کشمیر کے انتخابات: نتائج فیصلہ کن ہوں گے ؟


25 جولائی 2021 کے روز آزاد جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہوں گے 45 نشستوں کے انتخابی نتائج حتمی طور پر 27 جولائی تک آئیں گے البتہ غیر سرکاری نتائج سے 25 جولائی کی رات تک آگاہی ہو جائے گی۔ آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج بہت اہم ہیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کی داخلی صورتحال اور حکومت کی خارجہ پالیسی کے خد و خال نمایاں کرنے میں اس کے اثرات بہت گہرے ہوں گے ۔ یہ نقطہ نظر بظاہر انتخابی نتائج کے داخلی دائرے تک محدود ہے جبکہ انتخابی عمل کی شفافیت اور عدم شفافیت کے اثرات قطعی مختلف سطح کے حامل ہوں گے ۔ عدم شفافیت کے امکان کو رد کرنا آسان نہیں، میں اس پہلو کو مقبوضہ کشمیر میں 370 کی آئینی دفعہ کے خاتمے کے بعد ، پاکستان کی مرکزی مقتدرہ کے سرد مہر غیر موثر رد عمل کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں، جبکہ ملکی داخلی سیاست پر اس سے پاکستان کے سیاسی تناظر کی صورت گری پہلے سے زیادہ واضح ہو جائے گی۔

ملکی سیاسی صورتحال کا گمبھیر پہلو یہ ہے کہ یہاں سیاسی میدان صرف سیاسی کھلاڑیوں کی مخاصمت تک محدود نہیں بلکہ اس میں غیر سیاسی عناصر اور حقیقی عوامی سیاسی قوتوں کے درمیان رسہ، کشی تناؤ، تصادم زیادہ تشویشناک سطح تک پہنچ چکا ہے جس سے سیاسی ثقافت مکدر ہو گئی ہے۔ خالصتاً سیاسی حریفوں کے درمیان سیاسی کشمکش موجود ہوتو اعداد و شمار رائے عامہ کے جائزوں، سیاسی جماعتوں کے، قائدین و امیدواروں کے کردار نیز حکومتی جماعت کی کارکردگی مد نظر رکھ کر اندازہ لگانا آسان ہوتا ہے کہ انتخابی نتائج کیا ہوں گے ؟

اس کے برعکس جب سیاسی میدان میں فیصلہ کن کردار طاقتور ریاستی محکمے اپنا لیں تو آخری لمحے تک یقین سے کچھ کہنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، الحمدللہ اب ملک بھر میں عوامی، سیاسی و تجزیاتی شعور و آگہی ”تیسری موثر“ مگر ”نادیدہ قوت“ کے متعلق بہت واضح اور نمایاں ہو چکی ہے کیونکہ بیسیوں واقعات نے پس پردہ کرداروں کو اب بر سر عام کر دیا ہے۔ چنانچہ اب ملکی سیاسی منظر نامہ سیاسی جماعتوں کے سیاسی داؤ پیچوں کی دسترس سے بہت باہر نکل کر اس مقام پر آن پہنچا ہے۔

جہاں ریاستی طاقت مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ مذکورہ صورتحال میں سیاسی ثقافت غیر آئینی آلودگی کی وجہ سے ہموار اور سادہ عمل نہیں رہی بلکہ ماحولیاتی آلودگی یعنی سیاسی کٹافت میں بڑھتا ہوا اضافہ تناؤ کا سبب بن چکا ہے۔ یہ سوال بہت سنجیدہ ہو گیا ہے کہ آیا 25 جولائی 2021 ا 25 جولائی 2018 کا تسلسل تو نہیں ہوگا؟

انتخابی سیاسی جلسوں میں تمام جماعتوں نے سیاسی اخلاقیات کی حدود پائمال کی ہیں غیر مہذب پن ناشائستہ اظہار بیان اور سیاسی مقاصد منشور کی تصریح کے برعکس مخالفین کی شخصی کردار کشی کی مہم میں مرکزی حکومت کے وزراء نے بڑے اہتمام کے سابقہ حصہ لیا، خاص طور پر وفاقی وزیر جناب علی امین گنڈا پور نے اخلاقیات کے ساتھ قوانین کو بھی اپنے جوتے کی نوک پر رکھا، عام طور پر حکمران جماعت انتخابات میں قانون و سیاسی اخلاق کی زیادہ پاسداری کرتی ہے تاکہ اگر اسے نتائج بدلنے کی ضرورت پڑ جائے تو عام افراد اس واردات کے الزام کو بہ آسانی رد کرسکیں جناب علی امین کو آزاد کشمیر الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم میں شرکت سے روکا تو وزیراعظم پاکستان خود انہیں اپنے ہمراہ انتخابی جلسے میں لے گئے یہ اقدام انتخابی مہم موثر بنانے سے زیادہ آزاد کشمیر کے الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنانا اور اسے بے وقعت و بے اختیار ثابت کرنے کی کامیاب سعی تھی، بعد ازاں جناب علی امین نے اس حکم کی پھر خلاف ورزی کی تو الیکشن کمیشن کے مقامی حکام نے حکمران پی ٹی آئی کے چار انتخابی امیدواروں کو انتخابی عمل سے خارج کرنے کے لئے اقدامات کا مطالبہ یا سفارش کردی ہے اگر اس سفارش پر من و عن عمل ہوا تو پی ٹی آئی کے لئے بہت بڑا انتخابی دھچکہ ہوگا اور شاید یہ پیغام بھی کہ فارن فنڈنگ کیس کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چھ سال تک زیر التواء رکھنے کے اسباب و حالات بھی بدل سکتے ہیں، لیکن کیا فی الواقع آزاد کشمیر الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے مذکورہ افراد کو الیکشن سے باہر کرنے کا فیصلہ کر پائے گا؟ مجھے ایسا ہوتا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ للہ کہ طاقت کے مرکز کے ارادے میں تبدیلی نہ آ جائے جون میں رونما ہونے کچھ واقعات اس کا اشارہ بلیغ تو ہیں۔

وزیراعظم جناب عمران خان جب امریکہ تشریف لے گئے تھے تو وہاں انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل پر سابق صدر ٹرمپ کی ثالثی تسلیم کر لی تھی کہا گیا تھا کہ ایسا سہ فریقی سطح پر ہوا ہے، واشنگٹن نئی دہلی اور اسلام آباد مسئلہ کشمیر کے پرامن سفارتی حل پر رضا مند ہو گئے ہیں۔

جناب عمران خان نے تو نریندر مودی کی انتخابی کامیابی کی امید و دعا کرتے ہوئے اسے مسئلہ کشمیر کے حل کی کلید قرار دیا تھا۔ امریکی دورے سے واپسی پر جناب عمران خان نے اپنے دورے کی کامیابی کا بھرپور دعویٰ کرتے ہوئے اسے ورلڈ کپ جیتنے کے ثانی عمل کے مماثل کہا تھا۔ یاد رہے کہ جناب وزیر اعظم نے واشنگٹن کے دورے میں کسی بھی سطح پر امریکی حکام یا صدر سے باضابطہ دوطرفہ مذاکرات نہیں کیے تھے صدر ٹرمپ سے البتہ ایک مختصر سی ملاقات ہوئی جس کا فوٹو سیشن بھی ہوا تھا۔

عمران خان صاحب نے کشمیر کے دیرینہ مسئلہ کے جلد حل کی نوید سنا دی تھی۔ ان کے دورے سے چند روز قبل پاکستان آرمی کے چیف اف آرمی سٹاف واشنگٹن پہنچے تھے انہوں نے پینٹاگون کا خصوصی دورہ کیا اور امریکی عسکری قیادت سے تفصیلی بات چیت کی تھی جناب جنرل قمر باجوہ کا دورے کے موقع پر جس شاندار اور اعلیٰ سطح پر استقبال کیا گیا تھا وہ امریکی سفارتی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ تھا۔ اس دورے کے چند ماہ بعد ہی بھارتی پردان منتری نریندر مودی نے بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو اپنی پارلیمانی عددی اکثریت کے بل بوتے پر منسوخ کر دیا اور یوں مقبوضہ کشمیر جو اب تک آئینی طور پر بھارتی یونیب کا باضابطہ جغرافیائی حصہ نہیں تھا۔

اسے بھارت میں ضم کر لیا یہ نیشنل کانفرنس اور بھارت کے درمیان نام نہاد معاہدہ ٍ الحاق کی اہم شق بلکہ شرط کے سراسر منافی تھا جو یک طرفہ طور پر ختم ہو گئی بلاشبہ بھارتی آئین کی دفعہ 1 کی صراحت فہرست بند اول کی ذیلی دفعہ 15 تاحال ترمیم نہیں کی گئی جن میں بھارتی یونین کے مشمولات کی تصریح کی گئی ہے یا جنہیں یونین کی جغرافیائی حدود سے استثنا حاصل ہے۔

مودی سرکار کی آئینی ترمیم نے کشمیر کے سوال کی نوعیت بدل دی ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ ثالث یعنی اس وقت کے امریکی صدر سمیت طاقت کے کسی بھی اہم عالمی مرکز سے بھارتی اقدام کی مخالفت نہیں کی گئی حد تو یہ ہے کہ اس نازک مرحلے پر اسلام آباد نے بھی رسمی مخالفت سے آگے بڑھ کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا تھا جو نئی دہلی اور اہم عالمی مراکز میں تشویش پیدا کرتا، میرا قیاس ہے کہ بھارتی اقدام امریکی دورے میں طے پانے والا سہ فریقی اتفاق کا نتیجہ تھا اور اس کے عقب میں پاکستان کی جانب سے سی پیک کے منصوبے کے چینی سرحد سے متصل علاقے کو غیر متنازعہ بنانے کی ضرورت کار فرما تھی، بعد ازاں مرکزی مقتدرہ نے گلگت بلتستان کے انتخابات میں اس منطقے کو پاکستانی وفاق میں صوبے کا درجہ دینے کا ارادہ ظاہر کیا تھا عملی طور پر گو کہ جی بی تاحال وفاق پاکستان کی وفاقی/ صوبائی اکائی نہیں بن سکا تاہم خوشگوار نکتہ یہ ہے کہ 370 کے خاتمے کے بعد پاکستان کے نرم خو روپے کے بدلے میں نئی دہلی نے اب متنازعہ علاقے میں سی پیک بنانے پر اپنی سابقہ تنقید بہت کم کردی ہے یہ الگ موضوع ہے کہ موجودہ حکومت نے کس لئے اور کن بنیادوں پر سی پیک کو ”پیک“ کر رکھا تھا، اس کے وزراء کھلے عام بر سر اقتدار آتے ہی سی پیک کو محدود کرنے کے بیانات دیے لگے تھے اب صورتحال یہ ہے کہ جی بی میں تو پی ٹی آئی حکمران ہے جو جے پی کی انتظامی حیثیت بدلنے کی مدعی ہے مگر اس سلسلہ میں ملک گیر سیاسی اتفاق رائے کے علاوہ کم از کم آزاد جموں کشمیر کی حمایت اشد ضروری ہے مسلم لیگ جس کے انتخابی جلسے زیادہ جاندار تھے عوامی مقبولیت میں آگے رہی ہے اور جموں کشمیر کو صوبائی درجہ دینے کی مخالف بھی ہے اسے انتخابات میں دیوار سے لگ کر کیا وہ مقصد حاصل ہو سکتا ہے جس کا منصوبہ واشنگٹن سے شروع ہو کر نئی دہلی تک پہنچا ہے۔

؟ اگر کشمیر میں نون لیگ برسراقتدار آ جائے تو مذکورہ منصوبہ التوا کا شکار ہوگا جبکہ اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے آزاد کشمیر میں ایسی حکومت و اسمبلی کی ضرورت ہے جو وہاں کی اسمبلی سے صوبائی درجہ دیے جانے کی قرار داد منظور کرائے چنانچہ یہ ہدف جبھی پورا ہو سکتا ہے اگر پی ٹی آئی آزاد کشمیر میں حکومت بنائے جبکہ انتخابی جلسوں کے مناظر میں اس کے امکانات دکھائی نہیں دے رہے کہ پی ٹی آئی اکثریت حاصل کرسکے مخلوط حکومت بھی شاید مطلوبہ اغراض کی ضمانت نہیں دے سکتی تو کیا حالات کو وقت کے بہاؤ پر چھوڑ دیا جائے گا یا معاملات سنبھالنے کے لئے انتخابی عمل و واقعات میں مداخلت کر کے ان کا رخ اور بہاؤ از خود متعین کرنے کی کوشش کی جائے گی؟ ان امکانات میں مجھے دوسرے پر عمل کا زیادہ خدشہ نظر آ رہا ہے۔ کیا چین بھی سی پیک کے علاقے کو غیر متنازعہ بنانے کے لئے یہی کچھ نہیں چاہے گا؟ ہو سکتا ہے وہ بھی

جی بی و آزاد کشمیر کی اسمبلیوں سے من پسند قرار دادیں منظور کرانے کی خواہش رکھتا ہو؟ داسو ڈیم پر ہونے والی حالیہ دہشت گردی کی واردات پر اس حوالے سے بھی توجہ دینی چاہیے۔ چین کشمیر کو گرم لنحاذ رکھنے کا بھی متمنی ہو گا تاکہ امریکی اتحادی و متحارب معاشی ہمسائے بھارت پر دفاعی اخراجات کا دباؤ برقرار رہے؟ یوں لگتا ہے کہ چین نے سطور بالا میں ابھرتے امکان کی آگہی اور تائید کی بنا پر ہی لداخ میں بھارت کے محاذ پر گزشتہ برس درجہ حرارت بڑھانے کے اقدامات کیے ہوں؟

آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج شفاف عمل کے ذریعے پی ٹی آئی کے حق میں نہ آئے تو اس کی سیاسی ساکھ متاثر ہو گئی اور اگر اس کی ساکھ اور روبہ عمل ”منصوبے“ کو بچانے کے لئے نتائج بدل نے کی ضرورت پڑی تو بھی کشمیر سمیت پاکستان میں سیاسی جو ردعمل سامنے آئے گا۔ اس کا بوجھ بھی ناقابل برداشت ہو سکتا ہے یہ بنیادی مخمصہ ہے جس سے نبرد آزما ہونا مشکل تر اور خدشات سے بھر پور عمل ہو سکتا لہذا یاد رکھنا ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش نے ہی وہاں بھارت کے خلاف مزاحمتی و آزادی کی تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔

پاکستان پر اس انتخابات کے اپنے مخصوص اثرات ہوں گے آزاد کشمیر میں غیر شفاف انتخابات سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان میں فوری طور پر اگر انتخابی ڈھول ڈالا گیا تو وہ بھی جانبدارانہ و شفافیت سے عاری ہوگا جو ملک کو مزید گہرے اور شدید سیاسی عدم استحکام کی طرف دھکیل دے گا جبکہ افغانستان میں ابھرتی کشیدگی کے پس منظر میں پاکستان کو درپیش ممکنہ خطرات سے بخیر و خوبی نبرد آزمائی کے لئے ملک میں وسیع البنیاد سیاسی استحکام اور ایک مضبوط تجربہ کار منتخب شدہ جمہوری حکومت کی اشد ضرورت ہے ایسے میں کیا فیصلہ ساز حلقے عدم استحکام پیدا کرنے والے اقدامات سے گریز کریں گے؟ اس سوال کا عملی جواب ہمارے مستقبل کے خد و خال کی وضاحت کرنے گا۔ ##$


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments