منافق معاشرہ، بیٹی اور باپ


ہمارے معاشرے کو مذہبی منافق معاشرہ کہا جائے تو یہ بات کافی حد تک صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے ایک سے زیادہ دلائل موجود ہیں

1۔ ہم اپنے لئے گناہ، جرم، سزا کا اور معیار رکھتے ہیں اور دوسروں کے لئے اور۔

2۔ ہمارے مذہبی اصول مرد اور عورت کے لئے بھی مختلف ہیں۔ عورت کا گناہ عرش تک ہلا دیتا ہے اور مذہبی و معاشرتی اقدار کی دیواریں کھوکھلی اور کمزور کر دیتا ہے جبکہ مرد کا گناہ یہ لاکھ تاویلیں دے کر چھپایا جاتا ہے مثال کے طور پر ”جوانی دیوانی ہوتی ہے“ مرد ایسی حرکات کرتے رہتے ہیں ”بچہ ہے سیکھ جائے گا“ زیادہ بگڑ گیا ہے تو شادی کر دیں ”وغیرہ وغیرہ۔

3۔ بہت سے والدین اپنی بچیوں کی کم عمری میں ہی شادی اس لئے کر دیتے ہیں کہ یہ عین اسلامی عمل ہیں جبکہ بیٹے کی شادی کے وقت فرما رہے ہوتے ہیں، ابھی تو بچہ نا سمجھ ہے، تھوڑا کمانے لائق ہو جائے پھر شادی بھی کر دیں گے۔

4۔ مردوں کے لئے ہر قسم کی ٹیکنالوجی کا استعمال جائز اور وقت کی ضرورت جبکہ خواتین کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال حرام اور معاشرے میں فحاشی پھیلانے کا سبب ہے۔ لڑکا چاہے ساری رات موبائل پر بات کرتا رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لڑکی کو اگر خدانخواستہ کسی نمبر سے مسڈ کال آ جائے تو خاندان کی عزت خاک میں مل جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے نے منافقت کی ایسی مثالیں قائم کی ہوئی ہیں کہ عام آدمی تو یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کون سی قدر مذہبی، معاشرتی یا پدر سری ہے۔ ہمارا معاشرہ والدین کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بیٹیوں کی تربیت ایسی کرے جس میں ”طاقت اور دفاعی صلاحیت“ نامی کوئی خوبی نہ ہو، ورنہ زمانہ کیا کہے گا؟ بیٹی کو اتنا کمزور کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو بھی اپنے والدین کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتی اور نہ ہی خود مزاحمت کر سکتی ہے۔ معاشرے کے لوگ لڑکی کے ساتھ ہونے والے ظلم کا قصور وار اسی کو ٹھہرا کر سزا کا حقدار بنا دیتے ہیں۔

حالیہ دنوں کے واقعات نے پھر سے یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارے ملک میں لڑکی ہونا اور ایک لڑکی کا باپ ہونا کتنا مشکل منصب ہے۔ والد جب بھی اپنی بیٹی کو بہادر، نڈر، با اعتماد اور معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کی کوشش کرتا ہے تب تب ہماری منافق آڑے آ جاتی ہے۔

محلے کے لوگ آپ کو مشورے دے رہے ہوتے ہیں کہ بیٹی کو زیادہ نہ پڑھانا، بڑے شہروں میں بچیاں بگڑ جاتی ہیں۔ بیٹی نے ویسے ہی اس گھر سے چلے جانا ہے لہذا اتنا پیسہ لگا کر اسے پڑھانے کا کیا فائدہ؟ لڑکوں کی تعلیم پر خرچ کرو تاکہ گھر کی دولت گھر میں ہی رہے۔ ایسے کئی تایا، ماموں اور پھوپھے روزانہ کی بنیاد پر آپ کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے کہ لڑکی کو ”انسان“ نہیں بلکہ ایک ”چیز“ سمجھ کر اس کے تمام مذہبی و معاشرتی حقوق سلب کر لئے جائیں۔

رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے مشورے تو اپنی جگہ، یہاں تو ریاست بھی اپنی ذمہ داری نبھانے کو تیار نہیں ہے۔ ریاست جو کہ اس بات کی ضامن ہے کہ وہ تمام شہریوں کے ساتھ برابر کا سلوک کرے گی اور ان کے جان و مال کی حفاظت کرے گی، ایسا کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ صمفی بنیاد پر معاشرتی نا ہمواری ہر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ خدارا بچیوں کو جینے کا حق دو اور والدین کی ہمت افزائی کی جائے تاکہ وہ اپنی بچیوں کے خواب، حقیقت میں ڈھال سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments