اسرائیلی سافٹ وئیر: کیا ایک اور پاناما سیکنڈل سر اٹھانے جا رہا ہے؟


اپریل 2016 میں پاناما لیکس کے سیکنڈل نے دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ کئی سربراہان حکومت اپنے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے بعد 2016 ء میں ہی صدر ٹرمپ کے پہلے الیکشن کے دور ان بڑی بڑی ٹیک کمپنیوں کے خلاف خبریں باہر آنا شروع ہو گئیں کہ وہ شہریوں کا ڈیٹا بیچ کر الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ اس سے پہلے وکی لیکس کا معمہ بھی خبروں کی زینت بنا اور عالمی میڈیا کا تندور گرم رہا۔ ہر کوئی اپنی پسند کی خبر ڈھونڈتا اور اپنے مخالف فریق کا توا لگا دیتا۔ اب اسرائیلی سافٹ وئیر کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

اسرائیلی سافٹ وئیر کے حوالے سے بعض مبصرین بڑے دور کی کوڑیاں لانے اور آسمان زمین کے قلابے ملانے کی کو شش کر رہے۔ کچھ سوشل میڈیا کے دانشوروں کا کہنا ہے یہ جو نظر آ رہا ہے وہ محض آئس برگ کا ایک چھوٹا سا سرا ہے۔ اصل کہانی اور سازش بہت بڑی ہے جو آنے والے دنوں میں سامنے آئے گی۔ جب حقائق اور ممکنہ نتائج واضح دکھائی دے رہے ہوں تو ہم سازشی نظریات رکھنے والوں کی بات کو یکسر مسترد بھی نہیں کر سکتے۔

کچھ حلقوں میں خبر گرم ہے کہ اسرائیلی سافٹ وئیر کے سیکنڈل کو اس وقت سامنے لانے کا مقصد کچھ حکومتوں کو گرانا، چند حکمرانوں کو راستے سے ہٹانا اور آمریت زدہ ریاستوں کو اپنے تابع بنانا ہے۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ یہ سب کیسے ممکن بنایا جائے گا۔ جواب دینے کے لیے ماضی قریب میں پاناما کے سیکنڈل کا حوالہ ہی کا فی ہے۔ جب ایک خاص ترتیب کے تحت خبروں کو باہر لایا گیا اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے بعد پھر توپوں کا رخ تبدیل کر دیا گیا۔ اسی طرز پر اسرائیلی سافٹ وئیر کمپنی کو قربانی کا بکرا بنا کر ایسے پرائیویٹ پیغامات، گفتگو اور ویڈیوز کو لیک کیا جا سکتا ہے جس سے ریاستوں، حکمرانوں اور افراد کو بلیک میل کیا جا سکے اور ان سے اپنا ڈو مور کا مطالبہ منوا یا جا سکے۔

ذرا سوچیے، جس طرح وزیر اعظم عمران خان کا فون بھی ہیک کرنے کی کوشش کی گئی۔ خدا کرے وہ کوشش ناکام ہو گئی ہو لیکن اگر واقعتاً خان صاحب کا فون ہیک کر لیا گیا تھا تو بہت سے پرائیویٹ معاملات کو عوام کے سامنے لا کر ان کے خلاف ایک بڑا تماشا کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ دعا ہے کہ یہ مفروضہ ہی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک سابقہ زوجہ کی کتاب چھپنے کے بعد خان صاحب کی شہرت پر حرف آیا ہے۔ اپنی چڑیا کے ذریعے خبریں حاصل کرنے والے کچھ میڈیا کے جادوگر تو پہلے ہی اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ خان صاحب اپوزیشن کو ڈھیل دیے جانے پر بہت خفا ہیں اور بات اسمبلیاں توڑنے تک جا پہنچی لیکن کسی کمزور رگ کو دبا کر ان کا غصہ ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے۔

اب اگر ہمارے حکومتی سربراہ کے خلاف کوئی اور بڑا ذاتی سیکنڈل سامنے آتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ ان کی چھٹی کرانے والوں کو کسی عوامی رد عمل کا سامنا نہیں کرنے پڑے گا۔ سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ سیدھا الزام بھی کسی حکومت، ایجنسی یا مخالف ریاست پر نہیں دھرا جا سکتا۔ ہر کوئی اسرائیلی کمپنی کو برا بھلا کہے گا۔

اسی طرح مذکورہ سافٹ وئیر کے خریداروں میں ان ممالک کی حکومتیں شامل ہیں جہاں ڈکٹیٹر شپ قائم ہے۔ آمروں کو سب سے بڑا خوف اپنا امیج برباد ہونے کا ہوتا ہے۔ ویسے بھی کسی دشمن کو مارنا ہو تو پہلے اس کے امیج کو خراب کیا جاتا ہے تاکہ بعد میں اسے کوئی رونے والا بھی نہ ہو۔ یقیناً جن آمروں نے سافٹ وئیر خریدا تھا انہوں نے اسے بے دریغ استعمال بھی کیا ہوگا اور وہ بھی زیادہ اپنے قریبی ساتھیوں کی ”خیر خبر“ رکھنے کے لیے۔ اب جب ان کے معتمدین کو خبر ہو گی کہ وہ بھی دشمنوں کی طرح زیر نگرانی رہے تو ان کی حالت کیسی ہو گی، اسے سمجھنا کوئی مشکل بات نہیں۔ خبر یہ بھی ہے مڈل ایسٹ کے ایک نامور صحافی کا فون بھی اسی سافٹ وئیر کے ذریعے ٹریک کیا جا رہا تھا۔ جنہیں بعد میں ایک خوفناک انجام سے دو چار ہو نا پڑا۔

نہ صرف غیرجمہوری ممالک بلکہ کچھ جمہوری ریاستوں کی مناسبت سے بھی خبریں چل رہی ہیں، وہ بھی اس اسرائیلی سافٹ وئیر کے خریدار تھے یا شکار بنے۔ جیسا کہ فرانس کے صدر جن کا فون بھی ہیک کیا گیا۔ اب ذرا یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ کے تعلقات کو سامنے رکھیے تو بات سمجھ آتی ہے فرانس کے صدر کیوں زیر نگرانی رہے۔ اسی طرح ہمارے پڑوسی ملک میں مودی سرکا ر کو دیکھ لیں جنہوں نے اسی سافٹ وئیر کی مدد سے اپوزیشن رہنماؤں اور اپنے مخالفین پر نظر رکھی، جس سے بھارت میں ایک ہنگامہ برپا ہے۔

اب انڈیا، امریکہ، روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن لانے کی کوشش کر رہا ہے اور شاید غیر جانبدار ممالک کی تنظیم کو دوبارہ فعال بنانے کے راستے پر گامزن ہے۔ مگر شاید اب بہت دیر ہو چکی ہے اور مودی سرکار کو اپنی خارجہ پالیسی واضح کرنا گی ورنہ نافرمانی کی صورت میں یہی سافٹ وئیر کا سیکنڈل ہی کسی بھی جمہوری کو ملک کو سیاسی عدم استحکام کرنے کے لیے کا فی ہے۔

تمام مفروضوں اور سازشی نظریات سے ہٹ کر اب ذرا بدلتے عالمی منظر نامے کو سامنے رکھیے۔ جب نئی سرد جنگ کا محاذ گرم ہونے والا ہے۔ طبل جنگ پہلے ہی بج چکا او ر نئی صف بندیاں کی جا رہی ہے۔ ان حالات میں بڑی طاقتوں کے حلیف اور حریف ممالک بدل رہے ہیں۔ دوست ممالک کو ان کی کمزوری کا آئینہ دکھا کر اور مخالف صفوں میں جانے کا سوچنے والوں کو ذرا سمجھا کر اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اگر کوئی دھونس، دھاندلی اور دھمکی سے مان گیا تو ٹھیک ورنہ اس کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کر دیا جائے گا بلکہ یوں کہیے کہ اسرائیلی سافٹ وئیر میں پہلے سے موجود ڈیٹا کو حسب ضرورت اور وقتاً فوقتاً ڈیلیٹ یا لیک کر دیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments