طالبان ہمارے دوست نہیں ہیں


اس دوران سوویت روس نے ایک معاہدے کی آڑ لے کر افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کردیں افغانوں نے ان کا استقبال بھرپور مزاحمت سے کیا۔ یہی مجاہدین بعد میں نسلی، علاقائی اور لسانی بنیادوں پر کئی گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ روس کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان بدترین خانہ جنگی کے زمانے سے گزرا۔ یہ خانہ جنگی اس وقت ختم ہونا شروع ہو گئی جب ملا عمر کی سربراہی میں افغانستان کے غبار آلود افق پر طالبان نمودار ہوئے۔ کہتے ہیں کہ یہ طالبان زیادہ تر مدرسوں میں زیرتعلیم طلبا پر مشتمل تھے۔ 2001 تک طالبان شمالی اتحاد کو شکست دے کر تقریباً سارے افغانستان پر قبضہ کر چکے تھے۔ انھیں پاکستان کی حمایت حاصل تھی۔

2001 میں جب 9 ستمبر کا واقعہ پیش آیا تو افغانستان میں اس وقت طالبان کی ہی حکومت قائم تھی۔ اس وقت تک سعودی عرب، قطر اور پاکستان تین ممالک ایسے تھے جنہوں نے طالبان کی حکومت باضابطہ طور پر قبول کی تھی اور افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے تھے۔

9 ستمبر کے بعد امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان میں فوجیں اتاریں۔ یہ اہل افغانستان کے لیے ایک نئی اور طویل جنگ کا آغاز تھا۔ افغانستان میں امریکہ نے اپنے حامیوں اور شمالی اتحاد کی مدد سے امریکہ نواز حکومت قائم کردی۔ طالبان مشکلات کا شکار رہے۔ اس دوران پاکستان امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ پاکستان نے ابتدائی طور پر طالبان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو اسلام آباد سے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر دیا۔

ملا ضعیف نے کچھ عرصہ امریکہ کے بدنام زمانہ قید خانے گوانتاناموبے میں گزارے۔ بعد ازاں ان کا نام اقوام متحدہ کے نامزد دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کر دیا گیا تھا۔ اس طرح کئی اور سرکردہ طالبان پاکستان ہی سے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیے گئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا جس کا اعتراف امریکہ بھی کر چکا ہے۔

تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان پر ہماری موجودہ حکومت کا طرزعمل ہمارے ماضی کے اقدامات سے بہت ہی مختلف ہے۔ کیا ہم 9 ستمبر کے بعد پیش آنے والے واقعات اور دہشتگردی کے خلاف لڑنے کے اپنے وعدے کو بھول چکے ہیں یا جانی و مالی نقصان سے گبھرا کر پیچھے ہٹ گئے ہیں؟ کیا پاکستان کو کسی ایسے مسلح جتھے کی حمایت کرنی چاہیے جو اپنی ہی حکومت کے خلاف لڑ رہا ہو؟ کیا اچھے اور برے طالبان نظریاتی لحاظ سے ایک نہیں؟

پاکستان میں موجود چند طاقتور عناصر طالبان کے ساتھ ذاتی دوستی کی بنا پر ان کی حمایت میں سرگرداں رہتے ہیں جس سے پاکستان کا بیانیہ اور عالمی تاثر خراب ہوتا ہے۔ پاکستان میں موجود طالبان پسندوں کو اب اس غلط فہمی سے نکل جانا چاہیے کہ افغانستان میں طالبان واحد بڑی قوت ہیں۔ ان کی برتری یا مقبولیت کسی جمہوری طریقے سے ثابت نہیں۔ آج کے افغانستان میں ملا عمر کو ایک مجرم اور احمد شاہ مسعود کو قومی ہیرو کا رتبہ حاصل ہے۔ بندوق کے زور پر اقتدار حاصل کرنے والوں کو بندوق کے زور پر نکالا بھی جاسکتا ہے۔ افغانستان میں اب اسی حکومت کو بین الاقوامی تائید حاصل ہوگی جو جمہوری طور پر منتخب ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments