بابو سر ٹاپ سے خنجراب پاس تک


موٹر وے لاہور سے براستہ ہزارہ موٹر وے آپ نیشنل ہائی وے پندرہ پر سفر کرتے مانسہرہ سے بالاکوٹ، کیوائی، کاغان اور ناران سے گزرتے ہوئے، جھیلوں، آبشاروں اور جھرنوں کے درمیان دریائے کنہار کے کنارے سفر کرتے مانسہرہ سے بابو سر ٹاپ تک کوئی سو میل کا سفر کر کے ”بابو سر ٹاپ“ تک پہنچتے ہیں۔ بابو سر ٹاپ کوئی 13700 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور وادی کاغان کا سڑک سے مربوط بلند ترین مقام ہے۔ یہ سڑک عام طور سے مئی سے ستمبر تک کھلی ہوتی ہے۔

سال کے باقی حصے برف باری اسے سفر کے قابل نہیں رہنے دیتی۔ ان دنوں یہ سڑک پنجاب اور کے پی کے سے گلگت بلتستان کا آسان ترین سفری ذریعہ ہوتی ہے۔ گلگت بلتستان کا دوسرا راستہ شاہراہ قراقرم ہے جو سال کے بارہ مہینے کارآمد رہتی ہے لیکن سفر لمبا ہے اور خشک کالے پہاڑ سفر کی ویرانی کو بیزاری میں بدلنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

بابو سر ٹاپ پوری طرح برف سے ڈھکا ہوا تھا۔ کالے بادل امڈ آئے تھے اور تیز ہوا چلنے لگی تھی۔ برف کے گولے بناتے بناتے چھوٹو سردی سے ٹھٹھرنے لگی تھی۔ وہ بابا بابا کہتے میرے ساتھ چمٹ گئی۔ موسم خراب ہو رہا تھا اور لوگ چھت والے واحد ڈھابے کے احاطے میں جمع ہو رہے تھے۔ جن کو جگہ نہیں مل رہی تھی وہ اپنی گاڑیوں میں پناہ لینے پر مجبور تھے۔ واش روم جو اگرچہ بہت گندے تھے مگر غنیمت تھے۔ ہم نے ڈھابے سے بے سوادے پکوڑے کھائے اور ایسی ہی چائے پی۔ ہمیں یہاں رکے کوئی گھنٹہ ہو گیا تھا۔ ہمارا پلان رات تک ہنزہ پہنچنے کا تھا اس لئے گاڑی کی طرف چل پڑے۔

بابو سر ٹاپ کی بلندی سے چلاس کی وادی کا سفر اور سڑک دنیا کے خطرناک راستوں میں سے ایک ہے۔ سڑک اتنی تیزی سے بل کھاتی ہوئی نیچے اترتی ہے کہ پسینہ آ جاتا ہے۔ بابو سر ٹاپ پر پہنی جیکٹیں عذاب لگنے لگتی ہیں۔ میدانی علاقوں کے اکثر ڈرائیور گاڑی کے بریک فیل کروا بیٹھتے ہیں اور کئی حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہاں گاڑی کو اونچے گیر میں چلانا ہوتا ہے اور بریک کا استعمال محدود کرنا ہوتا ہے۔ یہ بات میں اپنے بیٹے کو بتا رہا تھا، جسے اپنے انٹر نیشنل ڈراؤر ہونے پر فخر تھا۔ شکر ہے اس کی فرماں برداری میری حد سے زیادہ بڑھی تشویش کو کم کرتی رہی۔

بابو سر سے چلاس کوئی تیس کلو میٹر نیچے واقع ہے۔ پندرہ کلومیٹر نیچے ہم ظہر کی نماز اور چائے وائے کے لیے سڑک کے کنارے بنے ایک چائے کے ہوٹل پر رک گئے۔ یہاں قریب ہی لڑکے گاڑیاں دھو رہے تھے۔ میرا بیٹا ہمیں ہوٹل چھوڑ کر گاڑی دھلوانے مصروف ہو گیا۔ یہ ہوٹل سڑک اور ندی کے درمیان میں بنا ہوا تھا۔ دھوپ کافی تیز تھی مگر ہوٹل والے نے بڑی چھتریاں لگائی ہوئی تھیں۔ ندی کا پانی شفاف اور برفیلا تھا۔ یہ ندی بابو سر کے ایک گلیشیر سے نکلتی ہے۔

ندی کے ٹھنڈے پانی سے وضو کر کے سکون اور اطمینان ہوا۔ چائے بھی اچھی مگر چپس بکواس تھے۔ چائے کا بل دیکھ کر ہوٹل والے کی غربت اور سادگی کا اندازہ ہوا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ ابھی بابو سر ٹاپ پر اس سے بھی بری چائے سو روپے کپ اور پچاس روپے فی کس گندے واش روم کے دے کر آئے ہیں تو اس نے ہمیں بڑی سادگی سے بتایا کہ ہمارے باپ نے مسافروں کی جیب کتری سے منع کیا ہے۔ گاڑی ابھی صحیح طرح دھلی نہیں تھی۔ بیگم ڈھابے والے کو کرپسی چپس بنانے کا طریقہ سمجھانے لگی۔

چلاس چھوٹا سا شہر ہے جو دریائے سندھ کے کنارے قراقرم ہائی وے کے ساتھ اور اوپر بابو سر کی طرف پھیلا ہوا ہے۔ یہ دیامر ڈسٹرکٹ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ جیسے جیسے ہم چلاس شہر کی طرف جا رہے تھے۔ گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ جس تیزی کے ساتھ سڑک نیچے اتر رہی تھی، اسی تیزی کے ساتھ پہاڑوں کا رنگ سبز سے مٹیالا اور سیاہی مائل ہوتا جا رہا تھا۔ پہاڑوں کی ایک طرف سرسبز اور ٹھنڈی برفانی کاغان وادی ہے تو دوسری طرف خشکی کا راج نظر آیا۔ دراصل بابو سر ٹاپ اور نانگا پربت مون سون ہواؤں کے راستے کی دیوار بن کر کھڑے ہیں جو اسے پہاڑ کی دوسری طرف بارش برسانے سے روکتے ہیں۔ ہم بابو سر ٹاپ سے نکلی ٹھنڈے اور شفاف پانی کی ندی کے ساتھ تعمیر شدہ روڈ پر سفر کرتے چلاس سے گزر کر شاہراہ قراقرم پر چل رہے تھے

”شاہراہ قراقرم“ جسے شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں، دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہلاتی ہے۔ یہ عظیم شاہراہ پاک چائنا مشترکہ جد و جہد کی عظیم داستان ہے۔ یہ سڑک 1959 سے 1979 تک بیس سال کے عرصے میں تعمیر کے مراحل مکمل کر کے معرض وجود میں آئی۔ 1300 کلو میٹر لمبی یہ سڑک دریائے سندھ کے کنارے پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر بنائی گئی ہے۔ مانسہرہ سے خنجراب تک 800 کلومیٹر پاکستان میں طے کرک یہ سڑک چین میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس سڑک کی تعمیر کے دوران کوئی ایک ہزار لوگوں نے اپنی زندگی کی قربانی دی جن میں 800 پاکستانی اور باقی چینی تھے۔ مانسہرہ اور خنجراب پاس کے درمیان اس سڑک پر بیشام، چلاس، جگلوٹ، گلگت، ہنزہ اور سوست کے مشہور مقامات آتے ہیں

دوپہر کا وقت تھا۔ ہماری منزل ہنزہ میں کریم آباد تھی۔ ہم شام سے پہلے کریم آباد پہنچنا چاہتے تھے۔ اس لئے کہیں رکنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ ایک ڈھابہ ہوٹل سے کابلی پلاو کی دو پلیٹ پارسل کرائیں اور گاڑی میں جا بیٹھے۔ کابلی پلاو یہاں تقریباً ہر ہوٹل سے مل جاتا ہے اور کافی حد تک قابل بھروسا بھی ہوتا ہے۔ یہ مگر شاندار تھا اور گرم بھی، شاید تازہ تازہ بن کر آیا تھا۔ ہم پانچ لوگوں نے پانچ سو میں شاندار ورکنگ لنچ کیا۔ خدا اس ہوٹل والے کو سلامت رکھے۔

کوئی ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ہم رائے کوٹ برج سے گزر رہے تھے۔ یہ وہ پوائنٹ ہے جہاں سے ”فیری میڈوز“ کے لیے راستہ نکلتا ہے۔ ”فیری میڈوز“ فیملی اور بچوں کے ساتھ جانے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ہم کئی سال پہلے دوستوں کے ساتھ آئے تھے۔ رائے کوٹ کے مقام پر اپنی وین پارک کی تھی۔ صبح نو بجے کا وقت تھا۔ تب ہم نے چلاس میں نائٹ سٹے کیا تھا۔ رائے کوٹ سے جیپ والا ہمیں ایک کچے دشوار اور تنگ راستے پر چڑھائی کرتے ہوئے لے جا رہا تھا۔

جیپ ہچکولے کھا رہی تھی۔ میرے ساتھ بیٹھا نسیم اونچی آواز میں آیت الکرسی تلاوت کر ہا تھا۔ میرے خیال سے ہم نے اپنی زندگی کا خطر ناک ترین سفر کیا تھا۔ اگلے دن واپسی پر اترائی کے وقت تو دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ الامان۔ جیپ والا ہمیں ”تاتو“ گاؤں تک لے گیا تھا جہاں ہم نے رک کر چائے پی تھی۔ گاؤں سے اوپر ایک گائیڈ کے ہمراہ ہم نے کوئی چار گھنٹے کی ٹریکنگ کی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد نسیم تھک کر بیٹھ جاتا تھا۔

ہم شام کو دنیا کے اس خوبصورت پریوں کے دیس پہنچے تھے جو شاید دنیا کی چند خوبصورت تریں میڈوز میں شامل ہے۔ ساری تھکن قدرت کے اس حسین شاہکار کو دیکھتے کی کہیں غائب ہو گئی تھی۔ ان دنوں یہاں صرف ایک ہی کیمپنگ ہٹس ہوٹل ملا تھا جس کے کمرے گائیڈ نے پہلے ہی بک کروا رکھے تھے۔ رات کو مکمل اندھیرا تھا اور روشنی کے لئے لالٹین جلائے گئے تھے۔ رات کے اندھیرے میں ہم نے کیا کھایا، کچھ پتہ نہیں کہ اس ذائقے کا پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا۔ بہر حال بھوک ہو تو ہر ذائقہ اچھا ہوتا ہے۔ یہاں سے نانگا پربت کے بیس کیمپ کا راستہ نکلتا ہے جو کہ ہائیکرز استعمال کرتے ہیں۔

خیالات کا تانا بانا ٹوٹا توہم جگلوٹ پہنچ چکے تھے۔ گاڑی نعمان چلا رہا تھا۔ اس نے ایک مانومنٹ کے پاس گاڑی روکی۔ دس بارہ فٹ کی بلندی پر تعمیر کیا گیا یہ پوائنٹ سیاحوں کی توجہ دنیا کے تین بلند ترین پہاڑی سلسلوں، کوہ ہندوکش، قراقرم اور کوہ ہمالیہ کے جنکشن کی طرف دلاتا ہے۔ پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جس میں دنیا کے تین سب سے بڑے پہاڑی سلسلے موجود ہیں۔ ہم نے

گاڑی سے نکل کر اس خوبصورت جنکشن کا مشاہدہ کیا اور فوٹو گرافی کی۔ یہاں موجود پبلک واش روم شاید قراقرم سڑک پر بنایا گیا واحد پبلک ٹائلٹ ہے جو صاف ستھرا بھی تھا۔ قراقرم ہائے وے پر چائے پانی کے ڈھابے بھی کہیں گھنٹوں کی ڈرائیو کے بعد ملتے ہیں۔ جگلوٹ سے کوئی چھ کلو میٹر اوپر ایک سسپنشن برج ہے جو دریائے سندھ کے اوپر انیسویں صدی میں مہاراجہ کشمیر پرتاب سنگھ نے بنوایا تھا۔ جگلوٹ سے ہیں ایک سڑک شاہراہ ریشم کو سکردو سے ملاتی ہے جو یہاں سے کوئی ڈیڑھ سو کلومیٹر دور ہے۔ یہ سڑک نئے سرے سے زیر تعمیر ہے اور f w o اسے تیزی سے تکمیل کی طرف لے کر جا رہا ہے۔

شاہراہ ریشم آج کل تو سفر کے لئے محفوظ سمجھی جاتی ہے اگرچہ کئی سال قبل چلاس کا علاقہ دہشت گردی کی آماجگاہ بن گیا تھا۔ یہاں شیعہ مسافروں کو گاڑیوں اور بسوں سے اتار کر چن چن کر مارا جانے لگا تھا۔ صورت حال اتنی خراب ہوئی کہ گاڑیوں کے رینجرز کی نگرانی میں کانوائے بنا کر سفر کیا جانے لگا تھا۔ شکر ہے پاک آرمی نے حالات کو کنٹرول کر لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments