نور مقدم قتل کیس: وہ قتل جس نے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا

حمیرا کنول، عابد حسین - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


 

نور مقدم

وہاں پر منظر ویسا ہی ہے جیسے کسی کے دنیا سے چلے جانے پر ہوتا ہے۔ باہر پورچ میں شامیانے لگے ہیں اور اُدھر مرد موجود ہیں اور اندر ڈرائنگ روم میں خواتین موجود ہیں۔

اتنے میں گھر کے مرد ڈرائنگ روم میں آئے تاکہ 27 سالہ نور مقدم کے جسد خاکی کو قریبی مسجد میں لے جا کر نماز جنازہ ادا کریں۔

لیکن نور مقدم کی موت کی کہانی نہایت تکلیف دہ ہے کیونکہ یہ طبعی موت نہیں تھی۔

تابوت میں کفن میں لپٹی نور کا سر تن سے جدا ہے اور یہ کوئی ناگہانی حادثہ نھیں تھا بلکہ یہ وحشیانہ قتل کاایک دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی نور مقدم کو 20 جولائی کے روز قتل کر دیا گیا تھا جس میں پولیس کی تفتیش کے مطابق نور مقدم کو تیز دھار آلے کی مدد سے گلا کاٹ کر ہلاک کیا گیا۔ نور مقدم کے قتل کی ایف آئی آر اُن کے والد اور سابق سفیر شوکت مقدم کی مدعیت میں درج کروائی گئی تھی جس میں مقتولہ کے دوست ظاہر جعفر کو نامزد کیا گیا تھا۔

رخصت کے موقع پر گھر کے مرد خواتین کو دلاسہ دے رہے ہیں اور پھر نور کی والدہ اپنی بیٹی کے چہرے پر جھک کر کہتی ہیں میں نے اللہ کے حوالے کیا، میں نے اللہ کے حوالے کیا۔

یہ وہ الفاظ تھے جو وہ بار بار دہرا رہی تھیں۔

نور مقدم

نور کے ساتھ جو ہوا وہ ان کی والدہ کو کافی بعد میں بتایا گیا۔ وہ پوچھتی تھیں کہ گولی لگی ہے تو سب ان کو کہتے تھے ہاں۔

مسجد جاتے وقت تابوت کو گاڑی میں رکھ دیا گیا اور وہاں موجود ہر فرد خاموش تھا، افسردہ اور شاک میں دکھائی دے رہا تھا اور ایسے جیسے کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔

اسلام آباد کے نیول انکریج کے علاقہ کی جامع مسجد میں نور کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور پھر وہاں سے انھیں تدفین کے لیے قبرستان منتقل کیا گیا۔

وہیں پر نور کے والد، ان کے دوست اور عزیز اقربا موجود تھے ۔

سب انھیں دلاسا دینے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کی تکلیف اور دکھ پر پرسہ دے ر ہے تھے۔

ان مشکل لمحات میں چلچلاتی دھوپ میں کھڑے وہ ایک ایک ملنے والے سے نہایت صبر سے ملتے لیکن پھر ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

قبرستان میں موجود نور کے والد، سابق سفیر شوکت مقدم سے میری چند لمحے ملاقات ہوئی۔

وہ ایک پتھر کے سہارے بیٹی کی قبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ تعارف کروانے پر اور فون پر رابطے کا حوالہ دینے پر انھوں نے کہا کہ ہاں میں نے بی بی سی کی خبر دیکھی تھی، اور میں اس روز میں صبح ساڑھے چھ بجے تک ایف آئی آر کٹوانے کے لیے تھانے میں موجود تھا۔

قبرستان میں ہی نور کے ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ نور ایک بہت اچھی دوست تھی، وہ تو گلی میں گزرتے کتوں اور بلیوں کو بھی کھانا دیتی تھی۔

قبرستان کے داخلی گیٹ کے پاس موجود ایک خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ آج میں پہلی بار کسی جنازے کے ہمراہ آئی ہوں۔

نور مقدم

‘ہم سب بہت پریشان ہیں۔ ہمارے بچے محفوظ نہیں۔ ہم کس طرح اپنے بچوں کی حفاظت کریں۔ میرے خیال سے جس طرح نور کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے یہ قابل معافی نہیں ہے۔ چیف جسٹس کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔’

نور کی قبر پر مٹی ڈالی جانے کے بعد پانی کا چھڑکاؤ اور گل پاشی کیے جانے والے وقت پر مسلسل میرے ذہن میں نور کی قریبی دوست عائلہ کے الفاظ گونج رہے تھے کہ ‘وہ تو واقعی نور تھی۔ نہ کبھی اس نے کسی کا برا چاہا نہ کسی سے برا بولا۔ وہ ایک پینٹر اور کمیونٹی ورکر تھی۔ ہر دوست کی برتھ ڈے پر کارڈ خود بناتی تھی۔’

نور کے دوست کہتے ہیں کہ ہم اس واقعے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس گھر میں نوکروں کی ایک فوج موجود ہو وہاں نور کے ساتھ یہ سب ہونا ایک ناقابل یقین بات لگتی ہے۔

دوستوں کو اس بات کا بے حد ملال ہے کہ نجانے ان کی کم گو دوست نور نے کتنی بار مدد کے لیے پکارا ہو گا لیکن کیونکہ وہ اتنا دھیما بولتی تھی کہ شاید اس کی آواز گھر کے اس کمرے سے بھی باہر نہ نکل پائی ہو۔

‘گرفتاری کے وقت ظاہر جعفر کی ذہنی حالت بالکل ٹھیک تھی’

ادھر دوسری جانب، نور مقدم کی تدفین کے چند گھنٹوں بعد اسلام آباد پولیس نے جی ایٹ میں واقع ون فائیو کے دفتر میں قتل کے دو روز بعد پہلی بار میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس قتل کی تفتیش کے بارے میں پیشرفت کے بارے میں آگاہ کیا۔

چھوٹے سے ہال میں تمام کرسیوں پر صحافی براجمان تھے اور کیمرا مین اپنے کیمروں کے ساتھ پریس کانفرنس کی فوٹیج بنا رہے تھے۔

نور مقدم

اسلام آباد آئی جی کی جانب سے قائم کی گئی تفتیشی ٹیم کی رکن اے ایس پی آمنہ بیگ کے ہمراہ ٹیم کے سربراہ ایس ایس پی انوسٹی گیشن عطا الرحمان نے گفتگو کا آغاز کیا اور کہا کہ ملزم ظاہر جعفر کو جب وقوع سے گرفتار کیا گیا تو اس کی ذہنی حالات مکمل طور پر نارمل تھی اور وہ پوری طرح اپنے ہوش و حواس میں تھا۔

سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ ماضی میں ملزم کا ایسا ذہنی صحت کے حوالے سے کوئی معاملہ ہو لیکن جس دن اسے گرفتار کیا گیا اس دن وہ اس کی دماغی حالت بالکل ٹھیک تھی۔

‘وہ بالکل اپنے ہوش میں تھا۔ اس کو باندھا گیا تھا، اس نے کسی اور پر بھی حملہ کیا تھا، ان لوگوں نے اسے باندھ کہ اسے پکڑا تھا جب پولیس موقع پر پہنچ گئی۔ تو جہاں تک واقعے کے حوالے سے بات ہے تو وہ مکمل طور پر ہوش و حواس میں تھا۔’

ملزم کی جانب سے قتل کے موقف پر کیے جانے والے سوال پر ایس ایس پی نے کہا کہ تفتیش کے حوالے سے یہ کافی حساس معاملہ ہے اور زیادہ کچھ نہیں بتایا تاہم انھوں نے مزید کہا کہ اگر ملزم اس قتل سے انکار بھی کرتا ہے تو بھی کوئی ایسی بات نہیں ہے اور قانونی طور پر شواہد کی اہمیت ہوتی ہے اور شواہد ہمارے پاس ہیں اور اس صورت میں ملزم کے بیان کی شاید اتنی زیادہ اہمیت نہ ہو۔

پولیس کا اس کیس کے حوالے سے مزید کہنا تھا کہ واقعے کی جگہ سے آلہ قتل بھی برآمد کر لیا گیا ہے۔

عطا الرحمان نے کہا کہ پولیس نے چھری کے ساتھ ساتھ گھر سے پستول بھی برآمد کی ہے لیکن ‘ابتدائی تفتیش اور اب تک کی میڈیکل رپورٹ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ پستول سے گولی نہیں چلی تھی۔’

پولیس کی تفتیش میں اب تک کیا پیشرفت ہوئی ہے؟

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عطا الرحمان کا کہنا تھا کہ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس وہاں پہنچ گئی تھی اور وہاں موجود شواہد جمع کرنے شروع کر دیے اور ساتھ ساتھ فرانزک کا عمل بھی شروع کر دیا تھا تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی ثبوت ضائع نہ ہو۔

‘ملزم ہمارے پاس ریمانڈ پر ہے۔ ہم تفتیش کر رہے ہیں۔ وہ وقوعے سے پکڑا گیا ہے۔ آلہ قتل بھی مل گیا ہے۔ ہم متاثرہ خاندان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کو انصاف دلانا ہمارا فرض اور ذمہ داری ہے۔’

نور مقدم

اس سوال پر کہ آیا نور مقدم کو گولی بھی ماری گئی تھی، ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ پستول میں گولی پھنس گئی تھی اور چلی نہیں تھی۔

انھوں نے نور کی اس گھر میں موجودگی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ وہاں موجود ملازمین کو حراست میں لیا گیا ہے اور ان کی پوچھ گچھ اس وقت جاری ہے تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ نور مقدم وہاں کب سے موجود تھیں۔

‘اس گھر میں جو ملازمین ہیں ان سے بھی تفتیش جاری ہے اور جھگڑے کا ذکر ہے اس میں۔ اب یہ بات کہ کیا ہوا، اور کس وقت پر کیا ہوا جس کی وجہ سے اس نے قتل کیا تو اس کا تعین ابھی کرنا ہے۔’

ذہنی صحت کے حوالے سے بار بار پوچھے جانے والے سوالات پر پولیس کی جانب سے یہی کہا گیا کہ پولیس کی توجہ ملزم کے ماضی پر نہیں ہے اور حراست میں لیے جانے والے موقع پر وہ بالکل ٹھیک اور ہوش و حواس میں تھا۔

پولیس کا مزید کہنا تھا کہ وہ ملزم کے جرائم کے حوالے سے بھی پرانے ریکارڈ دیکھ رہے ہیں اور کہا کہ ملک میں ان کے خلاف کہیں بھی کوئی پرچہ ہوتا تو سامنے آ جاتا لیکن پولیس کی دلچسپی اس بات میں ہے کہ وہ کسی اور ملک میں کسی جرم میں تو ملوث نہیں ہے۔

‘قتل ہوا ہے۔ موقع سے پکڑا گیا ہے۔ وہیں سے آلہ قتل بھی ملا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ انھیں کوئی چھوٹ ملے گی۔ ہماری جو بھی تفتیش ہو گی وہ مکمل شواہد کی روشنی میں ہو گی اور ہم اس کو سزا دلوا کر رہیں گے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32466 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp