ن۔ م راشد: اک شمع ہے دلیل سحر


ن۔ م راشد یکم اگست 1932 کو پیدا ہوئے۔ 9 اکتوبر 1975 یعنی 65 برس کی عمر میں اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ ان کا پورا نام نذر محمد راشد ہے۔ پیدائش اکال گڑھ گوجرانوالہ میں ہوئی۔ اکال گڑھ کا یہ چمکتا ہوا سورج مختلف ممالک اور تہذیبوں کا سفر کرتے ہوئے ”سرے ( انگلینڈ)“ کے ساحلوں میں غروب ہو گیا۔ ابتدائی تعلیم اکال گڑھ سے حاصل کرنے کے بعد منٹگمری، لائلپور اور پھر لاہور کی تعلیمی فضاؤں میں جھومتا رہا۔ راشد نے بچپن ہی سے اپنے والد فضل احمد چشتی سے حافظ شیرازی، سعدی اور غالب پڑھ لیا تھا۔

تلاش معاش کے سلسلے میں مختلف شہروں میں گھومتا رہا۔ زندگی کا بہت سارا حصہ دیار غیر کی تہذیبوں میں مچلتا رہا۔ وہ دنیا بھر کے ادب سے واقف رہا۔ راشد کی شخصیت کی کئی جہات تھیں لیکن بنیادی پہچان اردو شاعری بنی۔ انھوں نے آزاد نظم کا علم بلند کیا۔ راشد آزاد نظم کے افق پر شہاب ثاقب کی طرح نمودار ہوئے اور ایسی روشن لکیر چھوڑ گئے کہ آج تک اس کی چمک ماند نہیں ہوئی۔

انسانی سوچ کا دائرہ اختیار بہت وسیع ہے۔ ہر انسان کی فہم و فراست مختلف ہوتی ہے۔ آغاز میں راشد نے غالب اور اقبال کے نظریے کو اپنایا لیکن جلد ہی اپنا راستہ جدا کر لیا۔ راشد کا طرز فکر دوسرے شعرائے سے بالکل مختلف اور انوکھا و اچھوتا نظر آتا ہے۔ انھوں نے غالب اور اقبال کی طرح فکر اور تعقل کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ راشد بذات خود فکری ذہن کے مالک تھے۔ راشد کی شاعری کا موضوع ان کے شدید ذاتی تاثرات ہیں۔ ان تاثرات کے پس منظر ان کے بے قرار دل اور عمیق ذہن کا ردعمل ہے۔

ان کی شاعری میں تعقل کا عنصر تمام عناصر پر فوقیت رکھتا ہے۔ راشد اردو شاعری میں ایک نادر مظہر ہے۔ ان کا مقام و مرتبہ جداگانہ ہی نہیں بلکہ بہت منفرد، بہت بلند اور نمایاں بھی ہے۔ ان کی شاعری میں انسان کی عظمت اور انسانیت کا تصور بہت مثبت نظر آتا ہے ان کی شاعری ان کے عمیق ذہن کا ردعمل ہے۔ ان کی دانش و بصیرت عقلیت پسندانہ تھی۔ انھوں نے انسانی مساوات، برابری نیز انسان کی محرومیوں اور مجبوریوں کو اپنی شاعری میں موضوع بنایا۔

n m rashid

ان کے اپنے مسائل زمانے کے مسائل معلوم ہوتے ہیں۔ راشد نے جن مسائل کو چھیڑا ہے وہ بہت سنجیدہ مسائل ہیں۔ نفسیاتی، مسائل، جسمانی وجودی مسائل، مذہب کی غلط تشریح کرنے والوں کے مسائل، سیاسی و سماجی، بھوک و افلاس کے مسائل، سائنسی مسائل، دہشت و خوف کے مسائل، آزادی و انصاف کے مسائل، قومی و بین الاقوامی مسائل پر بڑے دھڑلے سے اظہار خیال کیا ہے۔ ان کی نظم ”سبا ویراں“ کے چند مصرعے ملاحظہ کیجیئے

سلیماں سر بہ زانو اور سبا ویراں!
سلیماں سر بہ زانو ترش رو، غمگین، پریشاں مو
جہانگیری، جہانبانی، فقط طرارۂ آہو،
محبت شعلۂ پراں، ہوس بوئے گل بے بو
ز راز دہر کمتر گو!
سبا ویراں کہ اب تک اس زمیں پر ہیں
کسی عیار کے غارت گروں کے نقش پا باقی
سبا باقی، نہ مہروئے سبا باقی!
سلیماں سر بہ زانو
اب کہاں سے قاصد فرخندہ پے آئے؟
کہاں سے، کس سبو سے کاسۂ پیری میں مے آئے؟
ان کی نظم خودکشی کے چند مصرعے ملاحظہ کیجیے
رات کو جب گھر کا رخ کرتا تھا میں
تیرگی کو دیکھتا تھا سرنگوں
منہ بسورے، راہگزاروں سے لپٹتے، سوگوار
گھر پہنچتا تھا میں انسانوں سے اکتایا ہوا
میرا اعزم آخری یہ ہے کہ میں
کود جاؤں ساتویں منزل سے آج!
نظم زندگی سے ڈرتے ہو کے چند مصرعے ملاحظہ کیجیے
زندگی سے ڈرتے ہو؟
! زندگی تو تم بھی ہو زندگی تو ہم بھی ہیں!
زندگی سے ڈرتے ہو؟
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو آدمی تو ہم بھی ہیں
آدمی زباں بھی ہے آدمی بیاں بھی ہے
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ

(بائیں طرف سے) راشد صاحب اپنی اہلیہ شیلا اور احباب کے ہمراہ

راشد نے ذہنی استعداد کو بروئے کار لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ان کے ذہن رسا اور نقطہ آفرینی پر حیرت ہوتی ہے۔ راشد اپنے عہد کے مخلوق شاعر تھے اور ایک نیا عہد خلق بھی کیا۔ نظم ”گمان کا ممکن“ کا ایک ٹکڑا ملاحظہ کیجیئے۔

وہی مجھے جانتا نہیں
مگر مجھی کو یہ وہم شاید
کہ آپ اپنا ثبوت اپنا جواب ہوں میں
مجھے وہ پہچانتا نہیں ہے
کہ میری دھیمی صدا
زمانے کی جھیل کے دوسرے کنارے سے آ رہی ہے
یہ جھیل وہ ہے کہ جس کے اوپر ہزاروں انسان
افق کے متوازی چل رہے ہیں
افق کے متوازی چلنے والوں کو پار لاتی ہے
وقت لہریں

راشد ذہانت و فطانت میں لاجواب تھے۔ ذہین آدمی زمانہ ساز بھی ہوتا ہے ان کی نظر ماضی کے گجلکوں اور مستقبل اندیشوں پر بھی ہوتی ہے۔ وہ زندگی کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ ان کی شاعری میں ہمیں نئے آدمی کا تصور ملتا ہے، وہ نیا آدمی نطشے کے سپر مین اور اقبال کے مرد کامل سے مختلف ملتا ہے۔ ( اس حوالے سے سر ناصر عباس نیر کا آرٹیکل ”راشد کا نیا آدمی“ بڑا دلچسپ اور معلوماتی ہے اور وہ آرٹیکل پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور اس آرٹیکل کے اندر ہیومنزم کا تصور بہت عمدہ بیان کیا ہے۔ اس ایک آرٹیکل کے اندر کئی موضوعات ہیں ) ناصر صاحب لکھتے ہیں

”راشد برصغیر کی جس دانش ورانہ روایت سے منسلک تھے اس کے بنیاد گزار سرسید ہیں جنھوں نے اس بات پر بطور خاص زور دیا کہ حقیقت طبعی اور مابعد الطبعی رخوں سے عبارت ہے“ ۔

راشد شاعر کم فلاسفر زیادہ جھلکتے نظر آتے ہیں۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ شروع شروع میں وہ روایتی شاعری کے زیر اثر رہے۔ انھیں ادب کے قدیم و جدید رجحانات ہی کا مکمل ادراک نہیں تھا بلکہ وہ اپنے عہد کے علوم و فنون اور فلسفہ و سائنس کے انکشافات سے بھی آگاہ تھے۔ یہی وہ محرکات ہیں جس کی وجہ سے ان کی تخلیقی شخصیت بڑی نکھر کر سامنے آئی۔ وہ ایک توانا اور قدآور شخصیت تھی۔ وہ ایک بلند آواز تھی۔ راشد شاعر نہیں وہ لفظوں کے مصور ہیں، لفظوں کے جادوگر اور لفظوں کے مجسمہ ساز تھے۔

راشد کی شاعری کا مکالمہ صرف بند کمرے کا مکالمہ نہیں بلکہ سماج اور بین الاقوامی طرز کا مکالمہ ابھر کر سامنے اتا ہے۔ وہ مکالماتی انداز میں خواب بنتے ہیں ان کے خواب، سلجھے ہوئے اور گھتے ہوئے اور بعض مقامات میں الجھیے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نظم چاہے خواب لے لو ہو کہ، اے غزل شب یا مجھے الوداع کر یا زندگی سے ڈرتے ہو سب نظموں میں وہ اپنے آپ سے الجھتے ہوئے نظر آتے ہیں بعض دفعہ وہ نظموں میں جذباتی ہو جاتے ہیں۔ جب میں راشد کے خواب دیکھتا ہوں تو میرے سامنے ایک الگ دنیا کا منظر آتا ہے۔ وہ خواب مجھے اپنے خواب محسوس ہوتے ہیں۔ وہ خواب زمانے کی محرومیوں کے خواب لگتے ہیں۔ نظم میرے بھی ہیں کچھ خواب کے چند مصرعے ملاحظہ کیجیے

اے عشق ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
وہ خواب ہیں آزادیٔ کامل کے نئے خواب
ہر سعئی جگر دوز کے حاصل کے نئے خواب
آدم کی ولادت کے نئے جشن پہ لہراتے جلاجل کے نئے خواب
اس خاک کی سطوت کی منازل کے نئے خواب
یا سینۂ گیتی میں نئے دل کے نئے خواب
اے عشق ازل گیر و ابد تاب
میرے بھی ہیں کچھ خواب
میرے بھی ہیں کچھ خواب!
ایک اور نظم اندھا کباڑی کے چند مصرعے دیکھیں
شام ہو جاتی ہے
میں پھر سے لگاتا ہوں صدا۔
”مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب۔“
”مفت“ سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ۔
”دیکھنا یہ“ مفت ”کہتا ہے
کوئی دھوکا نہ ہو!
ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو
گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں
یا پگھل جائیں یہ خواب
بھک سے اڑ جائیں کہیں
یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب۔
جی نہیں کس کام کے؟
ایسے کباڑی کے یہ خواب
ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب!

راشد عجیب و غریب شخصیت کے مالک تھے اور غضب کا مطالعہ، ارے مطالعہ ایسا کہ ہمیں رشک آتا ہے۔ وہ ایسے دانشور تھے جو حیرت میں ڈال دیتے تھے۔ ایسا مہربان چہرہ جو صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کو محض ایک منفرد شاعر سمجھا گیا۔ ایسے ایسے ادبی کارنامے انجام دیے جو صرف وہی کر سکتے تھے۔ انہوں نے محض شاعری میں جوہر نہیں دکھائے بلکہ ان کی تخلیقی شخصیت کا اظہار نثر میں بھی ہوا۔ وہ ایک اچھے مترجم بھی تھے اور عمدہ نقاد بھی اور ایک سلجھے ہوئے مضمون نگار بھی۔

ان کی تنقید اور ترجمہ کو وہ آفاقیت نہیں مل سکی جس کے وہ حقدار تھے۔ ان کے خون میں ترقی پسند کے اثرات اور جدیدیت کا رنگ بھی نمایاں جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ راشد کے تین مجموعے ان کی زندگی میں شائع ہوئے تھے، ماورا، ایران میں اجنبی، اور لا =انسان، جب کہ گمان کا ممکن ان کی موت کے بعد شائع ہوئی تھی۔ راشد کی وہ نظموں کے نام جو مجھے بے حد پسند ہیں، گناہ اور محبت، بیکراں رات کے سناٹے، خودکشی، رقص کی رات، سبا ویراں، تیل کے سوداگر، حسن کوزہ گر، اسرافیل کی موت، میرے بھی ہیں کچھ خواب، زندگی سے ڈرتے ہو، نیا آدمی، گمان کا ممکن۔

راشد کی شاعری سنجیدہ شاعری ہے اور سنجیدہ قاری کے لیے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments