کیا افغانستان، پاکستان کا صوبہ ہے؟


پاکستانی حکام اس وقت افغانستان کی حکومت کے بارے میں بالکل اسی لب و لہجے میں بات کررہے ہیں جیسے وہ ملک میں اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ رویہ اختیار کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ملک کےسیاسی ماحول میں اب اپوزیشن نے بھی گالی کا جواب گالی سے دینے کی ٹھان لی ہے ، اسی طرح افغان حکومت کے ساتھ معاملات سے بھی اسی طرح نمٹنے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کے آج جاری کئے گئے متعدد ٹوئٹ پیغامات اس کے ثبوت کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت اور اس کے نمائیندے ملکی سیاست اور سفارت کاری میں تخصیص کرنے سے یا تو عاری ہیں یا اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔ یا پھر وزیر اعظم کے اس اعلان کے باوجود کہ پاکستان نے افغانستان میں’ تزویراتی گہرائی ‘ تلاش کرنے کی حکمت عملی تبدیل کرلی ہے، پاکستان عملی طور سے افغانستان کو اپنا ’ایک صوبہ‘ ہی سمجھنے لگا ہے۔ اسے امید ہے کہ اب چند ہفتوں یا مہینوں کی بات ہے پھر کابل پر ان کے ’دوست اور غم خوار‘ طالبان کی حکومت ہوگی اور اسلام آباد اور کابل کے درمیان تمام دوریاں پاٹ لی جائیں گی۔ یہ وہی طریقہ ہے جو تحریک انصاف کے زعما کسی حد تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کےساتھ روا رکھتے ہیں۔ وفاقی وزرا تسلسل سے سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر الزامات عائد کرتے ہیں اور یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ آئیندہ انتخابات میں ان کی پارٹی کراچی کے علاوہ سندھ سے پیپلز پارٹی کا صفایا کردے گی اور باقی تین صوبوں کی طرح کراچی میں بھی ان کی بلاشرکت غیرے عمل داری ہوگی۔ لیکن اس خواب کی تکمیل تک جو رویہ اختیار کیا گیا ہے، اس سے پیدا ہونے والی سیاسی پیچیدگیوں، صوبے اور مرکز میں فاصلے اور لوگوں کے دلوں میں ابھرنے والےشبہات کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔
ملکی سیاسی ماحول میں جو تلخی پیدا کی گئی ہے اور سیاسی الزام تراشی میں جس سطحی مزاج کو عام کیا گیا ہے ، اب لوگ اس سے عاجز آگئے ہیں اور متعدد حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ سیاست کو اس قدر کثیف اور سیاست دانوں کو ناقابل اعتبار کرنے سے درحقیقت کون سی قوتیں کس مزاج کو مستحکم کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ اس کا ایک افسوسناک پہلو گزشتہ دنوں آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران دیکھنے میں آیا جب وزیر اعظم نے کشمیری عوام یا اس خطے کے مستقبل پر اپنا منشور پیش کرنے کی بجائے مریم نواز کے برطانیہ میں تعلیم پانے والے بیٹے کو نشانہ بنا کر شریف خاندان کو ’چور‘ کہنے کی کوشش کی۔ اس کے جواب میں مریم نواز نے عمران خان کے برطانیہ میں رہنے والے بیٹوں کو ’یہودی پروردہ ‘ کہہ کر سیاسی الزام تراشی کو ایک نیا سنگین رخ دیا۔ اس قسم کی الزام تراشی کے بعد اب یہ شدت سے محسوس کیا جارہا ہے کہ تحریک انصاف نے سیاست میں الزامات کو گالی بنانے کا جو کلچر متعارف کروایا ہے ، کیا اسے کسی طور قابو میں کیا جاسکے گا۔
ایک طرف ملک کے سنجیدہ حلقوں میں سیاسی ماحول میں پیدا ہونے والی آلودگی اور سنسنی خیزی کو کم کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے تو اس کے ساتھ ہی حکومت نے گزشتہ چند روز کے دوران افغانستان کی حکومت کے معاملہ پر جارحانہ ، غیر سفارتی اور اکھڑ لب و لہجہ اختیار کرکے یہ ظاہر کیا ہے کہ ملکی سیاست کی طرح اب سفارت کاری اور بین الملکی تعلقات میں بھی گالی اور الزام تراشی ہی کو سب سے بہتر ہتھکنڈا سمجھا جارہا ہے۔ سال ہا سال کی ’محنت‘ کے بعد بھارت کے بارے میں پاکستان میں ایک خاص طرح کا معاندانہ ماحول پیدا کیا گیا ہے۔ اس کی جزوی وجہ مقبوضہ کشمیر کے سوال پر بھارت کی ہٹ دھرمی اور خاص طور سے نریندر مودی کی حکومت کے تحت کشمیر ی عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی بھی ہے۔ کشمیر میں ناجائز بھارتی اقدامات کے باوجود پاکستان کو یہ سمجھنے کی ضرورت تھی کہ ہمسایہ ملک کی ناروا پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے ایک تو خاص طور سے ہندو عقیدہ کو نشانہ بنانے سے گریز کیا جائے۔ دوسرے یہ اہتمام کیا جائے کہ مؤقف کے اختلاف کو مناسب فورمز پر دلیل اور شواہد کے ساتھ پیش کیا جائے۔ اور اگر دوسری طرف سے زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا جواب تحمل و دلیل کے ساتھ دیاجائے اور اپنے مؤقف کے لئے دنیا کو ہم نوا بنانے کی کوشش کی جائے۔
اگر دونوں فریق الزام تراشی اور ایک دوسرے پر چلانے کا مقابلہ کرنا شروع کردیں گے تو دنیا کے ممالک ان کی بات پر کان دھرنے کی بجائے، سننے سے انکار کریں گے اور اصل مسئلہ سے آنکھیں موند لی جائیں گی۔ کشمیر کا معاملہ پاکستان کی طرف سے اختیا رکی گئی ایسی ہی عاقبت نااندیشانہ حکمت عملی کی وجہ سے اس وقت عالمی عدم توجہی کا شکار ہے۔ پاکستان کو اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کیوں کشمیر کے سوال پر ہر آنے والے دن کے ساتھ لاتعلق ہوتی جارہی ہے۔ عمران خان کے بار بار کہنے سے جس طرح نواز شریف چور ثابت نہیں ہوجاتے ، اسی طرح ان کے ان دعوؤں سے کہ انہوں نے دنیا کو کشمیر کے مسئلہ سے آگاہ کیا ہے اور اسے عالمی ایجنڈے پر لے آئے ہیں، کشمیر کی آزادی کا مسئلہ حل نہیں ہوجائے۔ اپنے منہ میاں مٹھو کی کہاوت پرانی ہے اور بے بنیاد دعوے کرنے والوں پر آج بھی صادق آتی ہے۔
عالمی میڈیا اگر کبھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر رپورٹنگ کرتا ہے یا اس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تو یہ اقدام پاکستان کی سفارتی کوششوں یا کشمیر کی صورت حال پر اس کے فراہم کردہ دستاویزی شواہد کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں یا مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کے متحرک گروہوں کی فراہم کردہ معلومات کی وجہ سے ممکن ہوپاتا ہے۔ پاکستان کی حکومت اور تحریک انصاف تو اب تک یہ بات بھی سمجھ نہیں سکے کہ آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کو پاکستانی سیاست کا میدان جنگ بنا کر کشمیر کی آزادی اور کشمیری عوام کے حق خود اختیاری کے سوال پر پاکستان کا دیرینہ مؤقف پامال کیا گیا ہے۔ کشمیریوں کو اپنا مقدمہ خود لڑنے کے قابل بنانے کی بجائے انہیں آزاد کشمیر میں بھی بیگانہ کردیا گیا ہے۔ صرف وہی عناصر کوئی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی امید کرسکتے ہیں جو حکمران جماعت کے ساتھ مل کر برادری یا علاقے کی بنیاد پر مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس سیاسی طریقہ کار میں کشمیر کی آزادی موضوع گفتگو ہی نہیں رہی۔ حالیہ انتخابی مہم میں منعقد ہونے والے جلسے اور ان میں بلند کئے گئے نعرے اس کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔
اسی طرح قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے افغان نائب صدر امراللہ صالح کے الزامات اور صدارتی محل پر میزائل حملوں کے بعد سقوط ڈھا کہ کی تصاویر شائع کرنے پر جس شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے، وہ امن کی سفارت کاری کا آئینہ دار نہیں ہے۔ امرللہ صالح کی پاکستان دشمنی سے بحث نہیں ہے لیکن پاکستان اگر افغانستان میں ارفع مقاصد حاصل کرنے کا خواہاں ہے تو اسے ایسے ’غیر اہم ‘ افراد کو اہمیت دینے اور جواب دینے کی کوشش میں تند وتلخ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟ فواد چوہدری نے امرللہ صالح کو’دغا باز‘ اور معید یوسف نے احمق قرار دیا۔ معید یوسف نے اس حوالے سے جو متعدد ٹوئٹ جاری کئے ہیں، ان میں بظاہر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان امن دشمنوں کی شرارتوں کے باوجود افغانستان میں امن کی کوششیں جاری رکھے گا لیکن اس کے ساتھ ہی ان ٹوئٹس سے یہ بھی واضح ہے کہ پاکستان افغان حکومت کو امن کا شراکت دار نہیں سمجھتا۔ کیا پاکستانی حکومت اس بات کی وضاحت کرسکتی ہے کہ دنیا بھر میں قانونی حکومت کے طور پر تسلیم کی جانے والی افغان حکومت کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان، افغانستان میں کن عناصر کے ساتھ مل کر افغان عوام کے مفادات کا تحفظ کیاجائے گا؟ اور اس طرز عمل کو دنیا کیوں کر پاکستان کی طرف سے خیر سگالی کا پیغام سمجھے گی؟
معید یوسف نے تاشقند کانفرنس میں عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کی ملاقات کے بارے میں بھی یہ تاثر دیا ہے گویا وزیر اعظم نے افغان صدر کے ساتھ مل کر کوئی احسان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم مٹھی بھر زہریلے لوگوں کی وجہ سے افغان عوام کے لئے پاکستان کی امداد کو متاثر نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان، افغانستان کے مسئلہ کے پر امن حل کا عزم رکھتا ہے۔ اسی جذبے سے وزیر اعظم عمران خان حال ہی میں صدر اشرف غنی سے ملنے پر آمادہ ہوئے تھے تاکہ امن کے لئے کام جاری رکھا جاسکے‘۔ معید یوسف کے علاوہ حکومت پاکستان کو سوچنا چاہئے کہ ایک ایسے ملک کی حکومت کے ساتھ اختلاف بڑھا کر کون سا وسیع مفاد حاصل کیا جاسکتا ہے، جس میں امن ہی پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے۔
پاکستان کی طرف سے ہتک اور مسترد کئے جانے کے بعد افغان حکومت فطری طور سے بھارت کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ کیا پاکستان نے طے کرلیا ہے کہ موجودہ حالات میں اشرف غنی کی حکومت کو ’دشمن‘ کا درجہ دے کر ہی پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکتا ہے؟ کیا اسلام آباد اور روالپنڈی، افغانستان میں ایک نئی، طویل ، دشوار اور خوں ریز پراکسی وار کی تیاری کررہا ہے؟ اگر افغانستان کے بحران سے نمٹنے کی یہی حکمت عملی ہے تو کم از کم پاکستانی عوام کو ذہنی طور پر اس مقصد کے لئے تیار کرلیا جائے جنہیں مسلسل امن اور سکون کی خواب آور دوا دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments