شوہر یا لائسنس یافتہ ریپسٹ؟


گزشتہ دنوں ازدواجی آبروریزی (marital rape) کے موضوع پر دو متضاد رائے کے حامل مضامین نگاہ سے گزرے۔ پہلا محترمہ صائمہ ملک کا تھا: بیوی یا لائسنس یافتہ سیکس ورکر؟ دوسرا اس کے جواب میں لکھا گیا تھا: بیوی کو سیکس ورکر مت کہیں۔ یہ بشیر اعوان صاحب کا تھا۔ ازدواجی آبروریزی کے بارے میں جو لوگ نہیں جانتے یا کسی ابہام کا شکا ر ہیں، ان کے لئے عرض ہے کہ بیوی کی مرضی کے خلاف، لالچ یا دھمکی دے کر، بلیک میل کر کے، یا کسی اور طریقے سے زبردستی جنسی تعلقات قائم کرنے کا نام ازدواجی آبروریزی ہے۔ اسے زنا بالجبر بھی کہہ سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے اسے ہمارے ہاں برائی سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اور یہ بات بشیر اعوان صاحب کے قلم سے تحریر کردہ مضمون سے عیاں تھی۔ اس کی جڑ دراصل مولوی کا رٹایا ہوا وہ درس ہے کہ شوہر، مجازی خدا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ تعلقات سے انکار کرنے پر بیوی کو تمام رات فرشتے لعنت کرتے ہیں۔

ہم اسلامی تعلیمات سے اختلاف یا انکار نہیں کر سکتے لیکن کسی حدیث والے یا قرآنی حوالے کی تحقیق ضرور کر سکتے ہیں۔ جب دین اسلام مرد کو بیوی سے مہربانی اور نرمی کا سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس کا واحد مطلب یہی ہے کہ وہ ازدواجی تعلقات اور دیگر ہر طرح کے معاملات میں اس کی رضا و اجازت کا خیال رکھے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ ایک طرف مہربانی اور نرمی سے پیش آنے کا حکم ہو اور دوسری طرف بیوی کی اجازت یا رضا کے بغیر اس سے جنسی تعلق جیسے وحشیانہ پن کو جائز قرار دے دیا جائے۔ اسلام جو دین فطرت ہے، اس کے احکامات میں اس قدر تضاد کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ حیرت ہے۔

عورت کے انکار اور فرشتوں کی لعنت سے متعلق مولوی حضرات کا بیان انتہائی تحقیق اور غور و فکر کا متقاضی ہے۔ جو دین بیوی کو یہ حق دیتا ہے کہ شوہر کسی کام سے اسے نیند سے نہ جگائے، کیا وہ شوہر کو بیوی کی رضا کے بغیر تعلقات کی اجازت دے سکتا ہے؟ میرا دل نہیں مانتا۔

بشیر اعوان صاحب نے بڑی شد و مد سے فرمایا کہ مرد کو جانور اور ظالم نہ سمجھیں۔ مرد کے جانور اور ظالم ہونے کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو گا کہ عائلی عدالتوں میں خواتین کی طرف سے خلع اور طلاق کے ہزاروں مقدمات زیر سماعت یا زیر التواء ہیں۔ اور ان مقدمات سے ماورا لاکھوں عورتیں گھروں میں مردانہ وحشیانہ پن اور ہر طرح کے تشدد کا شکار ہیں۔ یہ خواتین خلع یا طلاق کے لئے عدالت سے بہ امر مجبوری رجوع نہیں کر سکتیں۔

صائمہ ملک صاحبہ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ایسی بے شمار عورتیں، مرد کا جنسی تشدد صرف اس لئے برداشت کرنے پر مجبور ہیں کہ ان کے سروں پر طلاق کی تلوار لٹکی ہوتی ہے اور طلاق کی صورت میں ہمارا معاشرہ تو کیا خاک، عورت کے باپ اور بھائی تک اس کا ساتھ دینے کا ظرف نہیں رکھتے۔ ایک طرف عورت، شوہر کے ظلم کا شکار ہوتی ہے تو دوسری طرف اس کا خاندان اسے ظالم اور جابر کے ساتھ رہتے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ کتنے فیصد باپ اور بھائی ایسے ہیں جو طلاق کے بعد بیٹی یا بہن کو گھر رکھنا گوارا کریں، خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو اور ملازمت کر کے اپنا بوجھ خود اٹھانے کی استطاعت بھی رکھتی ہو۔

معاشرے کے خوف سے ظالم کے ظلم پر خاموشی ازخود ایک ظلم ہے جو ہم اپنی بیٹیوں بہنوں پر کر رہے ہیں۔ آخر باپ اور بھائی بھی تو مرد ہیں، وہ کیوں عورت کا ساتھ دے کر اپنی ناک کٹوائیں گے؟ انہیں لگتا ہے کہ عورت کا ساتھ دینے سے وہ سر پر چڑھ جائے گی اس لئے اس کا جوتیوں میں رہنا ہی بہتر ہے، بھلے اس کی جان ہی چلی جائے۔ لیکن پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ جس کی بیٹی یا بہن، شوہر کے ظلم سہتی ہو، کیا اس مرد کی بھی ناک ہوتی ہے؟

جو بیٹی یا بہن کے حق میں بولنے اور اسے ظلم سے نجات دلانے کا ظرف نہ رکھتے ہوں، کیا وہ بھی مردوں میں شمار کیے جائیں؟ یہاں مجھے 80 ء کے عشرے کی ایک فلم ’صائمہ‘ (ندیم، بابرہ، بازغہ، راحت کاظمی، بہار بیگم) یاد آتی ہے جس میں ہمارے لیجنڈ اداکار ندیم صاحب نے ایک ایسے بھائی کا کردار ادا کیا تھا جس کی بہن، شوہر اور ساس کے ظلم کا شکار ہے۔ اس کا شوہر کسی اور لڑکی سے افیئر بھی چلا رہا ہے لیکن بھائی بے چارہ خاموشی سے برداشت کرنے پر مجبور ہے۔

ندیم صاحب کا ایک مکالمہ ہے : ”ہم نہیں بولیں گے کیونکہ ہم بہن کے بھائی ہیں۔“ کیا ایسے بھائیوں کو ڈوب کر مر نہیں جانا چاہیے جو بہن پر ہونے والے ظلم اور بہنوئی کی بدچلنی صرف اس لئے برداشت کر رہے ہوں کہ بہن کو طلاق ہو جانے کی صورت میں محلہ اور معاشرہ ان لوگوں کو جینے نہ دے گا۔ آپ ایک جاہل اور وحشی معاشرے کی خاطر اپنی بہن پر ہونے والی زیادتیاں برداشت کر رہے ہیں؟ پھر تو آپ سے بڑا ’غیرت مند‘ کوئی اور نہیں۔

اگر بیٹی یا بہن کی طلاق سے آپ کا منہ کالا ہو جاتا ہے تو اس پر ہونے والے جنسی تشدد سے کیا آپ کی عزت افزائی ہوتی ہے؟ یقیناً ایسے مردوں کی بہت واہ واہ ہوتی ہو گی جس کی بیٹی یا بہن روزانہ کمرے کی چاردیواری میں شوہر کے ہاتھوں ذلیل ہوتی اور آبروریزی کرواتی ہو۔ کوئی غیر مرد بیٹی یا بہن کو گھور کر دیکھ لے تو غیرت سے تڑپ جائیں لیکن شوہر مار مار کر قتل بھی کر دے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لئے کہ وہ شوہر اور مجازی خدا ہے، اسے حق ہے۔ ہے ناں؟ ہمیں فخر کرنا چاہیے کہ ہمارا معاشرہ ایسے کروڑہا ’غیرت مند‘ باپوں اور بھائیوں سے بھرا پڑا ہے۔ جو غیرت بیٹیوں بہنوں کو شوہر کے جنسی تشدد اور سسرال کے ظلم سے نہ بچا سکے، میری طرف سے اس پر تھو۔

واپس اپنے موضوع کی طرف آتی ہوں۔ صائمہ ملک صاحبہ کو اپنے مضمون کا عنوان سیکس ورکر نہیں بلکہ ریپسٹ رکھنا چاہیے تھا۔ خیر، میں نے یہ عنوان اپنے مضمون کو دے کر کمی پوری کر دی ہے۔ شکر ہے اللہ کا کہ اب چند برس سے اس ممنوعہ اور بے حیائی کہلانے والے موضوع پر بات شروع ہو گئی ہے ورنہ پہلے تو marital rape کو مجازی خدا کا شرعی اور قانونی حق تسلیم کیا جاتا تھا۔ شوہر کی طرف سے جنسی تشدد اور ازدواجی آبروریزی کو اس کا جائز حق صرف اس لئے تسلیم کر لیا گیا ہے کہ عورت اس کے نکاح میں ہوتی ہے؟

تو گویا نکاح نامہ، ازدواجی آبروریزی اور جنسی تشدد کا لائسنس ہے۔ جس کے پاس یہ لائسنس ہو گا، اسے عدالت، جج، وکیل، اسلامی تبلیغ کرنے والا نام نہاد مولوی کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ خود اس لائسنس کو بطور ہتھیار عورت کے خلاف صدیوں سے استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں تاکہ وہ ان کی غلامی کرتی رہے۔ ایسی صورت میں بیوی پر جنسی تشدد کرنے والے شوہر کے لئے ’لائسنس یافتہ ریپسٹ‘ کا لقب مناسب نہیں؟

بشیر صاحب نے فرمایا کہ عورت کے انکار کی صورت میں مرد گھر سے باہر اپنی ضروریات پوری کرنے کے راستے تلاش کرنے لگتا ہے۔ میں کہتی ہوں جن عورتوں کے شوہر نامرد ہیں یا انہیں چھوڑ کر کئی کئی برس ملک سے باہر رہتے ہیں، وہ بھی گھر سے باہر کوئی بوائے فرینڈ یا کرائے کا آدمی تلاش کرنے کا حق رکھتی ہیں۔

دو حقیقی واقعات سن لیں۔ ایک ریپسٹ اپنی بیوی پر اس قدر جنسی تشدد کرتا آ رہا ہے کہ وہ رو رو کر معافیاں مانگتی ہے اور اسے دوسری شادی تک کا کہہ چکی ہے لیکن وہ باز آنے یا دوسری شادی کرنے پر راضی نہیں کیونکہ اسے موجودہ بیوی سے جنون کی حد تک عشق ہے۔ اور اس عشق میں وہ ایک جنسی درندہ بن چکا ہے۔ مگر دوسری شادی کی صورت میں ایک اور عورت اس کے جنگلی پن کا نشانہ بنے گی۔ دوسرے ریپسٹ نے پہلی ہی رات بیوی سے وہ وحشیانہ سلوک کیا کہ وہ وفات پا گئی۔ اس وقت وہ وحشی دو بیویوں کا شوہر ہے مگر بے چارے کی جنسی ہوس کی نا آسودگی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ دونوں بیویاں اس کی تیسری شادی کروانے کا کہہ چکی ہیں۔ کیا تیسری شادی سے اس کی ہوس ختم ہو جائے گی؟ ہرگز نہیں۔

اس مضمون پر یقیناً مرد حضرات کی طرف سے کافی دشنام طرازی ہو گی۔ لیکن اگر عورت کے انسانی حقوق کو انسانیت کے احساس کے ساتھ دیکھا اور سمجھا جائے تو بلاشبہ یہ جرم ہی محسوس ہو گا۔ مرد قارئین خود ہی اس کا کوئی علاج تجویز کر دیں تاکہ عورت کو جنسی، جذباتی، نفسیاتی، اور جسمانی تشدد سے نجات ملے۔ آپ کی شریک حیات بھی سکون سے زندگی گزارنے کا حق رکھتی ہے۔

نوٹ:

(امید ہے کہ ایک صاحب جو اکثر عورت کے انسانی حقوق پر لکھے گئے مضامین پر جلی کٹی رائے دیتے ہیں اور اپنے چرواہا ہونے پر فخر کا اظہار بھی کر چکے ہیں، وہ حسب معمول جلا کٹا تبصرہ کر کے اپنے سوز دروں کا اظہار کریں گے۔ لیکن عورت کی حمایت اور اس کے انسانی حقوق کی بات کرنے پر جلنے اور کڑھنے سے کوئی تبدیلی نہ آئے گی سوائے یہ کہ خود کو ٹھنڈا کرنے کے لئے برنال کی ضرورت پڑے اور خواہ مخواہ کا خرچہ ہو۔ )

(ہم سب کے مدیر اس نوٹ کو مضمون کے آخر میں ضرور شامل کریں۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments