جب یورپ میں انسانوں کو گناہگار قرار دے کر زندہ جلایا جاتا تھا!


آپ نے یقینا تاریخ کے اس سیاہ باب کے بارے میں بچوں کے رسالوں، اخبارات یا ڈائجسٹوں میں پڑھا ہوگا جن میں نمک مرچ لگا کر بتایا گیا ہوتا ہے کہ یورپ میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر جادوگرنیوں کو جلایا جاتا تھا۔

بدعقیدہ افراد (ہیریٹک) کو موت کی سزا دینے کا حکم پوپ انوسنٹ چہارم نے 1251ء ہی میں دے دیا تھا یہ وہ وقت تھا جب یورپ کے طاقتور ممالک کے بادشاہ اپنے اقتدار کے لئے پوپ کی آشیرباد کے محتاج ہوا کرتے تھے۔ پوپ نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ تمام عیسائی ممالک اپنے یہاں سے بدعقیدگی کا خاتمہ کریں ورنہ خود بدعقیدگی کے الزام کے تحت کلیسا سے تعلق واسطہ توڑنے کو تیار ہوجائیں۔ 1478ء میں ملکہ ازابیلہ اور شاہ فرڈیننڈ نے مذہبی عدالت(انکویزیشن) کا آغاز کیا اور مفتش اعظم(گرینڈ ان کوئزیٹر) کے عہدے پر ڈومینیکن راہب تھوماس ٹورکیماڈا کو فائز کردیا جس نے اپنے پندرہ سالہ دور میں نت نئے وحشیانہ قوانین بنا کر مذہبی عدالت کو آنے والی صدیوں کے لئے خوف و دہشت کی علامت بنا دیا۔

ٹورکیماڈا کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مذہبی عدالتوں نے ملک کے قریہ قریہ کے دورے شروع کردیئے۔ جہاں پہلے ایک شعلہ بیان مقرر خطاب کرکے حاضرین کے مذہبی جوش و ولولہ کو بھڑکاتا اور آخر میں مجمع میں موجود افراد کو دعوت دیتا کہ وہ آگے بڑھ کر اپنے صحیح العقیدہ ہونے کا اقرار اور عدالت سے اپنی وفاداری کا اظہار کریں۔

یہ وہ دور تھا جب ہسپانیہ سے مسلم اقتدار کا سورج غروب ہو چکا تھا مسلمان اور یہودی یا تو ہجرت کر چکے تھے یا حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر عیسائیت قبول کرچکے تھے۔ مذہبی عدالت کا کام لوگوں کو ”ہیریسی“ سے بچانا تھا ہیریسی کے لغوی معنی تو بدعت کے ہیں لیکن مفتش اعظم نے اس کی تعریف کو بہت وسیع کرتے ہوئے مذہبی شعائر سے ناواقفیت، لادینیت، ایک سے زیادہ شادیاں، ہم جنس پرستی، جادو ٹونہ، غیب دانی، حکومت کی مخالفت، جنسی آزادہ روی، ذہنی امراض سب کچھ کو بد عقیدگی میں شامل کرلیا تھا۔ اس دوران میں جب طاعون کی وبا پھوٹی جس نے آدھی آبادی کو صفایا کردیا تو کلیسا نے لوگوں کو بتادیا کہ ان کی بد اعمالیوں، یہودی اور جذامیوں کے وجود نے قہر الہی کو دعوت دی ہے۔ اس وقت تک طب نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ طاعون اور جذام جیسی بیماریوں کے سائنسی اسباب کا علم ہوتا۔

ابتدا میں ان افراد پر جو اسلام یا یہودیت چھوڑ کر دائرہ مسیحیت میں داخل ہوئے ہوں بد عقیدہ ہونے کے الزام لگتے لیکن رفتہ رفتہ یہ ایک ایسی چکی بن گئی جس کے پاٹوں کے بیچ آکر پسنے والوں میں اکثریت مسیحی تھے۔ ایسے ملزمان کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے تیس سے چالیس دن دیے جاتے۔ ان کو یہ موقع بھی ملتا کہ وہ مذہبی عدالت کے روبرو نا صرف اپنے بلکہ اپنے پڑوسیوں کے گناہوں کااعتراف بھی کرلیں اور توبہ کے طلبگار ہوں۔ عدالت کو بھی اختیار تھا کہ جہاں دیکھیں کہ توبہ خلوص نیت سے کی جارہی ہے وہاں نرمی سے کام لیں۔ لیکن کیونکہ جرم انتہائی سنگین ہے اور مکمل نظر انداز کرنے پر آسمان سے بلائیں اور آفات نازل ہوسکتی ہیں لہذا تھوڑی بہت سزا تو ناگزیر بنتی ہے۔ چنانچہ ایسے مجرموں پر آرام دہ لباس اور زیورات کا استعمال تاعمر ممنوع قرار پاتا اور ان کی تمام دولت اور جائداد بحق سرکار ضبط کرلی جاتی۔

بدعقیدگی کے وہ مجرمان جو معینہ مدت کے بعد عدالت کے سامنے رضاکارانہ پیش ہوتے، عدالت ان کے ساتھ بھی خصوصی رحم دلی کا برتاؤ کرتی۔ یعنی صرف ان کی جائداد ضبط کر لی جاتی اور انہیں بقیہ زندگی قید میں گزارنی پڑتی۔

مذہبی عدالت کے معتوب افراد کے غلاموں کو ریاست آزاد کردیتی چنانچہ انہیں بھی ترغیب ہوتی کہ وہ اپنے آقا کے عقیدے کی صحت اور شعائر کی ادائگی پر نظر رکھیں اور بروقت متعلقہ حکام کو مطلع کریں۔

اپنے والدین کی تعلیمات کے نتیجے میں بد عقیدگی کا شکار ہونے والے بچوں کے لئے بھی خاص رعایت تھی کہ اگر وہ مذہبی عدالت کے سامنے صحیح صحیح بتا دیں کہ والدین کس کس گناہ کے مرتکب ہورہے تھے تو انہیں ہلکی پھلکی سزا دے کر کلیسا کے سپرد کردیا جائے گا جہاں انہیں اصل دینی تعلیمات سے روشناس کیا جائے گا۔

ان الزامات کی زد میں آنے والے افراد جو اپنی خطاؤں پر نادم ہوں انہیں کلیسا کو راضی کرنے کا مناسب موقع دیا جاتا لیکن اس کے لئے بس ایک چھوٹی سی شرط یہ ہوتی کہ وہ اپنے گمراہ دوستوں کے گناہوں کے بارے میں بتائیں تاکہ ان کے گناہوں کا بوجھ بھی ہلکا کیا جا سکے۔

صرف اور صرف ان افراد کو جن پر شک ہوتا کہ وہ سچے دل سے تائب نہیں ہوئے ہیں غیر مذہبی شہری حکام کے حوالے کیا جاتا کہ انہیں جلا کر مار ڈالیں۔

فرار ہونا آسان نہیں تھا لیکن مفرور ملزم کو مجرم تسلیم کرلیا جاتا اور اس کا پتلہ بنا کر سرعام نذر آتش کردیا جاتا۔ اور پیچھے رہ جانے والے عزیز اقربا کو تفتیش سے گذرنا پڑتا۔ اگر کسی گناہ گار کا گناہ بعد از مرگ سامنے آتا تو اس کی قبر کھود کر مردہ نعش اور ہڈیوں کو بیچ بازار جلا دیا جاتا۔

جیسے جیسے مذہبی عدالتوں کا دائرہ کار بڑھتا گیا بدکار پادریوں اور راہبوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ ظلم یہ تھا کہ انہیں تو اعتراف جرم اور معافی تلافی کے بعد چھوڑ دیا جاتا لیکن ان کی زیادتیوں کا نشانہ بننے والے خواتین اور نو عمر لڑکے ’ہیریٹک‘ قرار پاتے اور سخت سزا کے مستحق سمجھے جاتے۔

دولت اور اثرو رسوخ ان مذہبی عدالتوں کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر کوئی کاونٹ یا ڈیوک اپنے علاقے میں میں ان پر قدغن لگاتا تو اسے بدعقیدگی کا معاون اور مددگار سمجھا جاتا اور اس کی جان بھی خطرے میں پڑجاتی۔

کسی مرد یا عورت پر الزام لگانے کے لئے دو گواہ ہونا کافی تھے جن کے نام مخفی رکھے جاتے۔ ریاست اور کلیسا دونوں ہی کی خواہش تھی کہ ملک میں ایک ہی عقیدے کے اور وفادار لوگ بستے ہوں جن سے کسی بغاوت یا اختلاف رائے کی کوئی امید نہیں ہو ویسے بھی ضبط شدہ جائداد ملکی خزانے میں آتی اچھی لگتی۔

اگر کوئی کیس ثابت نہیں ہوتا تو ملزم کو ایذا رسانی اور اعتراف جرم کے لئے گرفتار کرلیا جاتا۔ یہ گرفتاریاں ہمیشہ رات کے اندھیرے میں ہوتیں۔ ملزم کا فورا ساتھ چلنے کو کہا جاتا۔ شور مچانے والے کے منہ میں خاموش رکھنے کے لیے ایک آلہ ڈال دیا جاتا جو اس کے جبڑے چیر دیتا۔ اسے مذہبی عدالت کے دفتر مقدسہ (ہولی آفس) لے جایا جاتا۔ مقدمے کی کارروائی عوام سے خفیہ رکھی جاتی۔ مفتش اعظم کی خصوصی ہدایت تھی کہ ملزم پر جرح سے پہلے کاغذات کی جانچ پڑتال میں وقت ضائع کیا جائے تاکہ خوف کی فضا برقرار رہے۔ ملزم ماحول اور اپنے ممکنہ انجام سے خوفزدہ ہو کر جلد رونے، گڑگڑانے لگ جاتا۔

تفتیشی عملے کو صاف بتایا گیا ہوتا کہ ملزم گناہ گار ہے اس لئے اس پر کوئی ترس نہیں کھایا جائے اگر وہ اتنا ہی نیک صاحب ایمان ہوتا تو کیا گناہ کے جال میں پھنستا۔ یوں بھی ایک کی سزا ہزاروں کی جزا اور نجات کا باعث بنے گی۔

تفتیش میں بار بار ملزم کو سمجھایا جاتا کہ وہ ایک گستاخ بچہ ہے اور بس۔ اور اگر اس نے خود پر لگے الزامات تسلیم کر لئے اور توبہ کرلی تو عین ممکن ہے ایک مشفق باپ کی طرح کلیسا اپنے لطف و کرم کے دروازے ایک بار پھر اس پر وا کردے۔ اس مرحلے پر اعتراف جرم نہ کرنے والے سے مسلسل پیچیدہ جرح کی جاتی جس کے دوران نادانستہ زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو جوڑ کر اقبال جرم کہہ دیا جاتا۔ دوسری صورت میں ملزم کو جیل بھیج کر اس کے ایسے دوستوں کو ملاقات کے لئے بھیجا جاتا جو درپردہ دفتر مقدسہ کے ایجنٹ ہوتے اور باتوں باتوں میں ملزم کو جرم کے اقبال کے لئے راضی کرتے۔

اعتراف نہ کرنے والوں کو پہلے عقوبت خانوں کی سیر کرائی جاتی، گھپ اندھیرے میں ایک شمع روشن کرکے اذیت سہتے قیدیوں کا حال دکھایا جاتا۔ ان کی دل دہلا دینے والی چیخیں سنوائی جاتیں۔ ایذا رسانی کے آلات دکھائے جاتے جن میں سب سے ہولناک وہ شکنجہ تھا جس میں آدمی کو دہرا کرکے کسنے سے انسان کی کمر ٹوٹ جاتی۔ اور پہیہ جس پر باندھ کر کھینچنے سے بازو اور ٹانگوں کے جوڑ ایک ایک کرکے اپنی جگہ سے ایسے نکل جاتے جیسے انسان نہ ہو پلاسٹک کی گڑیا ہو۔ ایک کرسی جس پر لمبی لمبی کیلیں نکلی ہوتیں ان پر قیدی کو باندھ کر بیٹھایا جاتا۔ یہ تمام آلات آج بھی یورپ کے کسی بھی ملک کے متعلقہ عجائب گھروں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

اس انسانیت سوز ٹارچر کے نتیجے میں حاصل کردہ اعترافات کو اقبال جرم قرار دے کر مذہبی عدالت اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوجاتی اور ملزم کو شہری انتظامیہ کے حوالے کردیا جاتا جو ملزم کو عوامی اجتماعات میں زندہ جلاتی۔ اندازہ ہے کہ صرف اسپین میں لاکھوں معصوم لوگ بے بنیاد الزام پر ایک ایسے جرم میں جلائے گئے جس کی انہیں خبر تک نہیں تھی۔

یہ عمل صرف سپین تک محدود نہیں تھا پورا یورپ انیسویں صدی تک اس کی لپیٹ میں رہا۔ بڑے بڑے دانشوروں کو اس کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ اس وقت عیسائی دنیا میں بطلیموس کے نظریات کو مذہبی اہمیت حاصل تھی جن کی رو سے دنیا مرکز ہے جس کے گرد سارے سیارے اور ستارے گھومتے ہیں۔ اطالوی ماہر فلکیات برونو نے ان نظریات کو چیلنج کیا تو اس کے خیالات کو توہین مذہب کہہ کر اسے روم میں سرعام جلا دیا گیا۔ گلیلیو گلیلی بھی اسی طرح مارا جاتا لیکن اس نے آخری لمحات میں اپنے دعووں سے انکار کر کے کلیسا سے معافی مانگ لی اس طرح اس کی جان بخشی تو ہو گئی لیکن پھر تاعمر اسے اپنے گھر میں قید رہنا پڑا۔ مشہور برطانوی کیمیاء دان جوزف پریسٹلی جس نے آکسیجن دریافت کی تھی کو بھاگ کر امریکہ میں پناہ لینی پڑی جبکہ برمنگھم میں علامتی طور پر اس کے پتلے کو جلایا گیا۔

جلائے جانے کی تقریب خوب مشتہر کرکے منعقد کی جاتی۔ لوگ دور دور سے ہزاروں کی تعداد میں یہ منظر دیکھنے آتے۔ مذہبی اہلکار سب کے سامنے کھڑے ہو کر ملزم کے خلاف فرد جرم پڑھ کر سناتے۔ مفتش اعظم اپنے خطاب میں انسان کے ناشکرے پن اور مسلسل نافرمانی پر سخت تاسف کا اظہار کرتا مجمع ملزم کو غلیظ ترین گالیوں اور بددعاوں سے نوازتا۔ پھر ایک کھلے میدان کے بیچوں بیچ لکڑی کے گٹھر کھڑے کرکے ملزم کو باندھ کر آگ لگائی جاتی۔ فضا میں گوشت جلنے کی بو پھیل جاتی۔ مجمع خوشی سے نعرے لگاتا۔ یورپ میں کئی سو سال تک یہی تماشا ہوتا رہا۔ دس سالہ بچے سے لے کر نوے سالہ بزرگ تک کو بدعقیدگی کے غیر واضح الزام پر جلتی آگ میں دھکیلا گیا۔ فرد واحد تو کجا کسی ریاست میں بھی طاقت نہیں تھی کہ اس درندگی کو روک سکتی۔ یورپ میں مذہب بیزاری کی جو روش عہد حاضر میں نظر آتی اس کی پشت پر مفتیان دین کے یہی انسانیت سوز کارنامے ہیں۔

آج پاکستان میں بھی کچھ ناعاقبت اندیش قوتیں راکھ کو کرید کرید کر اور پھونکیں مار مار کر جس آگ کو بھڑکانے کی کوشش کررہی ہیں اگر اس کے شعلے اٹھ کھڑے ہوئے تو جانے کس کس کا گھر جلائیں گے اور پھر شاید دنیا کی کوئی قوت اسے بجھا بھی نہ پائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments