عورت: مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا


ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنا اس ریاست کی ذمے داری ہے، عورت بہی اس ملک کی شہری ہے اسے تحفظ دینا ریاست کی ذمے داری ہے، جو کہ وہ پوری تو نہیں کر رہی، لیکن اس کے برعکس اس ملک کا وزیراعظم کہتا ہے کہ عورتوں کا لباس مردوں کو ان کے ساتھ ریپ کرنے پر اکساتا ہے۔ جس ملک کے وزیراعظم کی سوچ اتنی، فرسودہ اور دقیانوسی ہو وہاں پر اس ملک کے باقی لوگوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس ملک میں اسی فیصد عورتیں چادر اور چاردیواری کے اندر قتل ہوتی ہیں، نوی فیصد عورتوں کو قتل کرنے والے ان کے اپنے سگے رشتے دار ہوتے ہیں، باپ، بھائی، شوہر، بیٹا، اور قریبی رشتے دار وغیرہ۔

کوئی بہی واقع ہو چاہے اس میں عورت کی غلطی ہو یا نہ ہو مگر ذمے دار عورت کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے، اسی کی غلطی ہوگی، اس نے ہی کچھ غلط کیا ہو گا، اس نے ہی اشتعال دلایا ہو گا ورنہ مرد پاگل تھوڑی ہے جو ایس ہی ہاتھ اٹھائے گا، صبر کر لیتیں، برداشت کر لیتیں، اتنا ڈھنڈورا پیٹنے کی کیا ضرورت تھی۔ شوہر نے اگر دو تھپڑ لگا دیے تو کیا ہو گیا، کون سی نئی یا انہونی بات ہے، شوہر تو مجازی خدا ہے اسے حق ہے بیوی کو ٹھیک رکھنے کے لئے اس کی وقت بہ وقت مرمت ہونا ضروری ہے۔

یہاں تک کے ماہواری کے دنوں میں، زچگی کے دنوں میں، بیماری کے دوراں یا کسی بہی وجہ سے بیوی اگر شوہر کو جنسی تعلقات قائم کرنے سے کچھ دنوں کی مہلت مانگے تب بہی مرد اسے دو تھپڑ لگا کر نا صرف اپنی خواہش پوری کرتا ہے بلکہ وہ اسے آئندہ کے لیے بہی سبق سکھانا ضروری سمجھتا ہے تاکہ آئندہ یہ نوبت ہی پیش نہ آئے۔ ہمیں بہت ہی چھوٹی سی عمر سے سکھایا جاتا ہے ظلم کو سہنا برداشت کرنا۔ بھائی نے دو تھپڑ لگا دیے تو کوئی بات نہیں، بھائی ہے کون سا تم اس سی مر جاؤ گی، کیا تم بہی مارو گی شرم نہیں آئے گی بھائی کو مارتے ہوئی، یہ سب کرتے کرتے نوبت یہاں تک آ پہنچتی ہے کے کتنی عورتیں اپنی جاں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں یا پھر تنگ آ کر خودکشی کر لیتی ہیں۔

اگر اس دن ماں باپ نے اس تھپڑ کو روکا ہوتا، برداشت کرنے کے بجا اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا، اپنے حق کے لئے لڑنا سکھایا ہوتا تو آج بہت ساری قرت العین زندہ ہوتیں۔ ایسا نہیں ہے کے کسی کو پتہ نہیں ہوتا، گھر والوں کو پتہ ہوتا ہے لیکن وہ گھر بسائے رکھنے اور صبر کرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں، سسرال والوں کو پتہ ہوتا ہے بلکہ یوں کہیں کے وہ شریک جرم ہوتے ہیں تو اس میں کچھ غلط نہیں ہو گا وہ تو اپنے بگڑے ہوئے بیٹے کی شادی اس لئے کرواتے ہیں کے بہو آ کر اس کو سدھاری گی اگر نہیں سدھرا تو کم سے کم ہمارے سر سے تو مصیبت اترے گی۔

وہ جانے، اس کی بیوی جانے، بیوی نہ ہوئی جیسے ذہنی مریضوں کو ٹھیک کرنے کی ہسپتال، بھائی اپنی ذہنی مریض بیٹے کو نفسیاتی مریضوں کی ہسپتال میں بھرتی کر واؤ کسی اور کی بیٹی کی زندگی کو کیوں جہنم میں ڈال رہے ہو۔ پڑوسیوں کو تو انتظار رہتا ہے ہائے ہائے کئی دن ہو گئے ان کے گھر سے لڑنے جھگڑنے کی آواز نہیں آئی لگتا ہے بہو میکے گئی ہے۔ دوست یہاں تک کے کئی کیسز میں پولیس کو بہی پتا ہوتا ہے جیسے قرت العین اور نور مقدم کے کیس میں ہوا سب کو پتہ تھا عینی نے تو شاید یہ سوچ کر اپنی بھابھی کو آخری فون کیا ہو گا کے شاید کوئی اسے بچانے کے لیے آ جائے اسے زندہ رہنا تھا، وہ جینا چاہتے تھی اپنے لئے اپنے بچوں کے لئے۔

لیکن گھر والوں نے سوچا ہو گا کے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے دس سال سے یہ سلسلہ چل رہا ہے، آخر تو شوہر ہے چار بچوں کا باپ ہے جان سے تھوڑی مار دے گا اپنے بچوں کے بارے میں تو ضرور سوچے گا، ہم خود اپنے بچوں کے بارے میں نہیں سوچتے لیکن دوسروں سے یہ امید رکھتے ہیں کے وہ ایسا نہیں کریں گے۔ ہم اپنے لئے تو کبھی جیتے ہی نہیں ہیں، ہم لوگوں کے لئے جیتے ہیں، لوگ کیا کہیں گے، لوگ کیا سوچیں گے، ہماری عزت کا کیا ہو گا، بچوں کا کیا ہو گا، لیکن یہ سب تو اب بہی ہو رہا ہے، عینی مر گئی ہے باتیں تو زندہ ہیں وہ تو اب بہی ہو رہی ہیں، خاموش رہتی تو اچھا تھا کم سے کم زندگی سے تو ہاتھ نہ دھونے پڑتے۔

مرد کا کیا ہے اسے تو عادت ہے گھاٹ گھاٹ کے پانی پینے کی، ادھر ادھر سے مونہہ مار کر گھر ہی تو واپس آتا ہے، کون سا کہیں چلا جائے گا، کس چیز کی کمی تھی، بڑی گاڑی، بنگلا، برانڈڈ کپڑے جوتے، گھومنا پھرنا عیش کر رہی تھی عیش اور کیا چاہیے۔ تو جناب عالی عورت کو صرف جوتے کپڑے آلو پیاز نہیں چاہیے، اسے عزت محبت چاہیے، اسے اپنا مقام چاہیے، وقار کے ساتھ جو نہیں ملتا۔ اور بچے، بچوں پر تو یہ اثر ہوا ہے کے وہ کہہ رہے ہیں کے ہمیں ایسا باپ نہیں چاہیے جس نے ہماری ماں کو اتنی بے رحمی اور سفاکیت سے مارا ہے خدارا لوگوں کے لئے مت جئیں اپنی بیٹیوں کو لوگوں کی رحم کرم پر مت چھوڑیں، ان کے لیے اپنے گھر کے دروازے کھلے رکھیں انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا کریں۔ وہ آپ پر بوجھ نہیں بنے گیں وہ آپ کا سہارا بنے گیں بیٹیوں جیسے پیاری چیز اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں اپنے کسی پیارے کی لاش اٹھانی سے اس کے حق کے لیے آواز اٹھانا بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments