استاد دامن


برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ، جنرل ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا ء الحق کی طاقت، ظلم اور جبر کا بلا خوف مقابلہ کیا۔ جھوٹے مقدموں کا سامنا کیا قید و بند کی مصیبتیں جھیلیں، لیکن قدم کہیں نہیں ڈگمگائے۔ ان کی انہی خصوصیات کی وجہ سے اس سخت گیر معاشرے میں لوگ ان سے پیار کرتے تھے جبکہ حکمران ان سے نفرت کرتے تھے۔ ٹکسالی گیٹ کے اندر ایک چھوٹا سا کمرا جس میں بچھی ایک چارپائی اور دو کرسیاں ان کی کل کائنات تھی۔

چارپائی پر چاروں طرف کتابیں رکھی رہتی تھیں۔ جو شخصیات ان سے ملنے آتیں وہ کچھ کرسیوں پر اور کچھ چارپائی پر بیٹھ جاتیں۔ اگر وہ چاہتے تو وہ محل ماڑیاں کھڑے کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے ہمیشہ توکل سے کام لیا، ایک سادہ زندگی گزاری۔ اپنے وقت کے بڑے بڑے ظالم و جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق ادا کیا۔ ان کے سامنے جھکے نہیں۔ ساری عمر سادہ پنجابی پیرہن یعنی تہبند، کرتے اور صافے میں گزار دی۔ ان کو دنیا استاد دامن کے نام سے یاد کرتی ہے۔

ان کا اصل نام چراغ الدین تھا۔ وہ 4 ستمبر 1911 ء کو لاہور کے چوک مستی کے علاقہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میراں بخش کا تعلق لاہور شہر کے اندرون لوہاری گیٹ سے تھا، وہ خیاط کا کام کرتے تھے۔ ان کے بڑے بھائی فیروز الدین اپنے والد کا دکان پر ہاتھ بٹاتے تھے۔ نوجوان چراغ الدین خاندانی پیشے کو اپنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ کیونکہ وہ تعلیم حاصل کر کے سرکاری افسر بننا چاہتا تھا۔ انہوں دیو سماج سکول سے میٹرک کیا لیکن باوجود کوشش کے کہیں بھی سرکاری نوکری نہیں ملی تو مایوس ہو کر اپنے آبائی پیشے کی طرف لوٹ آئے۔ انہوں نے ٹیلرنگ کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ استاد عبدالوہاب کی شاگردگی میں کوٹ پتلون، اچکن اور شلوار قمیض سینے کے کام میں مہارت حاصل کی اور باغبانپورہ میں اپنی دکان کھول لی۔

ان کی بھابھی نے کافی دفعہ ان کو شادی کرنے کے لئے کہا۔ ایک دفعہ تو ان کو دیکھنے کے لئے لڑکی والوں کی طرف سے کچھ مہمان بھی گھر بلا لئے لیکن چراغ دین عین موقع پر گھر سے غائب ہو گئے۔ کہا جاتا ہے، وہ پہلے ہی گھر والوں کو بتائے بغیر اپنی پسند سے شادی کر چکے تھے۔ ان کے ایک ملنے والے عبدالرحمان کے حوالے سے ذکر ہے کہ انہوں نے کیتھرائین نامی ایک لڑکی سے شادی کی تھی جس سے ان کا ایک بیٹا بھی پیدا ہوا تھا۔ لیکن وہ کچھ عرصہ بعد فوت ہو گیا تھا۔

ان کی بیوی کے پیٹ میں رسولیاں تھیں۔ دامن نے اس کا بہت علاج کرایا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں۔ خود استاد دامن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا۔ کوئی آدمی بھی اکیلا نہیں رہ سکتابلکہ حالات اسے اکیلا رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ میں نے بھی شادی کی تھی لیکن میری بیوی اور بیٹا دونوں فوت ہو گئے اور میں پھر اکیلا رہ گیا۔ دوسری شادی اس لئے نہیں کی کہ میں سمجھتا ہوں کہ شادی ایک ہی دفعہ کرنی چاہیے، دوسری شادی تو سودا بازی ہوتی ہے۔

آپ نے میٹرک کرنے کے بعد شعر کہنے شروع کر دیے تھے۔ پہلا مشاعرہ باغبانپورہ میں پڑھا، جس کی صدارت میاں افتخار الدین نے کی تھی۔ آپ کہتے تھے کہ 1947 سے پہلے میری شاعری میں ایک عالمگیر دکھ پنہاں تھا۔ میں ہندوستان کے سب لوگوں یعنی مسلمانوں، سکھوں، ہندوؤں اور عیسائیوں کو سامنے رکھ کر شاعری کرتا تھا۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد میری شاعری کی سمتیں تبدیل ہو گئیں۔ اب میں اپنی شاعری میں ہمیشہ پاکستان کے حکمرانوں کے ظلم و جبر اور ان کی خرابیوں کے خلاف بات کرتا ہوں اس لئے میری نظمیں حکمرانوں کو بری لگتی ہیں۔

بعض لوگ میری نظموں کو سوشلزم سے جوڑتے ہیں، ان سے میں کہتا ہوں کہ میں پکا مسلمان ہوں، میں سوشلسٹ کیسے ہو سکتا ہوں۔ عشق کے بارے میں آپ کا کہنا تھا کہ زندگی کے ہر لمحے میں عشق ہوتا ہے۔ اگر میں عشق نہ کرتا تو میں شاعری نہیں کر سکتا تھا۔ جو شاعر عشق کیے بغیر شعر کہتے ہیں وہ شاعری نہیں بلکہ لغت لکھ رہے ہوتے ہیں۔

تقسیم ہند اور پاکستان بننے پر ہونے والے فسادات کے ان ہنگاموں میں انتہاپسند مسلمانوں نے لاہور میں ہندو اور سکھوں کی املاک جلانے کے ساتھ ساتھ باغبانپورہ میں واقع استاد دامن کی دکان کو بھی آگ لگا دی تھی۔ وجہ عنادان کا کانگریس کے جلسوں میں سٹیج پر شعر پڑھنا تھا۔ دکان جل جانے پر وہ مالی پریشانیوں کا شکار ہو گئے تھے۔ استاد دامن نے ایک دفعہ اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ان فسادات میں میری دکان جلانے کے علاوہ فسادی

میری بیوی کو بھی اٹھا کر لے گئے تھے۔ جب کئی سالوں کے بعد وہ مجھے ملی تو اس کی حالت بہت خراب تھی۔ وہ میرے پاس رہنے تو لگی تھی لیکن وہ بہت کمزور ہو گئی تھی۔ نہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں اس دوران کہاں تھا اور نہ میں نے اس سے پوچھا، کہ وہ کہاں تھی۔ میں اس کے علاج کے لئے اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تو انہوں نے بتایا کہ اسے کینسر ہو گیا ہے۔ فسادی درندوں نے اس کے ساتھ بہت ظلم کیا تھا۔ تین ماہ بعد وہ بیچاری مر گئی۔

میری محبت، میرا پیار، میری محبوبہ جوانی میں ہی مر گئی۔ اس کے بعد استاد نے شادی نہیں کی۔ وہ بادشاہی مسجد کے قریب ایک چھوٹے سے حجرے میں منتقل ہو گئے اور بقایا ساری زندگی اسی حجرے میں گزار دی۔ یہ حجرہ بہت پہلے کبھی روحانی بزرگ اور شاعر شاہ حسین ً کا مسکن رہا تھا۔ استاد دامن کا اسی لئے کہنا تھا کہ یہ حجرہ علم کی روشنی سے بھرا ہوا تھا۔

تقسیم ہند سے قبل کے دنوں میں شاعروں کو مختلف سیاسی جماعتوں کے زیر اہتمام اجلاسوں میں مدعو کیا جاتا تھا۔ تا کہ ماحول خوشگوار بنانے اور پارٹیوں کے متعلقہ نظریات کے لئے ان کے اشعار سے ہمدردی پیدا کی جا سکے۔ میاں افتخار الدین آپ سے سوٹ سلواتے تھے۔ آپ کے شعر سن کر انہوں نے آپ کو لاہور میں ہونے والے کانگریس کے اجلاسوں میں لے کر جانا شروع کیا۔ موچی گیٹ میں منعقدہ کانگریس کے ایک ایسے ہی اجلاس میں استاد دامن نے ایک نظم پیش کی۔

اجلاس کے صدر اور کانگریس کے بڑے لیڈر جواہر لال نہرو کو آپ کی نظم بہت پسند آئی۔ اس کے بعد دونوں کے مابین ایک شخصی تعلق پیدا ہو گیا۔ 1936 سے 1946 تک آپ نے مشاعروں کے علاوہ کانگریس کے سیاسی جلسوں میں بھی انقلابی نظمیں پڑھیں، کیونکہ آپ کا تعلق مزدوروں، کسانوں اور غریب طبقے سے تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ طبقہ مظلوم ہے جسے طاقتور لوگوں نے ہر دور میں دبایا ہے، اس لئے اس طبقے کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنی چاہیے۔ آزادی سے پہلے پنجاب میں کانگریس کے ہونے والے زیادہ تر جلسوں میں سٹیج سیکریٹری کے فرائض بھی آپ نے انجام دیے۔

آزادی کے کچھ سال بعد استاد دامن ایک ہندو پاک مشاعرے میں حصہ لینے ہندوستان کی راج دھانی دہلی گئے۔ لال قلعہ میں منعقدہ اس مشاعرے کی صدارت اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کر رہے تھے۔ ہندوستان کے صدر اور وزرا بھی اس مشاعرے میں موجود تھے۔ پنڈت نہرو کی فرمائش پر استاد دامن نے فل بدیہہ اپنی ایک شعرہ آفاق نظم پڑھ کر مشاعرہ لوٹ لیا۔ تقسیم کے موضوع پر اس نظم کو سن کر مشاعرہ میں شامل سب ہی شرکا کی آنکھیں بھیگ گئیں۔

بھانویں مونہوں نہ کہیے پر وچو وچی ٭ کھوئے تسی وی او، کھوئے اسی وی آں
ایہناں آزادیاں ہتھوں برباد ہونا ٭ ہوئے تسی وی او، ہوئے اسی وی آں
کجھ امید اے زندگی مل جائے گی ٭ موئے تسی وی او، موئے اسی وی آں
جیوندی جان ای، موت دے منہ اندر ٭ ڈھوئے تسی وی او، ڈھوئے اسی وی آں
جاگن والیاں رج کے لٹیا اے ٭ سوئے تسی وی او، سوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے ٭ روئے تسی وی او، روئے اسی وی آں

( منہ سے بے شک کچھ نہ بولیں لیکن اندر سے آپ بھی کہیں کھوئے ہوئے ہیں اور ہم بھی۔ اس آزادی کے ہاتھوں آپ نے بھی بڑے نقصان اٹھائے ہیں اور ہم نے بھی بہت نقصان برداشت کیا ہے۔ کچھ امید لگی ہے کہ اب زندگی مل جائے گی کیونکہ اس تقسیم کے دوران آپ کا بھی بہت جانی نقصان ہوا ہے اور مرے ہم بھی ہیں۔ جاگنے والوں نے (انگریزوں نے ) ہمیں بہت لوٹا ہے۔ لیکن آپ بھی سوئے ہوئے تھے اور ہم بھی۔ آپ کی آنکھوں کی سرخی یہ بتا رہی ہے ان حالات کی بے چارگی پر آپ بھی روئے ہیں اور روئے ہم بھی بہت ہیں۔ )

پنڈت نہرو نے روتے ہوئے آپ کو گلے لگا لیا اور التجا کی کہ دامن جی، آپ ہندوستان میں ہی رہ جاؤ۔ ہم آپ کو ہر قسم کی سہولت فراہم کریں گے۔ آپ کا بہت زیادہ خیال رکھیں گے۔ لیکن دامن نے انھیں جواب دیا۔ پنڈت صاحب! آپ کی بہت مہربانی۔ میں پاکستان کا بیٹا ہوں اور پاکستان میں ہی میری جان ہے میں پاکستان میں ہی رہوں گا چاہے میں جیل میں ہی کیوں نہ رہوں۔

انگریز سرکار سے لے کر جنرل ضیاء الحق کی حکومت تک دامن اپنی تنقیدی اور باغیانہ نظمیں لکھنے کی وجہ سے کئی دفعہ جیل گیا۔ اس نے ملک کی آزادی کی خاطر جیل یاترا کی۔ آزادی کے بعد انگریزوں کے پٹھوؤں نے پاکستان سے جھوٹے الاٹ منٹ کلیم حاصل کیے۔ جائیدادیں الاٹ کروائیں۔ لوگ جناح کیپ پہن کر ٹھگیاں کر کے کروڑ پتی بن گئے۔ لیکن دامن نے ساری زندگی ایک 10 x 10 کے حجرے میں گزار دی، جس میں دروازے کے علاوہ کوئی کھڑکی تک نہیں تھی۔ انھیں اس کوٹھڑی سے بے دخل کر کے نکالنے کی بھی بہت کوششیں کی گئی۔ ساری حکومتوں نے اپنے اپنے دور میں انھیں کسی نا کسی ناکردہ جرم کی بنا پر جیل بھیجا، کیونکہ وہ سچ لکھتا تھا۔

استاد دامن سٹیج کے بادشاہ تھے ان کے شعروں میں روانی تھی۔ وہ ایک بہت بڑے شاعر اور صحیح معنوں میں قلندر تھے۔ ایک بہت ہی صاف گو اور اچھے دل کے مالک تھے۔ یاروں کے یار اور یاری لگانے والے انسانوں سے پیار کرنے والے، دنیاوی حرص و ہوس اور دنیاوی خواہشات سے آزاد زندگی بسر کرنے والے تھے۔ وہ دوسروں کے درد بانٹنے والے تھے۔ کئی نوجوانوں کو انہوں نے اپنے اثر و رسوخ سے نوکریاں دلوائیں۔ اس فانی زندگی کے بعد ان کی اب ابدی زندگی کا آغاز ہوا ہے۔ جب تک پنجابی ادب زندہ رہے گا، استاد دامن کا نام بھی زندہ رہے گا۔

جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت برسر اقتدار آئی انہوں نے اپنے معمول کے مطابق حکومت کے اقدامات پر تنقید کرنے والی نظمیں لکھیں۔ ایسی ہی ایک نظم بھٹو کے شملہ سفر کے خلاف تھی۔ دامن نے ایک طرف ہندوستان سے ایک ہزار سال تک جنگ کرنے اور پھر دوسری طرف اندرا گاندھی سے ملنے شملہ جانے کا نعرہ بلند کرنے پر بھٹو کو اس نظم میں جھڑکا۔ یہ نظم ایک دم ہٹ ہو گئی، جس سے ذوالفقار بھٹو ان سے ناراض ہو گیا۔ پاکستان میں جب بڑے صاحب ناراض ہوجائیں تو چھوٹے صاحبان شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن جاتے ہیں۔ انہوں نے دامن کے حجرے سے دو ریوالور اور دستی بم برامد کر کے ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا اور ٹبی تھانے میں بند کر دیا۔ وہ نظم یہ تھی۔

کدی شملے جانا ایں۔ کدی مری جانا ایں
لائی کھیس جانا ایں۔ کچھی دری جانا ایں
ایہہ کی کری جانا ایں ایہہ کی کری جانا ایں
کدی چین جانا ایں کدی روس جانا ایں
بن کے توں امریکی جاسوس جانا ایں
ایہہ کی کری جانا ایں ایہہ کی کری جانا ایں
لائی کوٹ جانا ایں ٹنگی باہواں جانا ایں
اڈائی قوم دا توں فلوس جانا ایں
ایہہ کی کری جانا ایں ایہہ کی کری جانا ایں

(کبھی شملے جاتے ہو کبھی مری جاتے ہو۔ غریبوں کا کوئی دھیان نہیں ہے ان کے کپڑے اترتے جا رہے ہیں ان سے بستر چھنتے جا رہے ہیں۔ تم یہ کیا کر رہے ہو۔ کچھ عوام کا خیال کرو۔ کبھی تم چین جاتے ہو اور کبھی روس۔ کبھی امریکہ کا جاسوس بن کر امریکہ جاتے ہو۔ تم یہ کیا کر رہے ہو۔ کچھ عوام کا خیال کرو۔ تم کبھی کوٹ اتار کر لوگوں میں پھینکتے ہو اور کبھی اپنی آستینیں چڑھا لیتے ہو۔ قوم کا تم نے برا حال کر دیا ہے تم یہ کیا کر رہے ہو۔ کچھ عوام کا خیال کرو) ۔ انہی دنوں بھٹو صاحب نے شلوار قمیض پہننا شروع کیا تھا جس کی اکثر وہ آستینیں چڑھا کر رکھتے تھے۔ ایک جلسے میں بھٹو صاحب نے کوٹ اتار کر عوام میں پھینک دیا تھا۔

تنویر ظہور اپنی کتاب ً استاد دامن ً میں لکھتے ہیں کہ استاد دامن کو اس نظم کے لکھنے پر ایک جھوٹا مقدمہ بنا کر ٹبی تھانے میں بند کر دیا گیا تھا۔ میں ایڈوکیٹ شوکت بٹ کے ساتھ ٹبی تھانے پہنچا۔ وہاں دیکھا کہ استاد دامن چھوٹے چھوٹے مجرموں کے ساتھ تھانے کے لاک اپ میں بند ننگے فرش پر بیٹھے تھے۔ ہم نے اگلے دن ان کی ضمانت کا بندوبست کیا۔ اس دن ان کے مداحوں کی ایک بڑی تعداد عدالت پہنچ گئی۔ استاد دامن کی پیشی سے پہلے ایک بدمعاش ماجھو کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جس کا مجسٹریٹ نے پولیس کو ریمانڈ دیا تھا۔ مجسٹریٹ اوپر والوں کے دباؤ پر استاد دامن کا بھی ریمانڈ دینے والا تھا۔ لیکن وکیل ملک اسلم حیات نے زوردار دلائل دیے اور مجسٹریٹ سے کہا کہ ایک بدمعاش اور استاد دامن میں فرق ہے۔ تاریخ آپ کو دیکھ رہی ہے۔ اگر آپ نے غلط فیصلہ کیا تو تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ وکیلوں کے دباؤ پر مجسٹریٹ نے آپ کی ضمانت لے لی۔ ممتاز اداکار اور دامن کے منہ بولے بیٹے اداکار علا الدین نے ضمانت کے کاغذات جمع کروائے۔ ضمانت کے بعد وکلا ء انھیں اپنے بار روم میں لے گئے اور ان سے کہا کو اب آپ ہماری فیس ادا کریں۔ استاد نے ان کی فیس کی رقم پوچھی تو انہوں نے کہا کہ ہماری فیس یہ ہے کہ آپ ہمیں اپنا کلام سنائیں۔ دامن نے پرنم آنکھوں سے یہ اشعار سنائے۔

کوئی دبانا چاہوے سانوں نہیں دبا سکدا
کوئی کنا ای لے کے دم خم نکلے
دامن شاعر دی کوٹھڑی وچ سنیا جے
دو ریوالور تے دستی بم نکلے

( کوئی کتنا بھی دبانا چاہے وہ ہمیں کبھی دبا نہیں سکتا چاہے کوئی کتنا بھی زور لگا لے اور اس میں کتنا ہی دم خم ہو۔ سنا ہے کہ شاعر دامن کی کوٹھڑی میں سے دو ریوالور اور دستی بم پولیس نے برامد کیے ہیں۔ جس وجہ سے اسے گرفتار کیا گیا ہے۔ )

ایک اور واقعہ بھی تنویر ظہور نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ چوہدری ظہور الہی نے اپنے بیٹے کی شادی میں اپنے دوست اور محب استاد دامن کو گجرات بلایا۔ جنرل ضیاء بھی اس دعوت میں مدعو تھے۔ استاد دامن نے ضیاء کے ظلم و ستم کے خلاف پہلے ہی ایک نظم لکھ رکھی تھی جو وہ مختلف مشاعروں میں سنا بھی چکے تھے اس لئے ان دونوں کو علیحدہ علیحدہ کمروں میں بٹھایا گیا تھا۔

میرے ملک دے دو خد ا۔ لا الہ تے مارشل لا
اک رہندہ عرشاں اتے۔ دوجا رہندہ فرشاں تے
اوہدہ ناں اے اللہ میاں۔ ایدہ ناں اے جنرل ضیاء

میرے ملک میں دو خدا ہیں ایک اللہ تعالی اور ایک مارشل لا۔ ایک عرش پر رہتا ہے اور دوسرا فرش پر رہتا ہے۔ ایک کا نام اللہ میاں ہے اور دوسرے کا نام جنرل ضیا الحق ہے ) ۔ جنرل ضیا الحق نے یہ شعر سن رکھے تھے۔ جب اس کو استاد دامن کی شادی میں موجودگی کا پتہ چلا تو اس نے ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ چوہدری شجاعت حسین، استاد دامن اور اس کے دوستوں کو لے کر جنرل ضیاء الحق کے کمرے میں گئے۔ جنرل ضیاء بہت منافق آدمی تھا، اپنے رنج و الم کا فوری اظہار نہیں کرتا تھا۔

اس نے بظاہر گرمجوشی سے استاد دامن کا استقبال کیا۔ تھوڑی دیر بعد ضیاء الحق نے دامن سے وہی اشعار سننے کی فرمائش کی جو اس کے خلاف لکھے گئے تھے۔ استاد کچھ سنانے کو تیار نہیں ہوئے اور کہا کہ یہ شادی کا موقع ہے، شعر سنانے کا نہیں۔ میں کسی اور محفل یا مشاعرے میں آپ کو اپنا کلام سناؤں گا۔ پھر جرات مندانہ انداز میں فرمایا کہ یہ ریڈیو پاکستان لاہور یا جالندھر ریڈیو نہیں ہے جس کو جب چاہیں ٹیون کر لیں۔ یہ جنرل ضیاء الحق پر ایک گہری چوٹ تھی کیونکہ جنرل ضیا الحق کا تعلق جالندھر سے تھا۔

استاد دامن کے اشعار کا لہجہ عوامی اور خیالات بہت ہی اونچے ہوتے تھے۔ انہوں نے سیاسی۔ رومانی، رندانہ ہر طرح کے اشعار میں طبع آزمائی کی۔ ان کے اشعار میں ہمیشہ وطن کی محبت کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ جو وہ محسوس کرتے تھے اس کا اظہار اپنی شاعری میں کر دیتے تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ہمیشہ انسان دوستی کا نعرہ بلند کیا۔ وہ باغی نہیں تھے لیکن برائیوں اور ظلم کے خلاف آواز ضرور اٹھاتے تھے۔ آپ کی شاعری میں بہت گہرائی تھی

موت کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے اور کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکتا۔ جس کا جو وقت، جگہ مقرر ہے وہ آ جائے گی۔ اس حقیقت کو آپ نے اپنے انداز میں ایسے بیان کیا ہے۔

موت اگے تے کسے دی جاء کوئی نہیں
جتھے جی چائے اوتھے نپ لیندی
اینوں تیر تلوار دی لوڑ کوئی نہیں
شاخاں نال ایہہ سراں نو ں کپ لیندی
موت مالا چے گنتی نہ ورے ہندے
ہر عمر دا مکو اے ٹھپ لیندی

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ موت کسی کو نہیں چھوڑتی۔ جس کی جو جگہ اور وقت مقرر ہے اس جگہ بندے کو موت پکڑ لیتی ہے۔ اس کو تیر یا تلوار کی بھی ضرورت نہیں پڑتی، کیونکہ یہ تو شاخوں سے سروں کو کاٹ لیتی ہے۔ موت کا کوئی نہ کوئی بہانہ بنتا ہے۔ موت کی مالا میں گنتی کے سال نہیں ہوتے بلکہ یہ ہر عمر کے لوگوں کو گھیر لیتی ہے۔ اس نظم میں انہوں نے کتنی گہری بات کی ہے کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے کسی بھی عمر میں کہیں بھی اور کسی بھی جگہ سکتی ہے۔

استاد دامن نے اپنی زندگی بڑی عسرت اور تنگی سے گزاری۔ وہ صحیح معنوں میں ایک فقیر منش انسان تھے جنہیں اس دنیا کی کبھی حرص و ہوس نہیں رہی۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں گزار دی۔ اگر وہ چاہتے تو بڑے بڑے محل بنا سکتے تھے لیکن انہوں نے قناعت سے عمر بسر کی۔ وہ اپنے رب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں

آہمنوں سامنے دو دو ہون گیاں جے کر حشر دہیاڑے حساب ہویا
کہندے زندگی رب دی کرم بخشیں میرے واسطے اے تاں عذاب ہویا
اوہدے وچ کیہہ ہوئے پین جوگا جہیدا بھج کے جگر کباب ہویا

( اللہ تعالی کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ قیامت والے دن جب ہم آمنے سامنے ہوں گے سو پھر آپ سے دو دو باتیں ہوں گی۔ کہتے ہیں کہ یہ زندگی اللہ تعالی کا بہت بڑا کرم ہے یہ زندگی اس کی بخشش ہے لیکن میری ساری زندگی تو عذاب میں گزری ہے۔ میرے لئے یہ زندگی عذاب ہے۔ بھلا اس جگر کا خون کب پینے کے لئے بچا ہو گا جو پہلے جل بھن کر کباب ہوا ہوا ہے۔

ان کو اس حقیقت کا بھی ادراک تھا کہ انسان کو اس کی غلطی کی وجہ سے جنت سے نکالا گیا۔ اب اللہ تعالی کی اطاعت کرنے پر جنت کا وعدہ ہے۔ آپ اپنے رب سے مخاطب ہیں۔

تیری جنت اے اودھر نہیں دل آؤندا
جتھوں پہلے سی کدی جواب ہویا
خزاں رہی حیاتی دے باغ اندر
کھڑ کے دل نہ کدے گلاب ہویا

آپ نے ساری زندگی بہت ہی کٹھن حالات میں اور اکیلے گزاری۔ اس کا شکوہ کرتے ہوئے وہ اپنے رب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے میرے سچے رب میرا اس جنت میں جانے کو دل نہیں کرتا جس جنت سے میں کبھی نکالا گیا تھا۔ میری تو ساری زندگی ایک عذاب کی طرح گزری ہے۔ میری زندگی میں ہمیشہ خزاں کا راج رہا ہے۔ میرے دل کی خواہشوں کے گلاب کی کلیاں کبھی پھول نہیں بن سکیں۔

ان کے کلام میں بہت سی رمزیں پنہاں ہوتی تھیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ہمیشہ لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کی وہ کہتے ہیں

کجھ کہن نوں جی پیا کردا اے کجھ کہن توں جی پیا ڈردا اے
کجھ کہیے پاگل کیندے نیں حپ رہیے سینہ سڑدا اے

کچھ کہنے کو دل کرتا ہے لیکن پھر کچھ کہنے سے دل ڈرتا ہے۔ اگر ہم کچھ کہیں تو لوگ ہمیں پاگل کہتے ہیں اور اگر کچھ نہ کہیں تو اپنا سینہ جلتا ہے۔ اپنا ضمیر ملامت کرتا ہے۔

اس منافق معاشرے پر آپ گہری نظر رکھتے تھے۔ اس کا احوال بھی انہوں نے اپنے اشعار میں بیان کیا ہے۔ ان اشعار میں آپ اپنے معاشرے سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔

ایتھے تن توں لہیڑے لاؤندے نیں
کر ننگے جسم نچاؤندے نیں
عزتاں تے سر کوئی کجدا نہیں
لاشاں نو خوب سجاؤندے نیں

یہاں پر تو لوگ بدن کے کپڑے تک اتار لیتے ہیں اور پھر جسم کو ننگا کر کے نچواتے ہیں۔ عورت کی عزت نہیں کرتے۔ یہاں کوئی کسی غریب کی مدد نہیں کرتا لیکن مرے ہوؤں کو خوب سجاتے ہیں۔ جیتے جی کسی غریب کی مدد نہیں کرتے لیکن اس کی لاش کو بڑے اہتمام سے دفن کرتے ہیں۔

اے دنیا مثال سراں دی اے تے مسافراں بیٹھ کھلو جانا
وارو واری اے ساریاں کوچ کرنا آئی وار ناں کسے اٹکو جانا
میرے وہندیاں ویہندیاں کئی ہو گئے تے میں وی کئیاں دے وہیندیاں ہوجانا
دامن شال دو شال لیراں والیاں نیں سبھناں خاک دے وچ سمو جانا

تقریباً سبھی پنجابی صوفی شعرا نے دنیا کی بے ثباتی کا ذکر اپنے کلام میں کیا ہے۔ ہم استاد دامن کو بھی صوفی شعرا کی صف میں کھڑا کر سکتے ہیں کیونکہ وہ بھی ایک صوفی منش انسان تھے، جنہوں نے اس دنیا سے کبھی محبت نہیں کی۔ ہمیشہ دنیاوی خواہشوں کو اپنے کنٹرول میں رکھا۔ اپنے عروج کے وقت بھی کسی حکمران سے اپنے لئے کچھ نہیں مانگا۔ ہمیشہ ان کی برائیوں، کوتاہیوں کو اجاگر کیا۔ اوپر بیان کی گئی غزل میں بھی انہوں نے دنیا میں اپنے قیام کو بڑا مختصر جانا ہے۔

اسی لئے آپ کہتے ہیں کہ یہ دنیا ایک سرائے کی مانند ہے جہاں ہم مسافروں کی طرح کچھ دیر کے لئے رکتے ہیں۔ باری باری جس کا وقت پورا ہوتا ہے وہ اس دنیا سے رخصت ہوتا جاتا ہے۔ جب جب جس کی باری آجاتی ہے وہ اپنی باری پر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ میرے دیکھتے دیکھتے کئی اس دنیا سے میرے سامنے رخصت ہو گئے اور میں بھی کسی کے دیکھتے دیکھتے اس دنیا سے چلا جاؤں گا۔ اس دنیا میں سبھی نے ایک دن اس خاک میں دفن ہو جانا ہے۔

اپنے سچے رب کی ثنا خوانی کرتے ہوئے آپ رب کی صفات بیان کرتے ہیں اور رب کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں جس نے انھیں دولت کی بجائے ایک محبت کرنے والا دل عطا کیا جو لاکھوں سے بھی بڑھ کر ہے۔

میرے مولا نے اپنیاں منگتیاں نوں جو کجھ دتا وکھو وکھ دتا
اوہدی ونڈ نو ں سمجھنا بہت مشکل کتے ککھ دتا کتے لکھ دتا
بھریا دل سی دتا محبتاں دا مینوں لکھ دا وی سوا لکھ دتا
بڑا چا سی شوق وچ سجدیاں دا خورے کتھے کتھے متھا رکھ دتا

اپنے سچے رب کی رزق کی تقسیم بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کی قدرت کا ایک اپنا ہی مزاج ہے۔ اللہ تعالی نے مانگنے والوں کو جو کچھ بھی

دیا ہے ایک دوسرے سے مختلف عطا کیا ہے۔ اس کی تقسیم کو سمجھنا بہت ہی مشکل ہے۔ اس نے کہیں لاکھوں دیا اور کہیں کچھ بھی نہیں دیا۔ لیکن اللہ نے مجھ پر بڑا کرم کیا کہ دولت کے بدلے میں مجھے محبت سے بھرا ہوا ایک دل دے دیا۔ جو میرے لئے لاکھوں سے بڑھ کر ہے۔ مجھے اللہ تعالی کا شکر کرنے کا بہت شوق تھا اور میں نے اس کا شکر ادا کرنے کے لئے پتہ نہیں کہاں کہاں اس کے حضور سجدہ ریز ہوتا رہا ہوں۔

صفدر میر کا ان کے متعلق کہنا تھا کہ استاد دامن ایک اچھا شاعر ہونے علاوہ ایک بہت اچھے انسان بھی تھے۔ ان کی شاعری کی جڑیں عوام میں تھیں۔ مجلسی آدمی تھے۔ ان کی شخصیت انسانیت کا ایک استعارہ تھی۔ کہتے ہیں علم ڈگریاں پی ایچ ڈی کرنے سے نہیں آتا، استاد دامن حقیقتاً ً ایک عالم تھے۔ بہت سے دوسرے شاعروں کا متبادل مل جائے گا لیکن استاد دامن جیسا انسان دوبارہ پیدا نہیں ہو گا۔ اس کا عوام کے ساتھ ایک گہرا رشتہ تھا۔ وہ ایک ایسا درخت تھا، جس کا پھل سب نے کھایا۔ لوگ ان سے سچی محبت کرتے تھے۔ فیض احد فیض اور صوفی تبسم جیسے شاعر ان کے حجرے میں ان سے کچھ نہ کچھ علم حاصل کرتے تھے۔ اس کے دروازے ہمیشہ سب کے لئے کھلے رہتے تھے۔

احمد سلیم اپنی کتاب ً قبر جنہاں دی جیوے ً میں استاد دامن کے متعلق لکھتے ہیں کہ میں فیض احمد فیض کے کہنے پر استاد دامن کو ملنے ان کے پاس ان کے حجرے میں گیا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے کہ تمہیں دیکھ کر دل خوش ہو گیا ہے۔ لیکن کچھ کھایا پیا کرو تم بہت کمزور ہو۔ ان کو کتابوں کے علاوہ کھانے اور پینے کا بہت شوق تھا۔ ایک دن میں ان کے پاس گیا تو وہ قورمہ پکا رہے تھے۔ ساتھ سلاد بھی بنا رہے تھے، میرے دیکھتے دیکھتے انہوں نے سلاد پر وسکی کا چھڑکاؤ کیا اور مجھے پوچھا، کھانا کھاؤ گے۔

میں نے ان کو سلاد پر وہسکی چھڑکتے دیکھ کر کہا کہ میں کھانا کھا کر آیا ہوں۔ اس پر انہوں نے اچانک میری طرف دیکھا اور ناراضگی سے کہا کہ پھر جاؤ۔ میں ان کو روسی ڈکشنری کی کتاب دینے آیا تھا جو خاص طور پر ان کے لئے ماسکو سے منگوائی گئی تھی۔ انہوں نے ناراضگی سے کہا، مجھے نہیں چاہیے، اسے لے جاؤ۔ دوسرے دن میں پھر ان کے پاس گیا تو وہ ناراض تھے، پوچھا کیوں آئے ہو۔ میں نے کہا کہ کل میں نے جھوٹ بولا تھا میں کھانا کھا کر نہیں آیا تھا۔ لیکن سلاد کی وجہ سے چلا گیا۔ تو انہوں نے کہا کہ صاف کہہ دیتے کہ سلاد نہیں کھانا۔ جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ جھوٹ کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ آپ نے انسانوں کی ہر جگہ عزت کی۔ انہیں منافقت سے سخت نفرت تھی۔ ان کی بے رحم صاف گوئی سے سب ہی ڈرتے تھے۔

سید سبط الحسن لکھتے ہیں کہ آپ کو بہت سی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ ان کی خواہش ہوتی تھی کہ اچھی کتاب پڑھنے کے لئے اصل کتاب پڑھنا چاہیے کیوکنہ دوسری زبان میں ترجمہ ہونے سے اس کے افکار میں فرق آ جاتا ہے۔ ایک دفعہ مغلپورہ میں مولانا بھاشانی کے صدارت میں مزدوروں کا ایک جلسہ تھا اس میں استاد دامن نے ٹیگور کی نظم بنگالی میں پڑھ کر سنائی۔ مولانا بھاشانی بہت متاثر ہوئے۔

استاد دامن کے آخری دنوں کی بات ہے، وہ سروسز ہسپتال میں داخل تھے۔ آل انڈیا ریڈیو نے یہ خبر نشر کی کہ استاد دامن بے یارومددگار ہسپتال میں داخل ہے۔ گورنر پنجاب جنرل جیلانی نے یہ خبر سن کر ان سے ملنے کا منصوبہ بنایا۔ اس پر ڈاکٹروں نے انھیں پرائیویٹ کمرے میں شفٹ کرنا چاہا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ جنرل جیلانی ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر افتخار کے ہمراہ ان کی تیمار داری کے لئے آئے اور پھولوں کے گلدستے کے ساتھ ایک لفافہ بھی دیا۔

ان سے کہا کہ بڑے صاحب ( ضیاء الحق ) کہتے ہیں کہ آپ کو علاج کے لئے بیرون ملک بھیج دیتے ہیں۔ وہ آپ سے بات بھی کرنا چاہتے ہیں۔ استاد دامن نے ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیا اور خاموشی سے سب کچھ سنتے رہے۔ ان کے جانے کے بعد لفافہ چیک کیا گیا تو اس میں دس ہزار روپے کا چیک تھا۔ استاد دامن نے فوراً اپنے خادم کو ڈاک خانے بھجوا کر اوہ چیک ڈاک سے گورنر پنجاب کے نام واپس بجھوا دیا اور کہا کہ جو خود بھکاری ہیں (بیرونی امداد کے ) وہ میری کیا مدد کر سکتے ہیں۔ استاد دامن ایک بہادر شخص تھے وہ ایک متوازن معاشرے کو وجود میں لانے کے لئے لوگوں کی امنگوں کے ترجمان تھے۔ زندگی میں انہوں نے سب حکومتوں کے ظلم و جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کے سارے ظلم برداشت کیے لیکن ان کے آگے جھکے نہیں اور نہ ہی حوصلہ ہارا۔

یہ آپ کی ایک طویل نظم ہے جس میں انہوں نے اپنے اردگرد کی زندگی کی مختلف حقیقتوں کو اپنے پیرائے میں بیان کیا۔ معاشرے کی اونچ نیچ اور مختلف ضرب المثال کو استعمال کیا ہے۔
جنہاں رناں دے مرد کماؤ ہوندے کھل کے وچ شریکے دے بیندیاں نیں
جہیڑی بیری نوں لگدے بیر بہتے اٹاں بہتیاں اوسے نوں پیندیاں نیں
ا اکھاں کھلدیاں تے ہوشاں آؤندیاں نیں جدوں آن کے تے بھیڑاں پیندیاں نیں
گریاں اودوں باداماں چوں باہر آون جدوں اوہناں اتے سٹاں پیندیاں نیں
جدوں پانی دریاواں ود سک جاندے کدوں مچھیاں جیوندیاں رہندیاں نیں
جدوں آن مکان نوں کیر لگدی کندھاں اپنے آپ فیر ڈھیندیاں نیں

خاندان میں جس عورت کا خاوند اچھا کماتا ہے وہ اپنی برادری میں بہت ناز نخرے سے بیٹھتی ہے۔ جو پھلدار درخت ہوتا ہے پتھر ہمیشہ اسی کو پڑتے ہیں۔ جب مصیبتیں آتی ہیں تو پھر انسان کو سمجھ بھی آجاتی ہے ورنہ بندہ بے فکر گھومتا رہتا ہے۔ جب باداموں کے اوپر چوٹ لگتی ہے تو اس میں سے گری باہر نکل آتی ہے۔ بہت گہری رمز کی بات ہے کے جب آپ بہت زیادہ محنت کرتے ہیں، خون پسینہ بہاتے ہیں تو پھر اس کا پھل بھی آپ کو ملتا ہے۔ جن دریاؤں کا پانی سوکھ جاتا ہے ان میں مچھلیاں کیسے زندہ رہ سکتی ہیں۔ جس مکان کی بنیادوں میں پانی لگتا ہے تو پھر اس کی دیواریں خود بخود گرنا شروع ہو جاتی ہیں

کہتے ہیں کہ یہ نظم انہوں نے سکندر مرزا کے حکومت سے اترنے پر لکھی تھی۔
سٹیجاں تے آئیے سکندر ہوئی دا اے سٹیجوں اتر کے قلندر ہوئی دا اے
الجھے جے دامن حکومت کسے نال بس اینا ای ہندا اے اندر ہوئی دا اے

ایوب خان کے مقابلہ میں آپ نے محترمہ فاطمہ جناح کا الیکشن میں ساتھ دیا۔ ان کی یہ نظم اسی تناظر میں کہی گئی ہے۔

پتر نال مقابلہ ماں دا اے پتر اسیں وی آں، اپنی ماں ول آں
سانوں صدر دے سائے دی لوڑ کوئی نہیں اسیں ٹھنڈی بہشتاں دی چھاں ول آں

ا نہوں نے بھی ہیر لکھنے پر طبع آزمائی کی۔ اس ضمن میں تنویر ظہور اپنی کتاب ً وڈے لوگ وڈھیاں گلاں ً میں استاد دامن پر ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ان کے پاس ہیر کے قصے پر لکھی بتیس سے زیادہ کتابیں موجود تھیں لیکن انہیں سب سے زیادہ ہیر وارث شاہ بہت پسند تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وارث شاہ کا یہ مصرعہ دنیا کے بڑے بڑے اشعار پر حاوی ہے۔

وارث رن، تلوار، فقیر، گھوڑا چارے تھوک کسے دے یار ناہیں

استاد دامن کہتے تھے کہ آج تک ہیر کا قصہ جتنی دفعہ بھی لکھا گیا اس میں رانجھے کو ایک خواجہ سرا کے روپ میں پیش کیا گیا۔ لیکن جو ہیر استاد دامن نے لکھی اس میں انہوں نے رانجھے کے کردار کو مردانہ وصف کو اجاگر کیا۔

بندہ چاہے تے کیہ نہیں کر سکدا منیا وقت وی تنگ توں تنگ آؤندا
رانجھا تخت ہزاریوں ٹرے تے سہی پیراں ہیٹھ سیالاں دا جھنگ آؤندا

(اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ زیل کتابوں اور مضامین سے استفادہ کیا گیا ہے۔ )
استاد دامن۔ مصنفہ تنویر ظہور۔
دامن دے موتی۔ سائیں اخترحسین، وحید مرزا، محمد اقبال۔ مطبوعہ فیروز سنز لاہور
وڈے لوگ وڈیاں گلاں۔ مصنفہ تنویر ظہور
USTAD DAMAN۔ THE PEOPLE ”S POET Dr Afzal Mirza WEDNESDAY، MAY 10، 2006


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments