طیب اردوان! تم اپنی محبت واپس لو


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ طیب اردوان پاکستانی قوم کے ذہنوں میں چھٹے خلیفۂ راشد کا درجہ پا چکے تھے۔ ہم سب کو ان کی شخصیت میں صلاح الدین ایوبی کا پرتو نظر آتا تھا۔ ان کے بارے میں ہمارے تصورات اس دیومالائی شہزادے کے سے تھے جو ایک دن طلسمی اڑن کھٹولے پر آئے گا اور امت مسلمہ کی شہزائی کوہ قاف کو ظالم دیو کے پنجے سے چھڑا کر اپنے ساتھ عالمی قیادت و امامت کی سیج پر لے جائے گا۔ اقصی کا محافظ، شام کا رکھوالا، محمد فاتح کا جانشین اور مسلمانوں کے دلوں کا بے تاج خلیفہ (نہ کہ بادشاہ) اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔

طیب اردوان کو یہ مقبولیت کمانے میں بہت وقت لگا۔ ترکی کی سیاست میں ان کی غیر معمولی پیش رفت، ترکی کو عالمی قوتوں کی صف میں لانے کی جد و جہد، ایک سیکولر ملک میں اسلامی ذہنیت کے فروغ کی کاوشیں، پھر آمریت کے ہولناک طوفان کا مردانہ وار مقابلہ، ہر عالمی فورم پر فلسطین کے حق میں جوشیلی تقریریں، شامی مہاجرین کی پناہ گزینی کا مثالی انتظام، مسلم دنیا کے سیاسی اور جغرافیائی مسائل میں دلچسپی، عثمانی خلافت کے احیاء کے لیے ایڑی چوٹی کا زور، (ہم سب 2023 ء کے آنے کا اتنے فرط اشتیاق سے انتظار کر رہے تھے جیسے سوہنی چناب کنارے کھڑے ہو کر ماہیوال کی راہ دیکھا کرتی تھی۔)

ارطغرل جیسے سپر ہٹ بلکہ ایکسٹرا سپر ہٹ سیزن کا آغاز (جس نے عثمانی خلافت کی عظمت کا ان مٹ نقش عرب، عجم، یورپ، ایشیا اور امریکہ سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے دلوں پر نقش کر دیا اور میڈیا کی لا دینی مغربی یلغار کے آگے قرون وسطی کے مسلم تہذیبی تشخص کا اہرام مصر کھڑا کر دیا) ، پاکستان سے قلبی، تاریخی اور دینی محبت و یگانگت کے مسلسل اظہار اور پے در پے اسلام آباد کے دورے۔ اتنے سارے پاپڑ بیلنے کے بعد تب کہیں جا کر پاکستانیوں کے دل رام ہوئے اور انہیں اردوان کی قامت میں اپنے ”خوابوں کے شہزادے“ کا عکس نظر آیا اور ہم یوں دل و جان سے اردوان کی اداؤں پر فریفتہ ہوئے کہ اس کے بغیر اور کوئی نگاہوں کو جچتا ہی نہ تھا۔

بس وہ جس سے جوڑے گا تو ہم بھی اس سے جوڑیں گے، وہ جس سے توڑے گا ہماری بھی اس سے کٹی، اس نے عربوں کو آنکھیں دکھائیں اور حرمین کے ”خدام شاہی“ کو گھورنا شروع کیا تو ہم بھی بال جبریل کھول کر پکار اٹھے :

حرم کے پاس کوئی اعجمی ہے زمزمہ سنج
کہ تار تار ہوئے جامہ ہائے احرامی

اس نے ایران کی طرف دست محبت دراز کیا تو ہمیں بھی سارے مسلکی، کلامی اور سیاسی اختلاف بھول گئے اور ”شاہنامۂ فردوسی“ گنگنانے لگے۔ وہ ہمارے دل و دماغ پر یوں غالب آیا کہ ایک دن ہمارے وزیراعظم کو بھی کہنا پڑا: عزت مآب صدر جمہوریہ ترکی اگر پاکستان میں الیکشن لڑیں تو بلامقابلہ جیت جائیں گے۔

یہ درست ہے کہ ہم ایک سیماب صفت سی، جذباتی قسم کی قوم ہیں لیکن اردوان کے ساتھ ہماری دل بستگی محض سطحی جذبات کی عطا نہ تھی۔ اس کے پس پردہ اتنے ڈھیر سارے عوامل اکٹھے ہو گئے تھے۔ اس کے بعد بھی اگر ہم ”سلطان“ کو دل نہ دیتے تو جان جاتی۔

کچھ لوگ اسرائیل کے ساتھ اس کے یارانوں اور افغانستان میں سرگرم نیٹو اتحاد کا حصہ بننے پر جزبز بھی ہوتے تھے مگر ہمارا جواب یہی ہوتا کہ یار! تھوڑا بہت تو چلتا ہے۔ اب اتنے پیسوں میں تو اتنا ہی ملے گا۔ بالکل خالص والا تو کسی مارکیٹ میں ہے ہی نہیں۔ کچھ گزارا کرو۔

اب ذرا طالبان کی طرف آ جائیے۔ اگرچہ پاکستان میں اس کے قیام کے دن سے ہی جہادی ذہنیت کے حامل لوگوں کی اکثریت رہی ہے۔ لیکن جہاد کا یہ مفہوم برصغیر کے مسلم فاتحین، 1857 ء کی جنگ آزادی کے مجاہدین اور 65 ء اور 71 ء کے سپاہیوں کے ساتھ وابستہ تھا۔ ضیاء دور میں روس کے خلاف نبرد آزما افغان مجاہدین بھی اس میں شامل ہو گئے۔ لیکن طالبان کا ظہور روسی انخلا کے بعد ہوا جب افغانستان ہماری دلچسپیوں کا مرکز نہیں رہا تھا۔

پھر تحریک طالبان کے قیام کے کچھ ہی سال بعد تسلسل کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہوئے جن کے نتیجے میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں طالبان کے متعلق منفی ذہنیت فروغ پانے لگی۔ نائین الیون کے بعد تو عالمی استعمار کی نظروں میں مبغوض ترین لوگ ہی طالبان تھے چناں چہ ان کے خلاف صرف عسکری کارروائیوں کا عمل شروع نہیں ہوا بلکہ ایک پوری فکری اور نظریاتی یلغار کا بھی آغاز ہوا۔ صرف ان کی حکومت ہی کا سقوط نہیں ہوا بلکہ لوگوں دلوں سے ان کے لیے نرم گوشوں کو اکھیڑنے کی پوری سعی گئی۔

2001 ء کے بعد کے پندرہ سالوں کی عالمی میڈیائی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات حلفا کہی جا سکتی ہے کہ اس دور میں عالمی وسائل ابلاغ نے اپنی سب سے زیادہ توانائی ان کو بدنام کرنے میں صرف کی۔ محسن کے لفظوں میں :

کیا کیا نہ اسے کہا گیا تھا
اس نے تو لبوں کو سی لیا تھا

آپ اس بات سے اندازہ لگائیے کہ اتحادی فوجوں کے حملے کے بالکل ابتدائی دنوں میں جب یوان ریڈلی کی کتاب ”طالبان کی قید میں“ سامنے آئی تو خود مصنفہ کے اپنے بیان کے مطابق تھوڑے وقت کے بعد سارے نسخے مارکیٹ سے فوراً اٹھوا لیے گئے۔ دوسری اشاعت کے لیے میں جس پبلشر کے پاس جاتی وہ آنکھیں پھیر لیتا، پی ڈی ایف نسخے تک نیٹ پر اپلوڈ نہیں ہو سکتے تھے۔ حالاں کہ ایسا بھی نہ تھا کہ اس کتاب میں طالبان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے گئے ہوں بس سادہ سی روداد تھی جس سے مجموعی تاثر یہ ملتا تھا کہ طالبان خواتین اور قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک برتتے ہیں۔ مگر اس وقت ان کے حق میں اتنی ساری حق گوئی بھی گردن زدنی جرم شمار کی جاتی تھی۔

پاکستان میں ظل سبحانی جلالت مآب پرویز مشرف صاحب کی حکومت تھی۔ وہ تو ویسے ہی مغربی استعمار کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہا کرتے تھے۔ چناں چہ اس کار خیر میں خوب بڑھ چڑھ کر شریک ہوئے اور دامے، درمے، سخنے ہر حوالے سے طالبان کے خلاف عالمی جہاد میں حصہ ڈالا۔ حتی کہ طالبان حکومت کے سفیر ملا عبد السلام ضعیف کو برہنہ کر کے امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ (سچ تو یہ ہے کہ یہ واقعہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے جسے پڑھ کر ہر صاحب شعور کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ) بعد ازاں زرداری اور نواز شریف دور میں بھی مشرف چھوڑا ہوا یہ صدقۂ جاریہ ہمارے ساتھ ساتھ سفر کرتا رہا۔

پاکستان میں طالبان کے خلاف مہم بازی کا نقطۂ عروج وہ تھا جب نام نہاد ٹی ٹی پی کے خلاف قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کا آغاز ہوا اور پورے ملک کے در و دیوار خود کش بم دھماکوں سے لرز اٹھے۔ افغان طالبان گرچہ متعدد مرتبہ یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ پاکستان میں کسی قسم کی مسلح کارروائی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملا عمر نے صراحتا اپنی جماعت کو تاکید کی تھی کہ برادر اسلامی ملک پاکستان کے تحفظ کو اپنی بقا سے بھی مقدم سمجھو مگر پاکستان کے مغرب نواز نقار خانے میں طوطی کی یہ آواز کون سنتا؟ چناں چہ خوب بڑھ چڑھ طالبان کے خلاف میڈیائی مہم چلائی گئی۔ اور قبائلی علاقہ جات کی محرومیوں اور اپنی نا اہلیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اس سب کو کابل کو ساتھ منسوب کیا گیا۔

مجھے اپنے بچپن میں پی ٹی وی پر چلنے وہ ڈرامہ یاد ہے جس میں افغان طالبان کی حکومت کو ایک مفاد پرست اور منافق گروہ کی حکومت کی شکل میں دکھایا گیا تھا جو افغانستان کے قیمتی نوادرات اور مجسمے ”بت شکنی“ کے نام پر مغربی تاجروں کے ہاتھ فروخت کر دیتے اور لوگوں کے گھروں سے اپنی من پسند لڑکیوں کو اٹھا لیتے یہاں تک کہ ”عالمی مسیحا“ نے آ کر افغانستان کو اس ظلم سے نجات دلائی۔

الغرض ظاہری اسباب کی حد تک طالبان کے متعلق ہر قسم کے مثبت تاثر کو ہمارے دل و دماغ سے زائل کرنے کی پوری کوشش کی گئی جب کہ اردوان نے خون پسینہ ایک کر کے اپنی چاہت کا نقش ہمارے دل پہ بٹھایا۔ اب آپ خود سوچیے کہ کیا طالبان اور اردوان کا کوئی جوڑ بنتا ہے؟ اس کے ساتھ اس کا سات سو سالہ پر شکوہ ماضی ہے، جب کہ ان کا 90 ء کی دہائی سے قبل نام و نشان بھی نہ تھا۔ وہ اپنے ساتھ سپرہٹ سیزن، ٹی آر ٹی اور الجزیرہ جیسے عالمی میڈیا کی حامی مہم کو لے کر چل رہا ہے جب کہ انہیں افغان ریڈیو بھی سپورٹ کرنے کو تیار نہیں۔ اس کے پاس آیا صوفیا کا منبر ہے جب کہ یہ کابل کہ جامع مسجد میں جمعہ پڑھنے سے بی عاجز ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ زیر بحث آنے والا موضوع ہے جب کہ ان کا نام اگر کہیں میں لکھ دیا جائے تو فوراً پوسٹ ہی بلاک ہو جاتی ہے۔

مگر اس سب کے باوجود جب ان دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو ہماری تمام تر ہمدردیاں ان ”دہشت گردوں، انتہا پسندوں“ ، علم و دانش سے نا بلد پہاڑی چرواہوں اور جدید مفاہیم حیات کے جانی دشمنوں کے ساتھ کیوں ہو گئی ہیں؟ اتنا کچھ ہو جانے کے کے باوجود یہ اچانک ہمارے اندر ان کی الفت کے ٹھکانے کہاں سے نکل آئے؟

صرف ایک ہفتے کے اندر اندر حالات اتنا بڑا پلٹا کیسے کھا گئے کہ ہم اردوان کو یک قلم ”خلافت“ کے عہدے سے معزول کرنے پہ تل گئے ہیں۔ ہم نے تو بالکل واسوخت ہی پڑھ دی ہے کہ

جا ویریا، توں لے کے نہ دتا میں نوں دوپٹہ ویریا

کل کلاں کو حالات کیا پلٹا کھاتے ہیں اور ترکی اور طالبان کے تنازعے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے البتہ اس وقت تک جو صورت حال پیدا ہو چکی ہے اس میں ہم سب کے لیے غور و فکر اور عبرت کا بہت سا سامان ہے۔ ”بہت نازک صورت حال ہے۔“ اس کو سمجھنا پڑے گا۔

”عصائے موسوی“ کے کمالات کا کوئی مقابلہ نہیں۔ جو اس کے بل پر اپنا وجود، اپنا حق اور اپنی حقانیت ثابت کرتے ہیں پھر کوئی لاکھ ان کا منکر ہونا چاہے، ان کے ہزار عیب گنوائے، کتنے ہی بڑے قد کا آدمی ان پہ تبرے کرے مگر دن چڑھے سورج کی طرح وہ اپنا آپ منوا کر ہی دم لیتے ہیں۔ کہنے والے نے کہا تھا:

لاکھ حکیم سر سربجیب
ایک کلیم سر سر بکف


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments