جو بائیڈن کی افغان صدر کو امریکہ کی امداد جاری رکھنے کی یقین دہانی


وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور افغان صدر اشرف غنی نے اتفاق کیا کہ طالبان کی حالیہ پر تشدد کارروائیاں ان کے اس دعوے کے خلاف ہیں کہ وہ جنگ کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ (فائل فوٹو)
ویب ڈیسک — افغانستان سے امریکہ کی فوج کا انخلا آخری مراحل میں ہے۔ ایسے وقت میں صدر جو بائیڈن نے صدر اشرف غنی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکہ افغانستان کی سفارتی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد جاری رکھے گا۔

دوسری طرف امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کے پیشِ نظر پناہ گزینوں کی غیر متوقع اور فوری ضروریات سے نمٹنے کے لیے جمعے کو ہنگامی فنڈ سے 10 کروڑ ڈالرز امداد کی منظوری دی ہے۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور افغان صدر اشرف غنی نے اتفاق کیا کہ طالبان کی حالیہ پر تشدد کارروائیاں ان کے اس دعوے کے خلاف ہیں کہ وہ جنگ کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنا چاہتے ہیں۔

امریکی صدر افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ کا رواں سال خاتمہ چاہتے ہیں۔ جو کہ القاعدہ کے امریکہ پر 11 ستمبر 2001 کو کیے جانے حملوں کے بعد شروع ہوئی تھی۔

رواں سال اپریل میں افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد سے ملک میں جاری تشدد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

طالبان نے حملوں میں اضافہ کرنے کے علاوہ متعدد اضلاع اور اہم سرحدی گزر گاہوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ جب کہ انہوں نے متعدد صوبائی دارالحکومتوں کو یا تو گھیر رکھا ہے یا ان کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔

رواں ہفتے ایک سینئر امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ طالبان نے افغانستان کے لگ بھگ نصف ضلعی مراکز کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور انہوں نے اشارتاً کہا کہ افغانستان میں حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ صدر بائیڈن نے اپنے ہم منصب اشرف غنی سے کہا کہ امریکہ افغان مسئلے کے سیاسی اور پائیدار حل کے لیے سفارتی کوششیں جاری رکھے گا۔

امریکہ ان ہزاروں افغان درخواست گزاروں کو خصوصی امیگریشن ویزے فراہم کر کے انہیں افغانستان سے نکالنے کو کوششوں میں ہے جنہیں ماضی میں امریکہ کو خدمات فراہم کرنے کی وجہ سے طالبان کی انتقامی کارروائیوں کا اندیشہ ہے۔

علاوہ ازیں امریکی دفتر خارجہ نے طالبان کی جانب سے سابق مترجمین اور دیگر افغان شہریوں کو ہدف بنا کر نشانہ بنانے اور بنیادی ڈھانچہ تباہ کرنے کی مذمت کی ہے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان جلینا پورٹر کا معمول کی پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ امریکہ ہدف بنا کر کی جانے والی کارروائیوں، بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور افغانستان کی عوام پر کیے جانے حملوں کی مذمت کرتا ہے۔

رپورٹس کے مطابق ان تعلیم یافتہ افغان باشندوں خاص طور پر خواتین اور ان لڑکیوں کی طرف سے طالبان کی تیزی سے کی جانے والی پیش قدمی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ جنہیں طالبان دور حکومت میں اسکول جانے اور ملازمتیں کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ ان لسانی اور مختلف فرقہ وارانہ اقلیتوں کی طرف سے پریشانی کا اظہار کیا گیا ہے جنہیں طالبان نے مذہب اسلام کی اپنی خود ساختہ تشریح کی پاداش میں سخت جبر کا نشانہ بنایا تھا۔

افغان شہریوں کی امریکہ منتقلی

توقع کی جا رہی ہے کہ افغانستان سے لائے جانے والے افغان شہریوں اور ان کے خاندان کے پہلے گروپ کو رواں ماہ کے آخر تک فورٹ لی میں قائم امریکی اڈے پر پہنچا دیا جائے گا۔ جہاں وہ امریکی ویزے کے حصول کے لیے کی جانے والی کارروائی مکمل ہونے تک انتظار کریں گے۔

پینٹاگان کا پیر کو کہنا تھا کہ لگ بھگ اڑھائی ہزار افغان شہریوں کو فورٹ لی پہنچایا جائے گا۔ جو کہ ریاست ورجینیا کی دارالحکومت رچمنڈ کے جنوب میں 30 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔

پناہ گزینوں کی ضروریات سے نمٹنے کے لیے فنڈز کی منظوری

امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان میں پیدا شدہ صورت حال کے مد نظر پناہ گزینوں کی غیر متوقع اور فوری ضروریات سے نمٹنے کے لیے ہنگامی فنڈ سے 10 کروڑ ڈالر تک کی منظوری دی ہے۔

وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق امریکی صدر نے پناہ گزینوں کی ضروریات سے نمٹنے کے لیے امریکی اداروں کے فنڈ سے 20 کروڑ ڈالر کی رقم جاری کرنے کی بھی منظوری دی ہے۔

اس خبر میں کچھ معلومات خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے لی گئی ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments