عارف نظامی: اک عہد صحافت کا اختتام


عارف نظامی صحافتی ادارے کا مالک ہوتے ہوئے بھی بنیادی طور پر سراپا صحافی تھے۔ انھوں نے جس وضع داری، رکھ رکھاؤ اور سلیقے سے پاکستان میں صحافت کی ہے وہ اپنی جگہ پر ایک مثال ہے۔ ہر طبقہ فکر میں ان کے لیے عزت اور احترام پایا جاتا تھا، یقیناً یہ ان کی اعلیٰ درجے کی صحافت کی وجہ سے ہی تھا۔ یہ جنوری 2010 کی بات ہے کہ ریڈیو پاکستان لاہور کے سٹوڈیوز میں انھیں ایک قومی نشریاتی رابطے کے پروگرام کے لیے مدعو کیا۔ عنوان تھا ”دہشت گردی کے اسباب و محرکات“

دیگر شرکاء میں نام ور مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی اور طویل عرصہ مختلف حساس نوعیت کے عہدوں پر خدمات سر انجام دینے والے بریگیڈیئر (ر) اسلم گھمن بھی تھے۔

پروگرام کا میزبان اور پروڈیوسر بذات خود ہی تھا۔ دوران ریکارڈنگ ”نوائے وقت“ میں روز چھپنے والے نعرے ”افغان باقی کہسار باقی“ کا تذکرہ ہوا تو اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں بات کرتے انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

ریکارڈنگ کے بعد چائے پانی سے فارغ ہوئے تو ان کی گاڑی تک چھوڑنے جا رہا تھا، دوران گفت گو میں نے کہا کہ ”نوائے وقت اور ایک مخصوص مذہبی جماعت کی جذباتیت نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے“

اور یہ بات میں اپنی کتاب میں بھی لکھوں گا۔
عارف نظامی کہنے لگے آپ میرا انٹرویو کریں تاکہ میں آپ کو بتاؤں کہ کیسے اس اخبار کی پالیسی بدلی گئی۔

اپنی کتاب ”میڈیا منڈی“ کے حوالے سے عارف نظامی کے انٹرویو کی کیا افادیت ہے؟ سوچ بچار اور گاہے بگاہے رابطوں کے بعد آخر کار ان کا انٹرویو ریکارڈ کرنے گیا تو جاتے ہی عارف صاحب کہنے لگے ”مجید صاحب کا انٹرویو کیا ہے آپ نے“

”نہ ہی کیا ہے اور نہ اس کی ضرورت سمجھتا ہوں“
میں نے جواب دیا۔

عارف صاحب سے گفت گو 4 جنوری 2011 کو ریکارڈ کی۔ انھوں نے اتنی تہلکہ خیز باتیں کیں کہ عارف صاحب کے انٹرویو کے بعد مجید نظامی صاحب کا انٹرویو کرنا لازم ہو گیا۔ عارف نظامی صاحب کا کہنا تھا کہ ”میسن روڈ مافیا اپنی بیٹی (رمیزہ نظامی) کے ذریعے ادارے (نوائے وقت گروپ) پر قابض ہونا چاہتا تھا“

دراصل مجید نظامی کی اپنی کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی۔ رمیزہ جو کہ بیگم مجید نظامی کی بھانجی یا بھتیجی ہیں ان کو مجید نظامی نے اپنا لیا اور بیٹی کے طور پر پالا پوسا۔

مجید نظامی صاحب کا عارف نظامی صاحب کے حوالے سے کہنا تھا کہ ”یہ میری بیٹی کو اپنے ساتھ قبول کرنے کو تیار نہیں تھے حالاں کہ میرے ذہن میں تھا عارف کے بیٹے بھی ہیں اور بھانجا بھی تو گھر کی بات گھر تک رہ جائے“

جب کہ عارف نظامی کا کہنا تھا کہ ”ان کی لے پالک بیٹی کہاں کی نظامی ہے، وہ تو جعلی نظامی ہے“

بہرحال عام لوگوں اور صحافتی حلقوں کے لیے یہ اختلافات کسی خوشی کا سامان نہیں تھے، بل کہ ایک بڑے صحافتی ادارے کی شکست و ریخت کو عوام اور صحافیوں نے بوجھل دل سے قبول کیا۔

نوائے وقت کو حمید نظامی، عبدالستار نیازی اور ڈاکٹر شبر حسن نے مل کر پندرہ روزہ کے طور پر شروع کیا جب کہ نوائے وقت کا ڈیکلریشن معروف سوشلسٹ رہنما سی آر اسلم کے نام پر تھا اور پہلے ایڈیٹر شبر حسن تھے۔

”حمید نظامی مرحوم کے مطابق نوائے وقت 23 مارچ 1940 کے تاریخی دن، جب آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور منظور کی گئی تھی، ایک ہفتہ وار رسالے کے طور پر نکالا گیا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے پہلے شمارے میں ظہور عالم شہید اور عنایت اللہ سوہدروی کے مطابق، خبروں اور ادارتی کالموں میں لیگ کے اجلاس کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا تھا“ (صحافت پابند سلاسل، از ضمیر نیازی، صفحہ 86۔ 85 )

عارف نظامی صاحب سے نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ

” جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا عین جہاد ہے“ یہ نوائے وقت کی پیشانی پر لکھا ہوا ہے۔ جہاں تک حمید نظامی مرحوم کا تعلق ہے انھوں نے اس کو سچ کر دکھایا اور ایک طرح سے اس گھٹن میں انھوں نے ایوب خان کے مارشل لاء کے دوران اپنی جان بھی دے دی۔ بعد میں الف لیلیٰ کے ان قصوں میں کہیں مبالغہ آمیزی اور کہیں سفید جھوٹ ہے۔ آج کا نوائے وقت جہالت پرموٹ کر رہا ہے ”

عارف نظامی صاحب نے بڑی حد تک اپنی دنیا آپ پیدا کی بطور رپورٹر اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا اور ایڈیٹر تک کا سفر کیا۔ کئی دہائیوں تک وہ ”دی نیشن“ کے ایڈیٹر رہے اور اس کو ملک کا معتبر انگریزی روزنامہ بنایا۔

علی اصغر عباس صاحب کو ”قومی ڈائجسٹ“ کے لیے دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں عارف نظامی صاحب نے بتایا کہ چونکہ حمید نظامی اور میر خلیل الرحمٰن دونوں کے سسرال وزیر آباد میں تھے لہذا نظامی اور میر فیملی کا آپسی میل ملاپ بھی رہا۔

اتفاق کی بات ہے کہ مجھے دیے گئے انٹرویو میں عارف نظامی صاحب نے کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کیا کہ ”شکیل الرحمن صاحب نے مجھے اپنا اخبار آفر کیا اور کہا کہ“ آپ سمجھیں ”جنگ“ آپ کا اپنا اخبار ہے، جو حکم کریں گے میں حاضر ہوں ”

عارف نظامی کا مزید کہنا تھا کہ ”انھوں (میر شکیل الرحمن) نے مجھے موقع دیا اور میں جنگ میں کالم لکھ کر پروفیشنلی زندہ رہا، وہ اپنے چینل (جیو) پر بھی مجھے بلاتے رہے“

آخر میں عارف نظامی صاحب کی وضع داری کی ایک مثال دیتا چلوں کہ مضمون کی ابتداء میں جس ریڈیو پروگرام کا تذکرہ کیا ہے، اس کا چیک بنوا کر ارسال کیا تو غالباً وہ 1200 سو روپے کا تھا۔ چیک کے ساتھ شعبہ اکاؤنٹ کی رسید تھی جس پر ریڈیو کے نمبر درج ہوتے ہیں۔ عارف نظامی صاحب نے چیک وصول کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان لاہور کے اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں فون کیا اور چیک ملنے پر حیرانی، خوشی اور شکریے کا اظہار کیا۔

گو کہ عارف نظامی صاحب نے 72 برس کی عمر میں انتقال کیا ہے مگر ان کے جانے کا افسوس جوان موت جیسا ہے۔ پاکستانی صحافت کا ایک جوان داغ مفارقت دے گیا ہے جس کے ساتھ ہی صحافت کا ایک روشن باب اپنے اختتام کو پہنچا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments