سور پر رحم کرو


عید الاضحی کی آمد کے ساتھ ہی ملک میں درد مند دل رکھنے والے کئی لوگ سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹس لگانے لگتے ہیں جس میں بے زبان جانوروں پر ظلم کو لے کر تنقید کی جاتی ہے۔ یہ درس دیا جاتا ہے کہ یہ رقم غریبوں کی بھلائی کے لیے استعمال کرنی چاہیے۔ کئی دوست تو اسے وحشی پن، جنگلی اور ظالمانہ رویہ قرار دیتے ہیں۔ اس سال بھی چند دوستوں کے گزشتہ برسوں میں اپنے لگائے واٹر کولر کی تصاویر دوبارہ لگا کر اس شدید گرمی کے موسم میں انسانوں کی خدمت کرنے کا درس دیا تو مجھے خود پر شرم آنے لگی۔

اس نظریہ، سوچ یا انداز فکر کے حامل دوستوں کی ایک بڑی تعداد پڑھی لکھی، ادب شناس اور بیرونی ممالک میں رہائش پذیر ہے۔ اس حقیقت سے کسے انکار ہو سکتا ہے کہ پڑھا لکھا انسان کسی بھی موضوع پر نہ صرف اچھے دلائل دے سکتا ہے بلکہ کوئی دلیل دینے سے قبل اس کے بارے میں مکمل معلومات لیتا ہے اور اعداد و شمار سے اپنی بات کی سچائی کو ثابت کرتا ہے۔

میں ایک ادنی سا فکشن رائٹر ہوں تو ادبی دوستوں کی محافل میں اکثر علم کے حصول کے لیے حاضر ہوتا رہتا ہوں۔ سوشل میڈیا پھر بھی دنیا بھر کے ادب دوست لوگوں سے راہ رسم بنا رکھی ہے تا کہ ان کے زریں خیالات اور تخلیقات سے بہرہ مند ہو سکوں۔

مگر یہ ادب دوستی میرے اندر کے وحشی کو نہ مار سکی۔ سیانے درست کہتے ہیں کہ تربیت کا اثر دیر پا ہوتا ہے۔ میں نے ہوش سنبھالنے سے آج تک اپنے خاندان میں قربانی ہوتی دیکھی ہے اس لیے بدست خود یہ مذہبی فریضہ انجام دیتا ہوں۔ ہمارے ہاں رواج ہے کہ بچوں کے سامنے جانور نہ صرف خود اپنے ہاتھ سے ذبح کیا جاتا ہے بلکہ سب بھائی، رشتہ دار بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر اور کاروباری ہونے کے باوجود کھال اور گوشت سے بھی خود ہی نمٹتے ہیں۔

جب سے میں نے پڑھے لکھے لوگوں کے سنگ بیٹھنا اٹھنا شروع کیا تو مجھے ایک احساس ندامت ہر وقت گھیرے رکھتا کہ کیا میں واقعی ظالم اور وحشی انسان ہوں جو خون بہاتا ہوں اور معصوم بے زبان جانور کے گلے پر چھری چلا کر خوشی محسوس کرتا ہوں۔ اس سوچ نے مجھے نفسیاتی مسائل کا شکار کر دیا۔

میں اپنی ایک اور عادت کی وجہ سے بڑی اذیت میں مبتلا رہتا ہوں۔ میں ہر چیز کو ماننے سے قبل خود اس کے بارے میں پڑھنا، سمجھا اور جاننا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایسے ہی اس عید الاضحیٰ پر دوستوں کی جانب سے ”بے زبان جانوروں پر رحم کریں“ جیسی تحاریر پڑھنے کو مسلسل مل رہی تھیں تو میں نے سوچا کہ اس پر ذرا بین الاقوامی طور پر ایک تحقیق کی جائے کہ کیا واقعی دنیا میں قربانی کی وجہ سے جانوروں پر ظلم ہو رہا ہے؟ ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور دنیا کے دیگر مہذب ممالک نے ایسی نسل کشی سے بچنے کو کیا لائحہ عمل اپنا رکھا ہے؟

جدید دور میں گوگل ہی معلومات کا ایک بہتر ذریعہ سمجھا جاتا ہے تو میں نے بھی خود کو ذہنی کرب سے بچانے کے لیے اس کا سہارا لیا۔ جو معلومات ملیں وہ حیران کن تھیں۔ میں وہ آپ دوستوں سے شیئر کرنا چاہتا ہوں تا کہ اگر کہیں میں یا گوگل غلط ہو تو آپ ہماری درستی کر سکیں۔

گوگل بتاتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ گوشت سور کا استعمال ہوتا ہے۔ دنیا میں 36 % سور، 35 % مرغی، 22 فیصد گائے بھینس اور 5 % بکری یا بھیڑ کا گوشت استعمال ہوتا ہے۔ کمال است

یہ پہلا جملہ ہی میرے ذہن پر بجلی بن کر گرا۔ کیونکہ میں نے اپنے تعلیم یافتہ دوستوں کو سور جیسے خوبصورت جانور پر ہوتے اس ظلم کے خلاف آج تک کچھ لکھتے نہیں دیکھا۔ کیا آپ نے آج تک کسی فورم پر پڑھا یا سنا کہ ”معصوم بے زبان سور پر رحم کریں؟“

چلیں بدگمانی بری بات ہوتی ہے۔ ممکن ہے انھیں اس بارے جانکاری نہ ہو۔ اس لیے آگے بڑھتے ہوئے چیک کیا کہ یقیناً مسلم ممالک میں لوگ بے انتہا گوشت کھاتے ہوں گے کیونکہ ہم ظالم لوگ سال بھر تو مٹن، بیف اور چکن کھاتے ہی ہیں مگر عید پر تو ہم پورا سالم بکرا ڈیپ فریزر میں رکھ کر مہینوں باربی کیو کے مزے لیتے ہیں۔

گوگل نے بتایا کہ دنیا میں سب سے زیادہ گوشت کا استعمال کرنے والے ممالک سب غیر مسلم ہیں۔
1۔ چین۔ 419.6 ملین ٹن
2۔ اسٹریلیا۔ 318.3 ملین ٹن
3۔ امریکہ۔ 315.5 ملین ٹن
4۔ ارجنٹائن۔ 293 ملین ٹن
5 صومیہ 280 ملین ٹن
6۔ نیوزی لینڈ۔ 277.8 ملین ٹن
7۔ فریچ۔ French Polynesia۔ 275.7 ملین ٹن
8۔ لوسیا۔ Lusia 272 ملین ٹن
9۔ لLaxembourg 270 ملین ٹن۔

کمال یہ ہے اس فہرست میں پہلا مسلمان ملک جو سیریل نمبر 55 پر ہے وہ قازقستان ہے جو 185.9 ملین ٹن سالانہ گوشت استعمال کرتا ہے۔ پاکستان جیسا ظالم ملک 142 نمبر ہے جو صرف 45.0 ملین ٹن استعمال کرتا ہے۔

کم سے کم گوشت استعمال کرنے والے ممالک میں انڈیا 10.10 ملین ٹن کے ساتھ پہلے اور اسلامی ملک بنگلہ دیش 11.3 ملین ٹن کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔

حیرت کے سمندر میں غوطے کھاتے ہوئے میں نے سوچا کہ میرے پڑھے لکھے، ماڈرن، غریب دوست، نرم دل ساتھیوں نے آخر آج تک دنیا میں ان ممالک کے خلاف کوئی کمپین کیوں نہیں چلائی نہ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ لکھی جو بے زبان جانوروں پر انتہا ظلم کر رہے ہیں۔ ان کی نسلی کشی بلکہ نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انھیں صرف عید پر پاکستان یا بنگلہ دیشن جیسے ممالک، جہاں بہت کم گوشت استعمال ہوتا ہے میں یہ درد دل ہی کیوں جاگتا ہے۔ انھیں تو چاہیے کہ وہ ان ممالک میں زیادہ سے زیادہ قربانی کی ترغیب دیں تا کہ غریبوں تک گوشت کی رسائی ہو اور ہم ترقی کر کے کم از کم پہلے دس نمبروں میں تو آ سکیں۔

اس تحریر کا مقصد یہ سمجھانا ہے کہ مجھ جیسے نادان دوستوں کو کبھی کبھی پڑھے لکھے دانشوروں کے دیے دلائل پر اندھا اعتماد کرنے کے بجائے کچھ تحقیق خود بھی کرنی چاہیے ممکن ہے ان کا مقصد جانوروں کی محبت نہیں بلکہ کچھ اور ہو۔ کیونکہ اس تحریک میں ان کا ساتھ دینے والے انٹرنیشنل لوگ اکثر ان انتہائی گوشت خور ممالک سے تعلق رکھتے ہیں جو ڈبلیو ایچ او کے پرچم تلے کئی سال تک پاکستان میں ہر عید الاضحیٰ سے قبل کانگو وائرس ڈھونڈ نکالتے تھے۔

اب شاید ان کی کوشش ہے کہ یہ ظالم قوم بیماری اور موت سے تو ڈری نہیں اس لیے نیکی کا انداز بدل کر یہ فریضہ سے دور کیا جائے۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر یہ حربہ بھی ناکام رہا تو پھر ایف اے ٹی ایف میدان میں اتارا جائے گا کہ قربانی کے دوران ہونے والی خریداری بنکنگ چینل سے نہیں اور یہ رقم دہشت گردوں تک پہنچ رہی ہے جس سے دنیا کا امن خطرے میں ہے۔

ان چند لمحوں کی تحقیق نے مجھے دوچار ذہنی مسائل سے چھٹکارا دلوایا، میں جو خود کو ظالم، وحشی، ملک دشمن انسان سمجھنے لگا تھا اب بہتر محسوس کر رہا ہوں اور آپ دوستوں کو بھی مشورہ دوں گا کہ ہر عید پر بڑھ چڑھ کر سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے خوب جانور قربان کیا کریں تا کہ آپ کا ملک کھاتے پیتے ممالک کی فہرست میں قدرے بلند درجے پر فائز ہو سکے۔ کولر اور غریب کی بچی کی شادی والے دوستوں سے گزارش ہے کہ آپ بھی زیادہ سے زیادہ جانور قربان کر کے ان کا گوشت غریبوں میں بانٹا کریں کیونکہ غریب کی بھوکی کمزور لاغر بچی کی اگر شادی کروا دی تو پہلے بچے کی ولادت میں ہی فوت ہو جائے گئی۔ کولر سے بھوکے پیٹ ٹھنڈا پانی پینے سے کیا مزا آئے گا۔ غریب کے بچے جب گوشت کھا کر ٹھنڈے پانی کے کولر سے پانی پیئے گے تو آپ کو دعائیں دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments