مبشر علی زیدی اور مبینہ فرشتہ صفت سالار اعظم


بیرون ملک مقیم جناب مبشر علی زیدی صاحب ادب کی دنیا کا بڑا نام ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے بذریعہ ٹویٹس ایک شریف النفس اور ولی اللہ قسم کے جرنیل سے وطن عزیز کی باگ ڈور سنبھالنے کی معصومانہ خواہش کا اظہار کیا ہے۔ مذکورہ ٹویٹس سے جہاں جمہوریت پسندوں کو تشویش لاحق ہوئی ہے، وہیں زیدی صاحب سے محبت کرنے والے ان کی معصومانہ خواہشات پر حیران پریشان بھی ہیں۔

مبینہ ولی اللہ جرنیلوں سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے۔ ایسے اسلامی تاریخی ناولز سے شغف رکھنے والے حضرات ہی فرشتہ صفت ولی اللہ جرنیل کی آمد کو وطن عزیز کے لیے نیک شگون سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے بھولے بھالے افراد کے علم میں لانا ضروری ہے، کہ ایک مبینہ فرشتہ صفت ولی اللہ جرنیل 70 کی دہائی کے اواخر اور 80 کی دہائی میں وطن عزیز میں حکومت کر گیا ہے، جس کی باقیات سے پیچھا اب تک نہیں چھڑایا جا سکا ہے۔

اس مبینہ فرشتہ صفت ولی اللہ سالار کا نام گرامی جنرل ضیاء الحق تھا۔ موصوف نے 5 جولائی 1977 کو اقتدار پر اس وقت قبضہ کیا، جب حکومت اور متحدہ اپوزیشن میں مذاکرات کامیابی سے قریباً اختتام کو پہنچ چکے تھے اور مذاکرات کی کامیابی کا اعلان باقی تھا۔ شراب اور قمار بازی پر پابندی لگ چکی تھی اور اتوار کی بجائے، جمعہ کو یوم تعطیل قرار دینے کا حکم نامہ جاری ہو چکا تھا۔

جنرل ضیاء الحق 90 دن میں صاف و شفاف انتخابات کے غیر شفاف نعرے کے ساتھ اقتدار پر قابض ہوئے تھے اور متحدہ اپوزیشن کے چیدہ چیدہ دینی و سیاسی رہنماؤں کو بشارتیں سنا کر اپنی کابینہ میں شامل کر چکے تھے۔ گو کہ یہ جرنیل 90 دن میں انتخابات کے وعدے سے چند دن میں ہی مکر گیا اور احتساب کا نعرہ لگانے کے ساتھ قوم کو مطلع کیا، کہ یہ سب کچھ میں سابق متحدہ اپوزیشن کی خواہشات پر کر رہا ہوں۔

سابق وزیر اعظم کے عدالتی قتل کے بعد 1979 کے اکتوبر میں جنرل ضیاء الحق نے انتخابات منعقد کرانے کا اعلان کیا۔ اور حسب توقع پھر وعدہ خلافی کی۔ اور نظام مصطفیٰ کا خوش کن جذباتی نعرہ لگایا۔ نظام مصطفیٰ تو خیر کیا قائم ہوتا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ موصوف فرمانے لگے کہ نظام مصطفیٰ کا مطالبہ کرنے والوں کے پاس تو کوئی ایسا خاکہ ہی نہیں کہ نظام مصطفیٰ کا نفاذ کیا جا سکے۔ اور قدرت نے بھی کچھ ایسا ساتھ دیا کہ افغانستان میں روسی فوجی مداخلت جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی طوالت کا باعث بنی۔

اب ہر طرف جہاد کی آوازیں تھیں۔ اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ مسلمان تو کیا، غیر ملکی اور غیر مسلم سربراہ بھی جھومتے تھے۔ امریکا، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کے ساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی مبینہ افغان جہاد میں حصہ لے رہے تھے۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان ہجرت کر گئے۔ گلی گلی مسجدیں اور مدارس قائم ہوئے۔ اور کراچی کے در و دیوار جہاد میں شرکت اور تربیت کے نعروں کی زینت بن گئے۔

ڈالروں ریالوں کی ریل پیل نے فرشتہ صفت حکمران کو ملک کے داخلی مسائل سے غافل کیا۔ اسی وجہ سے علاقائیت، لسانیت اور فرقہ واریت پر مبنی تنظیموں کا قیام عمل میں آیا۔ جب سے لسانیت اور فرقہ واریت نے وطن عزیز میں جڑیں مضبوط کی ہوئیں ہیں۔ بے شعور شہری ان تنظیموں کے آلۂ کار بنے اور ایک دوسرے کے قتل عام میں ملوث ہوئے۔ 1985 کے غیر جماعتیں انتخابات میں کچھ ایسے مفاد پرست افراد اراکین اسمبلی بنے، جن کی وجہ سے جمہوریت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا۔ جس کے اثرات اب تک ملکی سیاست میں پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

جنرل ضیاء الحق غچہ دینے والے ایسے مبینہ فرشتہ صفت جرنیل تھے۔ جنہوں نے بڑے بڑے بزرگوں کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا۔ اپنے بچوں کا نکاح بھی وطن عزیز کے بڑے بزرگوں سے پڑھاتے تھے اور پھر ان کی نماز جنازہ میں شرکت کر کے مزید کو غچہ دیتے تھے۔ یہی کچھ شکایت مبینہ افغان جہاد کے مرکزی کردار امریکا کو بھی موصوف سے تھی۔ امریکا نے ایک سفیر کی قربانی دے کر موصوف سے جان چھڑا لی، لیکن وطن عزیز جنرل ضیاء الحق کی باقیات اور مبینہ افغان جہاد کے اثرات سے نمٹنے میں اب تک قاصر ہے۔

مبینہ افغان جہاد سے لے کر اب تک ملکی خارجہ پالیسی، دفاعی حکمت عملی اور سیاست جس ڈگر پر ہے، اس نے ہم کو دنیا بھر میں تنہا کر دیا ہے۔ ایسی صورت حال میں وطن عزیز مزید کسی فرشتہ صفت ولی اللہ قسم کے جرنیل کا متحمل نہیں ہو سکتا، جو ملکی باگ ڈور سنبھالے۔ چونکہ سلسلہ سالاریہ کے ایک مبینہ فرشتہ صفت سالار اعظم کے پیدا کیے ہوئے، مسائل سے نمٹنا مشکل ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments