کباڑی کی دکان


جام صاحب کے ایک دوست جاوید کباڑیہ صاحب تھے، وہ لاہور کے سب سے بڑے کباڑیہ تھے ان کا کہنا تھا اگر کسی قوم کی ذہنی حالت کا اندازہ لگانا ہو تو اس قوم کی کسی کباڑی کی دکان کی سیر کریں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ گنگا کس رخ پر بہہ رہا ہے۔

جام صاحب بتاتے ہیں کہ جاوید کباڑیہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی رگ رگ سے واقف ہے۔ جاوید کے مطابق اس ملک کے امراء امپورٹڈ کے دیوانے ہیں، مڈل کلاس مری کی پہاڑی پر جا کر خوش ہوتی ہے اور غریب دیسی اور دو نمبر پر گزارہ کرتے ہیں۔ یعنی کے سب جھومتے ہیں مگر اپنی اپنی اوقات کے مطابق، جاوید کباڑیہ کے مطابق، اس کے پاس خالی بوتلوں کا بیش قیمت خزانہ موجود ہے اور ایک اندازہ کے مطابق وہ دنیا کا سب سے بڑا خزانہ ہے۔

جاوید کباڑیہ صاحب کہتے ہیں کہ یہ قوم صرف ایک شے سے پیار کرتی ہے وہ ہے بیرون کی شے، وہ کہتے ہیں ہمارے پاس جو بھی سامان آتا ہے وہ باہر کا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے ہر شے جو باہر کی بنی ہوئی ہے وہ اس قوم کو پسند ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔ اس بات سے انہوں نے دو سبق سیکھے ہیں ایک یہ کہ آپ اپنی جو شے بھی بنائیں اس کو بیرون کا ظاہر کریں تاکہ آپ کا مال بک جائے اور دوسری یہ کہ ہم ہمیشہ اپنی شے سے غیر مطمئن رہنے والے لوگ ہیں کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر۔

جاوید کے مطابق ردی ہماری دکان کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ ردی میں بنیادی طور پر درسی کتابیں سب سے زیادہ آتی ہیں۔ اس کے بعد دوسرا نمبر گائیڈ کا ہوتا ہے۔ جس کو عام زبان میں آئینے کہتے ہیں۔ ان آئینوں میں اس قوم کا چہرہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ قوم ترقی کیوں نہیں کرتی۔ مکھی پر مکھی مارنے والی قوم مکھیاں مارنے کے علاوہ کیا کام کر سکتی ہے۔ دینی کتابیں کا نمبر تیسرا ہے یعنی کہ یہ قوم مذہب سے محبت کرتی ہے اس کو سیکھتی ہے اور پڑھتی ہے مگر عمل نہیں کرتی۔

مذہب کے علم میں ہمارا کوئی ثانی نہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ ہم نے کبھی سچ نہیں بولا۔ خواتین ڈائجسٹ کا نمبر چوتھا ہے یعنی کہ پڑھی لکھی خواتین اس کو پڑھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ پڑھی لکھی عورتوں میں طلاق کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ افسانے اور ناول کا نمبر پانچواں ہے لیکن زیادہ تر یہ کتابیں انگلش زبان میں ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے اردو اور مقامی زبان میں بہت کم لکھا جا رہا ہے۔ ہمارے تخلیقی عمل میں زنگ لگ چکا ہے یا پھر ہم سمجھتے ہیں کہ اردو اور مقامی زبانوں میں لکھنے سے انسان مصنف نہیں بنتا۔ شاعری کی کتابوں کا نمبر آخری ہے جو بکتی نہیں بلکہ تحفے میں دی جاتی ہیں کیونکہ اس کے پہلے صفحے پر عموماً یہ لکھا ہوتا ہے آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر جو اکثر بغیر پڑھے ردی والے کو بیچ دی جاتی ہیں۔ سچ ہے مفت کی شے کی کوئی اوقات نہیں۔

بجلی سے چلنے والی اشیاء کی فراوانی ہوتی ہے جو اکثر باہر سے استعمال شدہ درآمد کی جاتی ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم نے کتنی ترقی کر لی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments