یونیورسٹیاں۔ ڈگری کی منڈیاں


میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشا نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں

بہت سوچ سمجھ کر اس عنوان پر قلم اٹھانے کی جسارت کر رہا ہوں۔ کیونکہ ہمارے نظام تعلیم میں نا سکھائی جانے والی باتوں میں سے ایک بات ”برداشت“ بھی ہے۔ کوئی بھی منڈی میرا مطلب یونیورسٹی ناراض ہو سکتی ہے۔

ایک طالب علم جب اپنا تعلیمی سفر شروع کرتا ہے تو اس کے ذہن میں والدین، معاشرے، دوست احباب، اور اس تعلیمی ادارے جس میں وہ ابتدائی مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے، کی جانب سے کچھ خواب بٹھائے جاتے ہیں۔

خواب، کچھ کر گزرنے کے۔ خواب کچھ بن جانے کے۔ خواب کہیں اعلیٰ ترین سطح پر پہنچ جانے کے۔

خواب دیکھنا اچھی بات ہے۔ پر ایسا خواب نہیں جو نیند میں آئے، بلکہ ایسا خواب جو سونے نا دے۔ مگر شومئی قسمت ہماری تعلیم میں ایسے کسی امر کا گزر نہیں ہے۔

طالب علم کی بتدریج بڑھتی ہوئی خوابوں کی تعبیر کی پیاس اسے مقابلے پر اکساتی ہے۔ ایسا مقابلہ جس میں اسے غلط صحیح کے بارے بتایا جانے پر بھی کام ہونا ابھی باقی ہے۔

اپنی تعلیمی درجہ بندیوں کو پھلانگتے ہوئے طالب علم بالآخر یونیورسٹی جیسی سرزمین پر قدم رکھتا ہے۔ جہاں اسے حقیقت میں اپنے خوابوں کو پورا کرنا ہوتا ہے۔

پر کیا ایسا ہو پاتا ہے؟ کیا ایسا تعلیمی ماحول مہیا کیا جاتا ہے؟ کیا وہاں تعلیم و تدریس کا ایسا معیار موجود ہوتا ہے؟ کیا وہاں تعلیم کے ساتھ تربیت بھی لازمی جزو ہوتی ہے؟ یہ تمام سوالات حل طلب ہیں۔

بصد معذرت یونیورسٹیوں کو ایسا ہونا چاہیے تھا، جیسی یہ اب نہیں ہیں۔ یہاں صرف ڈگری کا کاروبار ہوتا ہے اور فیس کے نام پر بھتہ دیا جاتا ہے۔ ایک عام قابل فہم آدمی یہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ چار سالہ ڈگری کی سال میں دو بار ستر ہزار فیس لیے جانے کے باوجود اگر ایک طالب علم بھی تخلیقی صلاحیتوں سے محروم ہے تو یہ ان با صلاحیت صاحب اختیار لوگوں پر سوالیہ نشان ہے جو ان اداروں کے کرتا دھرتا ہیں۔

دوسری طرف دیکھا جائے تو یونیورسٹیوں میں با اختیار صلاحیتوں کے مالک ایک نسل پائی جاتی ہے جسے عام حالات میں پروفیسر اور خاص حالات میں ”سپروائزر“ جیسے القابات دیے گئے ہیں۔ یہ وہ خاص طبقہ ہے جہا‌ں اصلاح کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہ وہ خاص طبقہ ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر طلبہ استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔

کبھی قریب نا ہونے پر استحصال، تو کبھی خدمت نا کرنے پر استحصال۔ آئے روز اخبارات کی زینت بنتے ہوئے نت نئے سکینڈل، اور روز نئے ہراساں کیے جانے کے کیس اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ کہیں تو گڑ بڑ ہے اس یونیورسٹی نما منڈی میں۔ اور یاد رہے منظرعام پر آنے والے کیس حقیقی مسائل کا صرف دس فیصد ہو سکتے ہیں۔

ان مسائل کی آڑ میں ان طالب علموں کے ان خوابوں سے کھلواڑ ہوتا ہے جو میں ابتدا میں بیان کر چکا۔ اور کئی ہونہار طلباء اپنے خواب چکناچور ہوتا دیکھ کر ہمت ہار جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے اس ملک و قوم کو سنوانا ہوتا ہے۔ اور اس تمام استحصالی نظام سے ایک ڈگری کا ورق تو موصول کر لیتے ہیں مگر ذہنی اپاہج ہو کر نکلتے ہیں۔

اے گردش ایام مجھے رنج بہت ہے
کچھ خواب تھے ایسے جو بکھرنے کے نہیں تھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments