کا ایک مجموعہ ہے جس کے بارے میں مشن ٹیم کا خیال ہے کہ جیزیرو کی تہہ یا فرش ہے۔
سائنس دان یہ طے کرنا چاہتے ہیں کہ آیا یہ پیور سٹونز ریتلی مٹی یا آتش فشاں سے بنے ہوئے ہیں۔
چیف سائنس دان کین فارلی کہتے ہیں یہ دونوں صورتوں میں دلچسپ ہے، لیکن آتش فشاں کی چٹانوں کی خاص خوبی یہ ہے کہ لیبارٹری میں بہت درستگی کے ساتھ ان کی مدت کا اندزہ لگایا جا سکتا ہے۔
انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’اس سے واقعی مریخ پر نظر آنے والی بہت سی چیزوں کی عمر معلوم ہو جائے گی۔‘
پرسیورینس پہلے مریخ کے پیور سٹون کے منتخب کردہ حصے کی سطح کو کھرچے گا تاکہ اس پر جمی مریخ کی گرد صاف ہو سکے اس کے بعد اپنے طاقت اور آلات سے اس سائٹ کا جائزہ لے گا۔
یہ اس کے روبوٹک بازوؤں کے سرے پر لگے ہیں جو کسی چٹان کے اندر کیمیائی ساخت، معدنیات اور ساخت کا تعین کرنے کے اہل ہیں۔
اگست میں روبوٹ کھدائی کیے گئے حصے کو محفوظ کر لے گا۔
روور اپنے مشن کے دوران 40 ایسے چھوٹے چھوٹے نمونے ٹیوبوں میں محفوظ کرے گا۔ بعد میں ناسا اور یوروپی سپیس ایجنسی (ESA) کے پروجیکٹس ان کی ملکیت لینے اور انھیں گھر لانے کے لیے مریخ پر پہنچیں گے۔
پروفیسر فارلی نے کہا کہ انھیں توقع ہے کہ گڑھے کے علاقے میں چار انوکھے نمونے جمع کیے جائیں گے جن کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ اس میں چٹان کا دلفریب ظاہری حصہ بھی شامل ہے جسے آرٹوبی کہتے ہیں۔ یہ لگ بھگ 600 میٹر کی دوری پر ہے اور لگتا ہے کہ اس میں کچھ بہت ہی پتلی پرتدار گاد ہے، جو ممکنہ طور پر جھیل اور دریائی ڈیلٹا سسٹم کے ذریعہ جمع ہوئی ہو گی جو کبھی جیزیرو میں ہوا کرتا تھا۔
کیلیفورنیا کے انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے محقق کا کہنا تھا کہ ’یہ بالکل وہی چٹان کی قسم ہے جس میں ہم ممکنہ قدیم حیاتیاتی نشانیوں کی تلاش کی تحقیق کے لیے دلچسپی رکھتے ہیں۔‘
پرسیورینس جس انداز میں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اس سے ناسا خوش ہے۔
اس کے ڈرائیونگ کے انداز میں بھی ایک کامیابی ہے جس میں اب بہت زیادہ خودمختاری آ چکی ہے۔
پچھلی گاڑیوں کو سمت کے تعین کے لیے زمین پر موجود کنٹرولرز کی طرف سے ہدایات درکار ہوتی تھیں، یا خود کار طریقے سے وہ بہت کم رفتار سے چل سکتی تھیں، جبکہ پرسیورینس تیزی سے آگے کا راستہ دیکھ سکتا ہے اور بڑی مہارت سے روٹ تیار کر سکتا ہے۔ یہ روبوٹ 100 میٹر یا اس سے زیادہ کی ڈرائیو کے لیے مشکل رکاوٹوں کو ختم کر سکتا ہے، جیسے راستے میں آنے والے بڑے پتھر یا دراڑیں۔
روور کی مدد ایک منی ہیلی کاپٹر کر رہا ہے جسے وہ مشن پر ساتھ لے گیا تھا۔
انجینویٹی کے نام سے پکارا جانے والا یہ چھوٹا ہیلی کاپٹر خطے کا سروے کرنے کے لیے پرسیورینس سے آگے اڑتا ہے۔
ناسا پراجیکٹ مینیجر جینیفر ٹروپر کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ابھی اس کی نویں پرواز مکمل کی ہے۔‘
’اس نے ہمارے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اس کا دورانیہ دو منٹ 46 سیکنڈ تھا، رفتار پانچ میٹر فی سیکنڈ، اور ہم نے اب تک کی پروازوں سے چار گنا زیادہ طویل پرواز کی، اور ہم نے تقریباً 625 میٹر تک کی پرواز کی ہے۔‘
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).